با ضابطہ بین الافغان مذاکرات، غیر جانبدار ممالک کی زیر نگرانی ریفرنڈم؟


افغانستان میں قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششیں نئے دور میں داخلے کی منتظر ہیں۔ امریکا اور افغان طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات طے پائے جانے کے بعد بین الافغان مذاکرات کے لئے، معاہدے کے مطابق اولین دو شرائط پر امریکا کو عمل درآمد کیے جانے کا پابند کیا گیا تھا۔ دوحہ معاہدے کی شق کے مطابق امریکی افواج کی مرحلہ وار واپسی کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ و افغان طالبان کے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے ختم کرانا تھا۔

جنگ بندی کے حوالے سے غیر ملکی افواج پر حملے ختم کرنے اور انہیں واپسی کے لئے محفوظ راستہ مہیا کرنے کے وعدے پر افغان طالبان کی جانب سے مکمل طور پر عمل درآمدکیا گیا۔ مارچ 2019 کے بعد سے افغان طالبان پر امریکا یہ الزام عاید نہیں کر سکا کہ افغان طالبان نے غیر ملکی فوجی، قافلے یا بیس کیمپ پر حملہ کیا گیاہو۔ تاہم افغان طالبان نے امریکا پر یہ الزام ضرور عاید کیا کہ غیر ملکی افواج نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر افغان طالبان کے زیر اہتمام علاقوں پر حملہ کیا، جس میں بڑی تعداد میں عام شہری بھی نشانہ بنے۔ خیال رہے کہ امریکا نے دوحہ معاہدے کے بعد ابتدائی طور پر 50 فوجی اڈے خالی کردیئے ہیں۔

83 قیدیوں کی رہائی اس وقت بین الافغان مذاکرات کی راہ میں رکاؤٹ بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ وہ رہنما ہیں جو افغان طالبان کے لئے اہمیت کے حامل ہیں اور بین الاقوامی مذاکرات کی کامیابی کے بعد کسی ممکنہ حکومت سازی میں کوئی کردار شامل ہو سکتا ہے، یہ امر خارج از امکان نہیں۔ دوحہ مذاکرات کے لئے بھی امارات اسلامیہ کی قیادت و مجلس شوریٰ نے ان ہی اسیروں کو منتخب کیا جو امریکا، کابل اور پاکستان کے پاس اسیر تھے۔ انہی قیدیوں کی رہائی کے بعد امریکا اور غنی انتظامیہ نے قبول کیا اور برابری کی سطح پر درد سر مذاکرات کو تکمیل تک پہنچایا۔

یہی وہ افغان طالبان کے قیدی تھے جنہوں نے قطر میں مفاہمتی عمل و دوحہ سیاسی دفتر کا انتظام سنبھالا اور اہم ممالک کے سفارتی دوروں میں افغان طالبان کے موقف کو سامنے رکھا۔ ان قیدیوں پر بھی سنگین الزامات عاید کیے گئے تھے لیکن قیام امن کے لئے پاکستان کی سہولت کاری کے نتیجے میں دوحہ مذاکرات کے بار بار ڈیڈ لاک ہونے پر بھی تاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ کابل انتظامیہ اپنے کمزور موقف کے ساتھ ان ہی قیدیوں کو رہا کرچکی ہے، جن کی اصولی منظوری دوحہ معاہدے میں عمل پذیر ہوئی۔

کابل انتظامیہکو تاخیری حربے استعمال کیے جانے کا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوا اور افغان طالبان کی مہیا کردہ فہرست کے مطابق پانچ ہزار میں سے 4917 قیدیوں کا تبادلہ 1005 اسیروں کے ساتھ کر دیا گیا۔ تاہم تاخیری حربوں سے افغانستان میں قیام امن کے راہ میں رکاؤٹ و دوحہ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ افغان طالبان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کا عمل اس سال 12 اپریل کو شروع ہوا تھا، جو 3 ماہ اور 16 روز میں مکمل ہوا۔ انہوں نے ملک کے 30 صوبوں سے 54 مرحلوں میں کابل انتظامیہ کے 1005 ایک ہزار پانچ قیدیوں کی رہاکرکے ثابت کیا کہ وہ مسائل کے پرامن حل کے حصے میں سنجیدہ اور پیش قدم ہے۔

امن دشمن عناصر کو افغان طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کی توقع نہیں تھی، داعش نے صوبہ لوگر کے صدر مقام پل عالم شہر میں عوامی ہجوم میں نہتے و بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنایا، جس میں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا جب کہ جلال آباد جیل پر حملہ کرکے اپنے 50 قیدیوں کو بھی آزادکرایا۔ کابل انتظامیہ افغان طالبان پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد سے افغانستان میں 3700 فائرنگ اور دھماکوں کے حملے ہو چکے ہیں جن میں کوئی چار سو سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ افغان طالبان نے ان میں سے بیشتر کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی بلکہ ان میں چند ایک بڑے حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی۔

بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہونے سے قبل کابل انتظامیہ نے 07 اگست کو لویہ جرگہ کے انعقاد کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کی ہے کہ افغان لویہ جرگہ باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے گا، کابل انتظامیہ کے پاس بقایا افغان قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کا موقف رد کر دیا، عالمی تجزیہ نگاروں و افغان امور پر گہری نظر رکھنے والوں کی رائے میں بھی غنی انتظامیہ کی جانب سے لویہ جرگہ کو طلب کرکے فہرست کے مطابق باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کا ایجنڈا رکھنا ماسوائے تاخیری حربے کے سوا کچھ نہیں ہے، انہوں نے کابل انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ جب انہوں نے 4917 افغان طالبان اسیروں کو رہا کر دیا اور افغان طالبان نے اپنے پاس موجود 1005 قیدیوں کو رہا کرکے وعدہ پورا کر دیا ہے تو مزید تاخیری حربے امن کے استحکام کے حوالے سے نیک شگون قرار نہیں دیے جا سکتے۔

اہم ممالک کی میزبانی کے لئے ناموں پر غور و فکر شروع ہوچکا ہے۔ بین الافغان مذاکراتی عمل میں کئی مواقع پر ممکنہ ڈیڈ لاک بھی پیدا ہوسکتے ہیں، توقع یہ کی جارہی ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا ایجنڈا وشرکا ء کی منظوری کے بعد افغان حکومت کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عمل کے درمیان افغان طالبان جنگ بندی کا اعلان کر سکتے ہیں، کابل انتظامیہ کے تاخیری حربے و امن و امان میں رکاؤٹ کی بنیادی وجہ یہی قرار دی جا رہی ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں کابل انتظامیہ کے برخاستگی کا کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے، جس سے غنی انتظامیہ اقتدار سے محروم ہو جائے۔

ذرائع کے مطابق اشرف غنی کو یہ خدشات بھی ہیں کہ افغان امن کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اپنی انتخابی شکست کے بعد اس امر پر متفق ہوسکتے ہیں کہ جنگ بندی کے لئے موجودہ کابل انتظامیہ تحلیل کردی جائے اورعبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے۔ تاہم افغان طالبان کو لچک دکھانا ہوگی کہ وہ اپنے زیر اہتما م علاقوں میں اسلامی نظام کے تحت حکومت سازی کے ساتھ پورے افغانستان میں جمہوری صدارتی نظام کے خاتمے کا مطالبہ نہ کرے اور عبوری حکومت کے زیر نگرانی ایسے انتخابات کرائے جس میں ان علاقوں کی عوام بھی شامل ہو جنہوں نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا تھا۔

قوی امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں عوام کی رائے جاننے کے لئے غیر جانبدار ممالک کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرانے پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے کہ عوام نظام حکومت کے حوالے سے اپنے فیصلے سے عالمی برداری کو آگاہ کریں۔ تاہم جب تک بین الافغان مذاکرات کے لئے دوحہ معاہدے کے مطابق فریقین، نیک نیتی سے پیش رفت نہیں کرتے، ان قیاس آرائیوں پر یقین کرنا مشکل امر ثابت ہوگا۔ افغان طالبان کے سامنے ان کے ہم وطن ہوں گے، جن میں ہر گروہ کے اپنے اپنے فروعی مفادات فوقیت رکھتے ہیں، ان حالات میں بین الافغان مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنانے کے تمام فریقین کو لچک و اصولی موقف میں افغانستان میں امن کے قیام اور تشدد کے خاتمے کو ترجیح دینا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments