پترمینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے


اگرچہ خبر کچھ پرانی ہو گئی ہے مگر ہر نئے سننے والے کوتکلیف ضرور پہنچاتی ہو گی۔ آج ایک دوست نے فیس بک پیغام شیئر کیا جو کہ ایک اردو اخبار کے تراشے کاعکس تھا، خبر پڑھ کر دل کو یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ ویسے ہونے کو توہمارے دیس میں ہر انہونی ہو کر رہی بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس ملک کا وجود میں آنا ہی ایک انہونی تھی مگر ہو گئی۔ خبر کی سرخی کچھ یوں تھی کہ ’والد کی طرف سے زیادہ رقم کا تقاضا، بیٹے نے دبئی میں خودکشی کر لی‘ ۔

کیا کوئی باپ اپنے جوان سپوت کا قاتل بھی ہو سکتا ہے؟ یقین نہ آیا تو تصدیق کے لیے انٹرنیٹ چھاننا شروع کیا۔ جلد ہی یوٹیوب پہ اس نوجوان کا ایک ریکارڈڈ ویڈیو پیغام مل گیا جو غربت اور مجبوری کی ایک تصویر تھا۔ یہ فروری 2020 کی ویڈیو تھی۔ اس نوجوان کا نام صدام خان اور تعلق ڈیرہ غازی خان چوٹی زیریں سے تھا۔ وہ دبئی میں دیگر لاکھوں محنت کش پاکستانیوں کی طرح مزدوری کر تا تھا۔ وہ روتے ہوئے اپنا پہلا اور آخری ویڈیو ریکارڈ کر رہا تھا اور لہجے سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔

اس نے اپنے عربی کفیل کے ذلت آمیز سلوک کا ذکر کیا، جن کے بارے میں چرچے پہلے ہی زبان زدعام ہیں، جو غریب الوطنوں پہ نہ صرف نفسیاتی بلکہ جسمانی تشدد سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ وہ کئی سال سے دین رات اوور ٹائم لگا کر اپنی بساط سے زیادہ رقم گھر اپنے با با کو بھجوا رہا تھا اور خود مفلوک الحال زندگی گزار رہا تھا، اس نے ادھار بھی اٹھا رکھا تھا۔ مگر اس کا لالچی باپ مزید رقم کا مطالبہ کرتا رہتا اور اسے طعنے دیتا۔

اس کا تین ماہ کا بیٹا، جسے وہ کرکٹر بنانا چاہتا تھا، اور اس کی بیوی اس کے ماں باپ کے رحم و کرم پر تھے، والدین اس کے بھائیوں کو اس کے خلاف اکسا کر اس کے لئے نفرت پیدا کر رہے تھے۔ اس نے ویڈیو پیغام میں اپنے خود کشی کے ارادے ظاہر کیے اور اپنے دوستوں کو پیغام دیا کہ جب اس کا بیٹا بڑا ہو تو وہ یہ ویڈیو اس کو دکھائیں اوراسے بتائیں کہ اس کے باپ کو اپنے ہی جینے نہیں دیتے تھے۔ مرتے وقت بھی اس کا مدعا یہی تھا کہ دبئی میں مرنے والے کو جودو لاکھ درہم ملتے ہیں شاید وہ اس کے والدین کہ خوش کر سکیں۔

باپوں کے ہاتھوں اولاد کو زندہ درگور کرنے کے واقعات تو مشہور ہیں، غیرت کے نام پہ بیٹیوں کا قتل بھی ہمارا طرہٴ امتیاز ہے۔ ہر سال ایک ہزار دختران حوا اس ظلم کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بہووٴں کو جلائے جانے اور ننھی کلیوں سے جنسی حیوانگی کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ اور ان تمام واقعات میں ملوث افراد خود بھی کسی کے والدین ہوتے ہیں۔ ابھی کل ہی کراچی میں ایک جوڑے کا اپنی نومولود بیٹی کو دو منزلہ عمارت سے نیچے پھینکنے کا دلخراش واقعہ سامنے آیا ہے۔

کیا یہ معاشرہ جو والدین کے حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتا، اولاد کے حقوق بھلا چکا ہے؟ کیا اولاد کے کوئی حقوق ہوتے بھی ہیں یا پھر انہیں حقوق کی خاطر خود والدین بننے کا انتظار کرنا پڑے گا تاکہ وہ اولاد سے اپنی محرومیوں کا پورا پورا بدلہ لے سکیں؟ انہیں وہ آیات اور احدیث سنائی جاتی ہیں جن میں والدین کے احسانات گنوا کر ان کے لیے سب کچھ لٹا دینے کے احکامات دیے گئے ہیں، جیسا کہ صدام خان کے کیس میں اس نے اپنی جان لٹا دی لیکن اسلامی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے انہیں اف تک نہیں کیا۔ اسے بتایا گیاہو گا کہ اس کی ماں کے قدموں تلے اس کی جنت ہے لیکن اس کو تواس کی جنت نے خودجہنم کی طرف دھکیل دیا۔

مشہور ہے کہ والدین کا پیار تو بے لوث ہوتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ والدین اپنی اولاد کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اپنی مرضی سے ان کا کرئیر، اپنی مرضی کی شادی اور زندگی کے تمام بڑے فیصلے ان کے احکام کے تابع۔ مادی خواہشات کی خاطر ان کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے۔ اولاد کو حکم ہے کہ شرک کے علاوہ ان کا ہر حکم تسلیم کیا جائے، بیٹے کو حکم دیا گیا ہے کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا مگر اولاد کے کیا حقوق ہیں، کیا وہ والدین کی ہر خواہش اور زیادتی من و عن قبولتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جائیں؟

حضرت علیؑ کا قول ہے کہ اپنی اولاد کو عزت دو۔ ہمارے نبی ﷺ حضرت فاطمؑہ کے آنے پر کھڑے ہو جاتے اور انہیں بیٹھنے کے لئے اپنی جگہ دیتے، یقیناً بیٹے کے لئے بھی ایسا ہی رویہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر والدین اولاد کو ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان سمجھنے کی بجائے اپنی ملکیت یا جاگیر سمجھیں اور ان کی زندگی اور موت کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ساتھ مذہبی اور معاشرتی اقدار کا دباوٴ ڈالیں، ان کی پیدائش سے لے کر بڑے ہونے تک کے احسانات کی لمبی فہرست انہیں تھما دیں تو کیا یہ کسی طور جائز ہے؟

اولاد کا اس عالم آلام میں اپنا وجود تک اس کی مرضی سے نہیں بلکہ اس کے والدین کے چند پر لطف لمحات کی دین ہوتا ہے۔ والدین بچے کوخالص اپنی خوشی کی خاطر پیار کرتے اور پالتے پوستے ہیں اور ایک کھلونے کی طرح اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اولاد کے بالغ ہوتے ہی اچانک وہی لطف ایک احسان عظیم کی شکل اختیار کیوں کر لیتا ہے جس کی بھاری گٹھری اولاد کے کاندھوں پہ رکھ دی جاتی ہے؟ کل تک جوعامی انسان خطا کا پتلا تھا وہ باپ کے رتبے پہ فائز ہوتے ہی خدا کے بعد اس زمین پہ سب سے معتبر انسان ٹھہرادیا جاتا ہے اور اس کی نافرمانی خدا کی نافرمانی قرار پاتی ہے۔

کیا گناہ گار اور نقائص سے پر انسان، ماں یا باپ بن کر کوئی گناہ یا غلطی نہیں کر سکتا اور کیا اولاد اس کی ناجائز خواہشات سے انکار اور زندگی کے فیصلے اپنی مرضی سے کرنے کا حق نہیں رکھتی؟ وہ اپنا روزگار، شادی اورحتیٰ کہ کچھ جگہوں پہ خاندانی منصوبہ بندی اور ازدواجی تعلقات میں بھی والدین کی مرضی کے پابند ٹھہرائے جاتے ہیں۔

ایسے والدین کے بچے اپنی پیدائش سے لے کر جوانی تک کی زندگی کے احسانات اتارتے اتارتے صدام خان کی طرح موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر اولاد کہیں زیادتی بھی کرتی ہے یا ان سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو بھی والدین ہی ان کی تربیت کے ذمہ دار تھے اور وہی اس میں برابر کے قصوروار ٹھہرائے جانے چاہییں۔

والدین بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور ان میں بھی تمام بشری نقائص موجود ہوتے ہیں، ان کا مقام اور حقوق اس حد تک نہیں بڑھا دیے جانے جائیں کہ اولاد کے لیے ان کے غلط احکام سے انکار کا راستہ بند کر دیا جائے اور ان کے سر پر معاشرتی اور دینی تشریحات کا دباؤ ڈال کر زباں بندی کے احکام صادر کر دیے جائیں۔

خبر کا بقیہ حصہ یوں تھا کہ صدام خان کی میت کو پاکستان پہنچا دیاگیا ’مرحوم کی بیوی غم سے نڈھال‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments