سو فی صد ڈیجیٹل بینکنگ کیوں نہیں؟


دوران سفر خاندان ”الف“ کی لڑکی کو اس کی سہیلی کا پیغام موصول ہوا کہ ایک شادی پر جانا ہے۔ تمام تیاریاں مکمل ہیں، پر جیب خالی ہے۔ لڑکی کے والد نے اپنا موبائل نکالا اور اپنے بینک کی ایپ سے اس کی مطلوبہ رقم اس کے موبائل اکاؤنٹ میں منتقل کر دی۔ اس سہولت کا استعمال انہوں نے پہلے دن نہیں کیا تھا، اس سے پہلے بھی کرتے آ رہے تھے۔ انہی صاحب کی جیب میں ایک دن کافی رقم تھی اورسفرپربھی جانا تھا۔ رستے میں چوری، ڈاکے اور جیب تراشی جیسے بہت سے اندیشے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔

اس لئے انہوں نے وہ رقم اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروا دی اور سکون سے سفر شروع کر دیا۔ دوران سفر ہی ان کو یاد آیا کہ آج بجلی کے بل کی آخری تاریخ ہے۔ اتفاق سے بل بھی ان کے بیگ میں موجود تھا۔ چنانچہ انہوں نے وین میں بیٹھے بیٹھے ہی اپنے بینک کی موبائل ایپ سے بجلی کا بل ادا کر دیا۔ اگر یہ سہولت نہ ہوتی تو سفر کا جوتھوڑا بہت مزہ تھا، کرکرا ہو جانا تھا کہ اب بل کیسے جمع کروایا جائے۔ ’لکھاری‘ بھی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔

لاہور میں اپنے ایک جاننے والے کو ایک کتاب کا تحفہ بھیجنا تھا۔ لاہور کے قریبی علاقے کے ایک عزیز کے ذمے لگایا کہ جس دن لاہور جاؤ، مطلوبہ کتاب وہاں سے خرید کر ان کو دے آنا، لیکن ایک شرط رکھی کہ پیسے میں ہی ادا کروں گا۔ مارچ کی کوئی تاریخ تھی۔ ’لکھاری‘ کسی ضروری کام کی وجہ سے ملتان کچہری میں موجود تھا کہ کتاب کے پبلشر کی طرف پیغام موصول ہوا کہ اتنی رقم بھیج دی جائے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ میں وہیں بیٹھے بیٹھے بینک کی موبائل ایپ کے ذریعے ادائیگی کر دی گئی اور مطلوبہ کتاب اگلے دن بذریعہ ڈاک وصول کر لی گئی۔

اس کے علاوہ بجلی، لینڈ لائن ٹیلی فون، گیس، پانی وغیرہ کے تمام بل اسی ایپ کے ذریعے گھر بیٹھے آرام اور سکون سے ادا ہوتے ہیں۔ ریل یا کسی اچھی بس سروس کے لئے بھی یہی ایپ کام آتی ہے۔ کتابوں کے علاوہ بھی ہر قسم کی آن لائن خریداری کے لئے بھی اسی ڈیجیٹل بینکنگ کی سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ موبائل کا بیلنس آدھی رات کو ختم ہو جائے، کسی کو عیدی بھیجنی ہو یا کسی بھی قسم کی رقم کسی دوسرے شخص کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنی ہو تو الہٰ دین کے جن کی طرح یہ ڈیجیٹل سہولت آپ کی خدمت کے لئے ہمہ وقت موجود ہے۔

جو اس سہولت کے بارے میں علم رکھتے ہیں، ان کے لئے تو یہ بہت ہی عام قسم کی معلومات ہیں۔ بلکہ ان کے پاس اس سے بھی بڑھ کر معلومات ہوں گی۔ لیکن جو نہیں جانتے، ان کو تو یہ سب کچھ جادو کا کھیل لگتا ہوگا۔ ایک پاکستانی فلم کا منظر کسی نے سنایا تھا کہ غالباً منور ظریف مرحوم یورپ کے اپنے دورے کے بعد وہاں کی ترقی کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں : ادھر سے سالم بکرا مشین میں ڈالتے ہیں تو ادھر سے کباب بن کر نکل آتے ہیں، پھر کباب ڈالتے ہیں تو بکرا نکل آتا ہے۔ کوئی ایسی ہی صورتحال دنیا میں ترقی کی ہو چکی ہے۔ بینک بھی ترقی کی اس دوڑ میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ ڈیجیٹل بینکنگ کرونا سے پہلے بھی ایک نعمت سے کم نہیں تھی، لیکن کرونا کے دوران تو اس کی قدروقیمت اور بھی بڑھ گئی کہ گھر بیٹھے بینک سے متعلقہ بہت سے کام چٹکیوں میں ہو جاتے ہیں۔

جب انسان کسی ایسی نعمت کا عادی ہو جائے اور پھر اس سے محروم ہو جائے تو پھر زندگی کافی مشکل نظر آنے لگتی ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے ’لکھاری‘ کو اچانک اس سہولت سے محروم کر دیا گیا۔ معمول کے مطابق بجلی کے بل کی ادائیگی کے لئے کارروائی شروع کی تو ایپ یہ سہولت دینے سے انکاری ہو گئی۔ ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے پر پتہ چلا کہ بینک کے جس اہلکار نے اکاؤنٹ کھولتے وقت انڑی کی تھی اس نے ایڈریس میں ایک حرف غلط ٹائپ کر دیا تھا۔

اب اس کی درستی کے لئے متعلقہ برانچ میں جانا پڑے گا۔ کہتے ہیں کہ مصیبت اکیلے نہیں آتی۔ بل کی ادائیگی کی تاریخ بھی آخری، رات کاوقت اور ایپ کام کرنے سے انکاری۔ بل بھی بھاری بھرکم کیونکہ کرونا کے دنوں میں نام نہاد ریلیف کے نام پر دو مہینے کم بل بھیج کر تیسرے مہینے پچھلے دو ماہ کے واجبات شامل کر کے صارفین کی چیخیں نکلوا دی گئی تھیں۔ ریلیف کے نام پر ایسی تکلیف، اس حکومت سے آپ کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں۔ ایک دوست کی خدمات حاصل کیں، اس نے اپنی ایپ سے بل کی ادائیگی کر دی اور بھاری جرمانے سے بچنے میں ہماری مدد کی۔

اس نعمت سے محرومی ابھی تک موجود ہے۔ ایک بینک اہلکار کی لاپرواہی کی وجہ سے ہونی والی غلطی کو درست کروانے کے لئے جب بھی برانچ کا رخ کیا تو باہر گرمی اور دھوپ میں ایک لمبی لائن دیکھ کر واپسی میں ہی عافیت جانی ہے۔ کرونا کی وجہ سے بینک کے اندر رش کی بجائے باہر لوگوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے اور باری باری سائل اندر جاتے ہیں۔ بینک والوں نے باہر کھڑے مصیبت زدوں کے لئے سائے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ لوگ بغیر ماسک پہنے ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

گویا دھوپ گرمی کے علاوہ وائرس کا بھی خطرہ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب بہت سارے کام گھر بیٹھے ڈیجیٹل طریقے سے ہو رہے ہیں تو یہ درستی اس طریقے سے کیوں نہیں ہو سکتی۔ شناختی کارڈ کی کاپی ان کے پاس ریکارڈ میں موجود ہے۔ سائل اس کی ایک اور کاپی سکین کر کے بینک کو آسانی سے ای میل کے ذریعے بھیج سکتا ہے۔ شناختی کارڈ پر درست ایڈریس موجود ہے۔ وہاں سے چیک کر کے آسانی سے اس ایک حرف کو درست کیا سکتا ہے جو بینک اہلکار کی کوتاہی کی وجہ سے ہی غلط ٹائپ ہوا ہے۔ اگرفنگر پرنٹ کی ضرورت ہے تو وہ تو پہلے کی طرح یہ کام اے ٹی ایم سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں سب کچھ آسانی سے ہو سکتا ہے تو پھر ایک معمولی تصدیق کے لئے اس برانچ میں جانا کیوں ضروری ہے، جہاں اکاؤنٹ کھولا گیا تھا؟ ہو سکتا ہے سائل اس برانچ سے بہت دور رہائش پذیر ہو اور اس کے لئے آنا مشکل ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments