عیاں کچھ بھی نہیں


بہت پہلے کسی صاحب نے مفروضہ پیش کیا تھا کہ شدید گرمی کے سبب پا کستانی لوگ ”لیتھارجی“ یعنی کچھ نہ کرنے کی عادت کا شکار ہیں۔ یہ تھا تو طنز ہی لیکن بہرحال قابل غور نکتہ یہ تھا کہ لیتھارجی سے نجات کا مداوا کیا ہو؟ گرمی میں لسی پی جاتی ہے اور لسی پی کر سونے کو دل کرتا ہے۔ اس بارے میں ایک زمانے میں جب بہت سے لوگ کمیونسٹ یا سوشلسٹ انقلاب لانے کی خواہش رکھتے تھے تب گرمی، لسی، انقلاب اور کسالت مندی سے وابستہ ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا۔

لطیفہ یوں تھا، ”کامریڈ لینن کا انقلاب لانے کی خاطر پنجاب میں آنا ہوا۔ میزبان کامریڈوں نے انہیں چھاچھ پلا دی تو کامریڈ چارپائی پر دراز ہو کر سو گئے۔ کسی نے یاد دلایا،“ کامریڈ! اٹھو! آج تو انقلاب لانا ہے ”تو وہ غنودہ آواز میں بولے،“ چھوڑو یار، انقلاب کل لے آئیں گے ”۔ اب تو اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ پورا ملک لیتھارجی کی بڑی بہن“ اپیتھی ”یعنی بے تعلقی اور بے حسی کے مجموعے کی بانہوں میں ہے۔ البتہ معاملہ ہے کچھ مختلف کیونکہ لوگوں کی اکثریت کے سامنے کوئی بھی سنسنی خیز مسئلہ رکھ دو، عدلیہ سے عوام تک اور مقتدرین سے مختلفین تک فوراً لیتھارجی اور اپیتھی کو جھٹک کر پنجے تیز کیے، دانت نکوسے اٹھ کر پوری قوت سے غرانے بلکہ چیخنے چنگھاڑنے لگ جاتے ہیں اور اس شورو شغب اور جنونیت کی فضا میں عیاں کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔

اگر ایسا کچھ ہو جو عیاں کیا جا سکے تو وہ عیاں ہو۔ یہاں تو عیاں ہونے کے لیے جو کچھ ہوتا بھی ہے اسے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کی طرح اتنی دیر تک چھپایا جاتا ہے کہ اس کا عیاں ہونا بھی تقریباً بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ عیاں کرنا تو عوام کے لیے ہوتا ہے لیکن اس مملکت خداداد میں عوام کو تو کسی کھاتے میں نہیں لکھا جاتا اور وہ جو معاملات کے پیش و عواقب سے شناسا ہوتے ہیں انہیں یہی لگن رہتی ہے کہ کوئی کچھ بھی نہ سمجھ پائے۔

اسی لیے وہ ایسے سارے جتن کر تے ہیں کہ ان کے انداز اور ارادے مخلوق خدا پر افشاء نہ ہو پائیں۔ ہاں البتہ بعض اوقات یہ ضرور کیا جاتا ہے کہ کچھ سیاسی رہنماؤں کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کچھ عیاں کرنے کے خوف کا وہ ڈرامہ کھیلا جاتا ہے، وہ ڈرامہ کھیلا جاتا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ لوگوں، میڈیا، عدلیہ اور حکومت پر ایک ہیجانی کیفیت طاری کر دی جاتی ہے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد آپس میں ہی معاملہ طے ہو جاتا ہے دوسر ے لفظوں میں ”مک مکا“ ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد صحافی تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایسا ہوگا۔ دراصل وہ اپنے تجزیوں میں پہلے سے ہی کئی پہلو اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعد میں اپنی صفائی کے لیے وہی پہلو سامنے لا کے رکھ دیتے ہیں جو معروضی طور پر حقیقت لگنے لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کوئی نامور وکیل تکنیکی حوالے سے عدالت میں اپنی کہی بات کا دوسرا رخ اختیار کر لے تو یہ تجزیہ کار اس کا احترام، تعزیم اور وقار داؤ پہ لگا دینے کے در پے ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ بیچاری دانت کچکچانے لگتی ہے، حکومت چین کا عارضی سانس لیتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ سپیروں کی پٹاریوں میں طرح طرح کے اور بھی بہت سے سانپ ہیں۔ حزب اختلاف خوش ہوتی ہے کہ چلو ایک داؤ چلنے سے ان کے حصے کا کچھ تو ملا۔

سب کچھ یا کم از کم بہت کچھ عیاں کرنے کا تو ایسے معاشروں میں سوچا جاتا ہے جہاں انسانوں کی تعظیم کی جاتی ہو، ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہوں، کوئی ادارہ کسی ادارے کے کام میں بے جا مداخلت نہ کرتا ہو، جہاں انسانی حقوق کا پاس کیا جاتا ہو، جہاں میڈیا سنسنی خیزی پھیلانے کے ذریعے کی بجائے دیانتدارانہ صحافت کا امین ہو۔ قصہ مختصر جہاں جمہوریت اپنی روح اور بدن کے ساتھ وجود رکھتی ہو۔

گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان کی سیاست، عسکری قیادت، عدلیہ اور میڈیا میں جو کچھ ہوا، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں جو کچھ پیش کیا گیا، وہ ان اطلاعات پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ جنہیں مخصوص مقاصد کی خاطر عیاں کیا جاتا ہے، تخمین و زن کا ہی پرتو تھا تاکہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ان پر بہت کچھ آشکار کیا جا رہا ہے۔ اور تو اور مقامی تجزیہ کار عموماً غیر ملکی میڈیا کی پیش کردہ خبروں اور تبصروں پر تکیہ کرتے ہیں۔

غیر ملکی بالخصوص مغربی ذرایع ابلاغ یا تو پاکستان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور یا پھر ان ملکوں کے پاکستان کے ساتھ وابستہ مفادات کے تناظر میں خبروں اور نکتہ ہائے نظر کی نشرو اشاعت کی جاتی ہے۔ کسی کو کیا پڑی کہ وہ اس ملک کے ان عوام کے لیے کچھ عیاں کرے جو ٹاک شوز کو معلومات اور تفریح دونوں ہی کا ذریعہ ماننے پر قائل ہیں جبکہ تفریح اورخبریت دو مختلف شعبے ہیں۔ جب تک جمہوریت مستحکم نہیں ہو جاتی، ایسا ہوتا رہے گا اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت کے فروغ پانے کے خوف سے دہلے ہوئے ہونے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ بھی عیاں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).