آرتھر سی کلارک کا افسانہ: خدا کے نو ارب نام


برٹش سائنس فکش ادیب آرتھر سی کلارک کی مندرجہ بالا کہانی پہلی بار سن 1953 میں شائع ہوئی اور اسے بہت پذیرائی ملی۔ اس کہانی کا ترجمہ بنگالی میں سستیہ جیت رے نے کیا۔ Dominique Filho نے دو ہزار اٹھارہ میں اس کہانی پر فلم بھی بنائی تھی۔ میں نے اس کہانی میں تکنیکی اصطلاحات برقرار رکھی ہیں تاکہ کسی قسم کی الجھن نہ محسوس ہو۔

٭٭٭٭             ٭٭٭٭

”یہ تھوڑی غیرمعمولی درخواست ہے“ ڈاکٹر واگنر نے حیرت پر قابو پاتے ہوئے بہت تحمل سے کہا۔ ”جہاں تک مجھے معلوم ہے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نے تبت کی خانقاہ کو آٹومیٹک سیکوینس کمپیوٹر مہیا کرنے کا آڈر دیا ہے۔ مجھے تجسس نہیں ہے، لیکن میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ یہ کمپیوٹر آپ کی۔ ۔ ۔ ۔ انتظامیہ کے لیے کس طرح فائدہ مند ہے۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ آپ اس سے کیا کام لیں گے؟

” جی ضرور“ لاما نے اپنا ریشمی عبا درست کرتے ہوئے کہا اور سلائیڈ رول جسے وہ کرنسی تبدیل کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا احتیاط سے ایک طرف رکھ کر بولا ”آپ کا مارک ففتھ کمپیوٹر دس ہندسوں تک مشتمل کوئی بھی عام سا ریاضی کا حساب کر سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے کام کے لیے لفظوں کے حساب کتاب کی ضرورت ہے، ہندسوں کے نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی مشین کے آؤٹ پٹ سرکٹ میں تبدیلی کر دیں تو وہ ہندسوں کے بجائے الفاظ چھاپنے لگے گی۔

”میں بالکل نہیں سمجھا۔“

”ہم اس منصوبے پر پچھلی تین صدیوں سے کام کر رہے ہیں۔ اس وقت سے جب سے خانقاہ وجود میں آئی تھی۔ یہ بات شاید آپ کے لیے عجیب ہو لیکن میں امید کرتا ہوں کہ آپ میری وضاحت کھلے ذہن سے سنیں گے۔“

”جی بالکل کہیں۔“
” بات بہت سادہ سی ہے۔ ہم ایک ایسی فہرست مرتب کر رہے ہیں جو خدا کے تمام ممکنہ ناموں پر مشتمل ہوگی۔“
” معاف کیجئیے، میں اب بھی نہیں سمجھا۔“

” ہمارے پاس اس بات پر یقین کرنے کی وجہ ہے کہ خدا کے تمام نام ہماری تخلیق کردہ مخصوص حروف تہجی کے صرف نو حروف سے لکھے جا سکتے ہیں۔“ لا ما نے اطمینان سے کہا۔

”اور یہ سب آپ تین صدیوں سے کر رہے ہیں؟“
” جی ہاں۔ ہمارے اندازے کے مطابق ہمیں یہ فہرست مکمل کرنے میں پندرہ ہزار سال لگیں گے۔“

”اوہ“ ڈاکٹر ہکا بکا رہ گیا۔ ”اب مجھے سمجھ آیا کہ آپ ہمارا کمپیوٹر کیو ں لینا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ کے اس منصوبے کا اصل مقصد کیا ہے؟“

لاما ایک ساعت کے لیے ہچکچایا تو ڈاکٹر واگنر نے سوچا کہ شاید اس نے لاما کو خفا کر دیا ہے۔ لیکن لاما کے جواب میں برہمی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔

” آپ چاہیں تو اسے مذہبی رسم سمجھ لیں۔ لیکن یہ ہمارے عقیدے کا لازمی جز ہے۔ اس اعلیٰ ترین ذات کے تمام نام ؛ خدا، یہواہ، اللہ اور اس طرح کے بہت سے، سب انسانوں کے دیے ہوئے ہیں۔ یہ ایک فلسفیانہ گتھی ہے اور میں اس پر ابھی گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن جتنے بھی حروف کے ممکنہ مجموعے (combinations) ہوسکتے ہیں ان میں کہیں خداکے حقیقی نام پوشیدہ ہیں۔ ہم الفاظ کی منظم ادل بدل ( systematic permutation of letters) کی مدد سے ان ناموں کی فہرست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

” اب سمجھا۔ آپ AAAAAAAAA سے شروع کر کے ZZZZZZZZZ تک جائیں گے۔

”بالکل۔ لیکن ہم اپنی ہی مخصوص حروف تہجی استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے الیکڑومیٹک ٹائپ رائٹروں میں ترامیم معمولی بات ہے لیکن زیادہ اہم مسئلہ ایسے موزوں سرکٹ کو وضع کرنا ہے جس سے مضحکہ خیز مجموعے (combinations) بننے کا کوئی امکان نہ ہو۔ مثا ل کے طور پر ایک حرف مسلسل تین بار سے زیادہ مرتبہ نہ آئے۔“

”تین؟ یقیناً آپ کا مطلب دو ہے۔“

”نہیں، تین ٹھیک ہے، اور اس کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ ہماری زبان سمجھتے تب بھی مجھے اس بات کی وضاحت کرنے میں کافی وقت لگتا۔

”جی یقیناً لگتا۔“ ڈاکٹر واگنرنے فوراً کہا۔ ”آپ بات جاری رکھیں۔“

” اچھی بات یہ ہے کہ، اگر آپ کے آٹومیٹک سیکوینس کمپیوٹر کو مناسب طریقے سے پروگرام کر دیا جائے تو یہ ہمارا کام آسانی سے کر سکتا ہے۔ یہ ہر حرف کو باری باری ادل بدل (permutation) کر کے نتیجہ چھاپ دے گا۔ اس طرح جس کام کو کرنے میں ہمیں پندرہ ہزار سال لگیں گے یہ سو دنوں میں کر دے گا۔

ڈاکٹر واگنر نیچے مین ہٹن کی سٹرکوں سے آتی ہلکی ہلکی شور کی آواز و ں سے بے نیاز سوچوں میں گم ایک الگ ہی دنیا میں پہنچ گئے پہاڑوں کی اس دنیا میں جو قدرت کی تخلیق تھی، انسانوں کی سیمنٹ پتھرسے تعمیر کی ہوئی نہیں۔ ان اونچے پہاڑوں میں بسنے والے یہ بھکشو بڑے صبرسے نسل در نسل بے معنی الفاظ کی فہرست مرتب کر رہے ہیں۔ کیا انسانوں کی بے وقوفی کی بھی کوئی حد ہے؟ ”

لیکن انہوں نے لاما کو خبر نہیں ہونے دی کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ گاہک کی خوشی ہمیشہ مقدم ہوتی ہے۔ ۔ ۔

” بے شک ہم آپ کی مطلوبہ فہرست چھاپنے کے لیے مارک ففتھ میں ترمیم کر سکتے ہیں۔“ ڈاکٹر نے کہا۔ ”لیکن میں کمپیوٹر کی تنصیب اور اس کی دیکھ بھال کے لیے زیادہ فکر مند ہوں۔ ان دنوں تبت جانا آسان نہیں۔“

”اس کا انتظام ہم کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کے پرزے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انہیں ہوائی جہاز سے لے جایا جا سکتا ہے اور آپ کا کمپیوٹر منتخب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اگر آپ اسے انڈیا پہنچا دیں تو وہا ں سے ٹرانسپورٹ ہم مہیا کر دیں گے۔“

”اورآپ ہمارے دو انجنئیروں کی خدمات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟“
” جی ہاں، تین ماہ کے لیے، جو اس پروجیکٹ کے لیے کافی ہوں گے۔“

” کوئی مسئلہ نہیں، ہمارے اہلکار یہ کام کر لیں گے۔“ ڈاکٹر واگنر نے میز پر پڑے نوٹ پیڈ پر جلدی جلدی لکھتے ہوئے کہا۔ ”صرف دو باتیں اور۔ ۔ ۔“

اس سے پہلے وہ اپنا جملہ مکمل کرتے لاما نے انہیں ایک چھوٹا سا کا غذ کا ٹکڑا دکھایا۔
” یہ میرے ایشاٹک بینک کا سرٹیفائیڈ کریڈٹ بیلینس ہے۔“

” شکریہ۔ میرا خیال ہے کہ یہ۔ ۔ ۔ کافی ہے۔ دوسری بات اتنی معمولی ہے کہ مجھے ذکر کرتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اکثر سب سے ضروری چیز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آپ کے پاس بجلی پیدا کرنے کا کیا ذریعہ ہے؟“

”ایک ڈیزل کا جنریٹر ہے جو 110 والٹ پر 50 کلو واٹ مہیا کرتا ہے۔ یہ ہم نے پانچ سال قبل نصب کیا تھا اور قابل بھروسا ہے اوراس کی وجہ سے خانقاہ میں زندگی بہت آرام دہ ہو گئی ہے۔ لیکن دراصل یہ عبادت کے پہیے چلانے والی موٹروں کو بجلی کی فراہمی کے لیے نصب کیا گیا تھا۔“

”بالکل۔ مجھے اس بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔“ ڈاکٹر واگنر نے کہا۔

ویسے تو خانقاہ کی منڈیر سے نیچے دیکھنا سر چکرا دیتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کی عادت پڑ جاتی ہے۔ تین مہینے بعد جارج ہینلی کے لیے دوہزار فٹ سے نیچے وادی اوراس کے بساط کی طرح بچھے نظر آنے والے کھیتوں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ وہ ہوا کے مسلسل دباؤ سے ہموار ہو جانے والے پتھروں سے ٹیک لگائے دور ان پہاڑوں کو اداسی سے دیکھ رہا تھا جن کے نام جاننے کی اس نے کبھی زحمت نہیں کی تھی۔

وہ سوچ رہا تھا کہ ایساعجیب وغریب پروجیکٹ پہلی بار کرنا پڑ رہا ہے جسے سائنسدانوں نے پر وجیکٹ شینگری۔ لا کا نام دیا تھا۔ پچھلے کئی ہفتوں سے اب تک مارک ففتھ کئی ایکڑ طویل بے معنی الفاظ پر مشتمل فہرستیں چھاپ چکا تھا۔ جیسے ہی فہرستیں الیکٹرومیٹک ٹائپ رائٹروں سے چھپ کر باہر آتیں بھکشو انہیں احتیاط سے کاٹ کاٹ کر موٹے موٹے رجسٹروں میں چپکا دیتے۔ خد ا کا شکر ہے، اگلے ہفتے یہ کام مکمل ہو جائے گا۔ وہ تو خدا جانے بھکشوؤں کا کون سا ، ناقابل فہم حساب کتاب تھا جس نے ان کو قائل کر لیا تھا کہ انہیں دس، بیس اور سو حروف تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جارج نے سوچا۔ اس کو سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ سب سے بڑا لا مہ ) جسے وہ سام جیف کہے کر پکارتے تھے حالانکہ وہ بالکل ویسا نہیں لگتا تھا (منصوبے میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہیں یہ نہ کہے دے کہ منصوبہ تقریباً دو ہزار ساٹھ تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ان لوگوں سے کچھ بعید نہیں وہ بالکل ایسا کر سکتا ہیں۔

جارج نے لکڑی کا بھاری دروازہ بند ہونے کی آواز سنی اور چک منڈیر پر اس کے برابر آ کھڑا ہو ا۔ وہ ہمیشہ کی طرح وہی سگار پی رہا تھا جس کی وجہ سے وہ بھکشوں میں کافی مقبول تھا۔ ان بھکشو وں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ زندگی کی چھوٹی بڑی لذتیں اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ با ت ان دونوں کے لیے اطمینان کا باعث تھی کہ یہ لوگ دیوانے ضرور ہیں لیکن مذہبی شدت پسند نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اکثر جب وہ لوگ نیچے گاؤں میں جاتے۔ ۔ ۔

” جارج سنو“
چک نے جلدی سے کہا۔ ”مجھے ایسی بات معلوم ہوئی ہے جو ہمارے لیے مصیبت بن سکتی ہے۔“

”کیا ہوا۔ کیا مشین خراب ہو گئی؟“ جارج سب سے بڑی مصیبت یہ ہی تصور کر سکتا تھا کہ کمپیوٹر خراب ہو جائے۔ اس وجہ سے اس کی واپسی میں تاخیر ہو سکتی تھی اور یہ اس کے لیے بڑی بھیانک بات تھی۔ اس وقت اس کی جو کیفیات تھیں ان میں ٹی وی کمرشل دیکھنا بھی اسے نعمت لگ رہا تھا اور اس سے گھر کی یاد آتی تھی۔

”نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔“ چک نے منڈیر سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا، جو خلاف معمول تھا کیونکہ عام طور پر وہ بلندی سے ڈرتا تھا۔

”مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ یہ سارامعاملہ کیاہے۔“
” کیا مطلب تمھارا؟ میں نے تو سوچا کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ہمیں معلوم ہے۔“

”یقیناً ہمیں معلوم ہے کہ بھکشو کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ بالکل پاگل پن ہے۔“

” کوئی نئی بات بتاؤ۔“ جارج نے تنک کر کہا۔

سام نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ تم تو جانتے ہو وہ ہر دوپہر فہرستوں کی چھپائی کا جائزہ لینے آتا ہے۔ لیکن آج وہ زیادہ ہی خوش لگ رہا تھا اتنا خوش کے جتنا خوش وہ ہو سکتا تھا۔

”جب میں نے اسے بتایا کہ ہم آخری مرحلے کے بھی اختتام پر ہیں تو اس نے مجھے اپنے پیارے سے انگریزی لہجے میں پوچھا کہ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم لوگ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا، بالکل اکثر سوچتے ہیں۔ اور پھر اس نے مجھے تفصیل سے منصوبہ سمجھایا۔“

” بتاو، میں مان لوں گا۔“

” ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خدا کے نو ارب نام ہیں اور جب یہ لوگ خدا کے تمام ناموں پر مشتمل فہرست مرتب کر لیں گے تو خدا کا مقصد پورا ہو جائے گا اور اس طرح نسل انسانی کو جس کام کے لیے تخلیق کیا گیا تھا وہ کام ختم کرنے کے بعد اس کی اب مزید ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بلکہ خدا کا مقصد پورا ہو جانے کے بعد زندہ رہنے کا تصور کرنا بھی کفر ہو گا۔“

”تو وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ خود کشی کر لیں؟“
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب فہرست مکمل ہو جائے گی تو خدا دنیا کی بساط خود ہی لپیٹ دے گا۔ ۔ ۔ بنگو!
”اوہ، میں سمجھ گیا۔ جب ہمارا پروجیکٹ ختم ہو گاتو دنیا کا بھی اختتام ہو جائے گا۔“
چک اضطراب سے ہنسا۔

” یہی بات میں نے سام سے کہی تھی۔ تمہیں پتا ہے پھر کیا ہوا؟ اس نے مجھے عجیب نظروں سے ایسے دیکھا جیسے میں احمق ہوں اور کہا۔ یہ اتنی چھوٹی سی بات نہیں ہے۔“

” اسی لیے میں ہوں کہ معاملے کے ہر پہلو پر غور کر لینا چاہیے۔“ اس نے فوراً چک کو چھیڑا۔

” تمھارا کیا خیال ہے، ہمیں اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے؟“ ویسے مجھے نہیں لگتا وہ جو کچھ سوچتے ہیں اس سے ہمیں ذرا بھی فرق پڑتا ہے۔ ہم تو پہلے ہی پتا ہے کہ یہ دیوانے ہیں۔ ”

”ہاں، لیکن کیا تمہیں بالکل اندازہ نہیں کہ کیا ہو سکتا ہے؟ اگر فہرست مکمل ہونے کے بعد قیامت، یا یہ جس کسی چیز کی بھی توقع کر رہے، وہ اگر نہیں آئی تو اس کا الزام ہمارے سر جائے گا۔ آخر یہ ہمارا کمپیوٹراستعمال کر رہے ہیں۔ مجھے تویہ صورت حال کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔“

”سمجھا۔“ جارج نے آہستہ سے کہا۔ ”بات میں وزن ہے تمھاری۔ لیکن تم جانتے ہو ایسی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ میرے بچپن کی بات ہے لوئیزیانا میں ایک خبطی مبلغ تھا جس نے اعلان کیا کہ اگلے اتوار دنیا ختم ہو جائے گی۔ سینکڑوں لوگوں نے اس پر یقین کر کے اپنے گھر بار تک بیچ ڈالے مگر قیامت نہیں آئی۔ لیکن لوگوں نے ایسا کوئی متشدد درعمل نہیں دیا جس کا تمھیں خطرہ ہے۔ انہوں نے بس یہ سو چ لیا کہ مبلغ سے حساب کتاب میں غلطی ہو گئی تھی لیکن اس پر یقین کرنا ترک نہیں کیا۔ میرا خیال ہے اسی طرح لوگ اب بھی غلطی کرتے رہتے ہیں۔“

” آپ کی اطلاع کے لیے عر ض ہے کہ یہ لوئیزیانا نہیں ہے۔ ہم صرف دو ہیں اور یہ بھکشو سینکڑوں ہیں۔ مجھے یہ لوگ پسند ہیں اور مجھے بہت دکھ ہو گا جب بوڑھے سام کی زندگی بھر کی ریاضت بے کار ہو جائے گی۔ اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ کاش میں یہاں نہ ہوتا۔

” کئی ہفتوں سے تو میری بھی یہی خواہش ہے۔ لیکن جب تک ہمارا کنٹریکٹ پورا نہیں ہوتا اور ہمیں واپس لے جانے کے لیے جہاز نہیں آ جاتا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔“

”بالکل۔“ چک نے سوچتے ہوئے کہا۔ لیکن ہم تھوڑی سی تو گڑ بڑ کر سکتے ہیں۔ ”

” دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا۔ اس سے معاملات اور خراب ہو جائیں گے۔“

”میرا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس کو بات کو یوں سمجھو، مشین بیس گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر اپنا کام اگلے چار دنوں میں ختم کر لے گی اور ایک ہفتے کے اندر جہاز ہمیں لینے آ جائے گا تو یوں صر ف جہاز کے آنے تک کام کی رفتار سست کر نے کی ضرورت ہے۔ اوکے۔ ہم بس کمپیوٹر کے کسی پرزے کو قابل مرمت ظاہر کر کے اوور ہالنگ کے دوران اس پر کام کریں گے اس طرح کام دو تین دن معطل رہے گا اور ظاہر ہے ہم خرابی کو فوراً دور کرنے کے بجائے آہستہ آہستہ ٹھیک کردیں گے۔ اگر ہم نے وقت پر صحیح سے معاملات نبٹا لیے تو جس وقت آخری نام چھپے گا ہم نیچے ایئر فیلڈ پر پہنچ چکے ہوں گے اس وقت یہ ہمیں نہیں پکڑ سکیں گے۔

”نہیں، یہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔“ جارج نے کہا۔ ”ایسا پہلی بار ہو گا جب میں اپنا کام چھوڑ کر جاؤں گا اور اس طرح تو انہیں شک بھی پڑجائے گا۔ میں یہیں رہوں گا اور جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ”

”مجھے اب بھی اچھا نہیں لگ رہا۔“ سات دن بعد سخت جان پہاڑی پونی گھوڑوں پر سوا ر ٹیڑھی میڑھی سڑک پر چلتے ہوئے جارج نے کہا۔ ”اور تمھیں نہیں لگتا کہ میں خوفزدہ ہوں اس لیے بھاگ رہا ہوں۔ مجھے ان بیچارے بوڑھے لوگوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اس لیے میں اس وقت ان لوگوں کے قریب نہیں ہونا چاہتا جس لمحے ان پر انکشاف ہو گا کہ وہ کتنے احمق تھے۔ پتا نہیں سام یہ سب کیسے برداشت کر ے گا۔“

” ہاں عجیب تو لگ رہا ہے۔“ چک نے جواب دیا۔

”لیکن جب میں نے سام کو خدا حافظ کہا تو مجھے لگا تھا کہ اسے معلوم ہے کہ ہم اسے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اسے اس بات کی پروا بھی نہیں ہے کیونکہ اسے پتا ہے مشین ٹھیک چل رہی ہے اور کام جلد ختم ہو جائے گا۔ آخر اس کے لیے اس پروجیکٹ کے بعد کوئی، بعد، بھی نہیں ہے۔“

جارج نے اپنی کاٹھی پر سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ یہ آخری جگہ تھی جہاں سے خانقاہ صاف نظر آتی تھی۔ پھیلی ہوئی کونے دار عمارتوں کے سائے شفق میں صرف سایوں کی طرح نظر آ رہے تھے اور ان کے اندر جلنے والی روشنیاں رات میں سمندری جہاز کی روشن کھڑکیوں کی طرح محسوس ہو رہی تھیں۔ الیکڑک لائٹس اور مارک ففتھ ایک ہی سرکٹ سے جڑے تھے۔ پتا نہیں یہ اور کتنی دیر چلیں سکیں گے؟ جارج نے سوچا۔ کیا وہ غصے اور مایوسی میں کمپیوٹر توڑ ڈالیں گے؟ یا خاموشی سے بیٹھ کر دوبارہ اپنا حساب کتاب شروع کر دیں گے؟

وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اوپر پہاڑ پر اس وقت کیا ہو رہا ہوگا۔ ہیڈ لاما اور اس کے معاون اپنے ریشمی عباوں میں فہرستوں کی جانچ کر رہے ہوں گے اور ماتحت بھکشو انہیں ٹائپ رائیٹروں سے نکال کر موٹے موٹے رجسٹروں میں چپکا رہے ہوں گے۔ ہر شخص خاموش ہو گا اور اس سکوت میں صرف، کاغذ پر ٹائپ رائٹروں کی کلیدیں پڑنے کی مسلسل بوچھاڑ سے پیدا ہونے والی کھٹ کھٹ کی آواز یں آ رہی ہوں گی۔ خود مارک ففتھ انتہائی خاموشی سے ایک منٹ میں ہزاروں کی کیلکولیشن کر رہا ہوگا۔ یہ تین مہینے کسی بھی انسان کو پاگل کر دینے کے لیے کافی ہیں۔ جارج نے سوچا۔

”وہ رہی۔“ چک نے وادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”کتنی خوبصورت ہے نا؟“

واقعی بہت خوبصور ت ہے۔ جارج نے سوچا۔ پرانا سا ڈی سی تھری جہاز رن وے کے اختتام پر نقرئی صلیب کی طرح کھڑا تھا۔ دو گھنٹے کے اندر یہ ہمیں یہاں سے دور آزادی اور عقل و شعور کی دنیا میں لے جائے گا۔ واپس جانے کا خیال اسے بہترین شراب کے نشے جیسا مزہ دے رہا تھا۔ وہ اسی خیال کے بار بار مزے لیتا رہا جب پونی ڈھلوان پر سے آہستہ آہستہ اتر رہا تھا۔

اونچے ہمالیہ کی جلدی ہو جانے والی رات قریب قریب ان کے سر پر تھی۔ خوش قسمتی سے علاقے کی سڑکیں بہتر حالت میں تھیں اور دونوں کے پاس ٹارچیں بھی موجود تھیں اور بظاہر سوائے شدید ٹھنڈ کے کسی اور چیز کا خطرہ نہیں تھا۔ اوپر آسمان بالکل صاف تھا اور مانوس و مہربان تاروں سے چمک رہا تھا۔ اس موسم میں پائلٹ کو کم از کم جہاز کو ٹیک اوف کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔ جارج نے سوچا، اب اسے صرف یہی ایک فکر تھی۔

اس نے گنگنانا شروع کیا پھر رک گیا۔ اتنے بڑے میدان میں خوشی کا اظہار کرنا بھی مشکل ہے جس کے گرد پہاڑ سر پوش پہنے بھوتوں کی طرح لگ رہے ہوں۔ جارج نے فوراً اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔

” ایک گھنٹے میں ہمیں وہاں پہنچ جانا چاہیے۔“ اس نے پیچھے آ رہے چک سے کہا۔ ”میرا خیال ہے کمپیوٹر اپنا کام ختم کر چکا ہوگا۔ پروجیکٹ مکمل ہونے کا یہی وقت تھا۔“

چک نے جواب نہیں دیا تو جارج نے کاٹھی پر سے اسے مڑ کر دیکھا تو وہ صرف اس کا سفید بیضوی چہرہ دیکھ سکا جو آسمان کی طرف تھا۔

”دیکھو۔“ چک نے سرگوشی کی اور جارج نے اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں۔ (ہر چیز کا ایک آخری وقت ہوتا ہے)

آسمان پر موجود تارے، خاموشی سے بجھتے جا رہے تھے۔

(مترجم اسماء حسین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).