معاشی بحران کا حل: مسلم لیگ ن کیوں ناگزیر ہے؟


2008 یا 2009 کی بات ہے، ابوظہبی گروپ جو پاکستان میں ایک بڑی ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ کرنے والا گروپ ہے، نے مغربی افریقہ کے ایک ملک cote d ’ivoire میں جی ایس ایم موبائل سروسز کا لائسنس لیا۔ میری کمپنی جو پاکستان میں ٹیلی کام سروسز مہیا کرتی تھی اس کو تجربہ اور کاروباری تعلقات کی بنیاد پر وہاں کنٹریکٹ مل گیا۔ جب پراجیکٹ بالکل شروع ہونے والا تھا کہ Lehman leasing نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہ کمپنی 600 ارب ڈالر کے اثاثے رکھتی تھی۔ اس کا دیوالیہ ہونا تھا کہ عالمی معیشت تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگی۔ اس کے ذیلی اثرات  Recession (کساد بازاری) کی صورت میں برآمد ہوئے۔ پوری دنیا بدترین مالی بحران کی زد میں آگئی۔ جس سے ابوظہبی گروپ بھی متاثر ہوا اور پراجیکٹ بند ہوگیا۔ جس سے ہمارا بھی اچھا خاصا نقصان ہوا۔

چنانچہ میں نے اس بحران اور اس سے نمٹنے کے لئے مختلف ممالک اور خطوں کے لائحہ عمل  اور طرز عمل کو انتہائی باریک بینی سے دیکھنا شروع کیا۔ یورپ جو اس بحران کے متاثرین میں سے ایک بڑا اسٹیک ہولڈر تھا نے اجتماعی طور پر ایک پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جسے  کفایت شعاری کہا جاتا ہے۔ جو عموماً بجٹ خسارے سے نمٹنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے اس میں حکومتیں جنہیں یہ خدشہ لاحق ہوتا کہ وہ اپنے قرض کی ادائیگی ممکن نہیں بنا سکیں گے وہ اخراجات بالخصوص ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگا کر ٹیکسز اور لیویز میں اضافہ کر دیتے ہیں تاکہ اس خلیج کو دور کیا جا سکے۔

لیکن 1930 کی کساد بازاری کے بعد 2009 میں بھی یہ معاشی تھیوری بری طرح ناکام ہوئی۔ کیونکہ austerity measures کا نتیجہ معاشی سرگرمیوں اور اور جی ڈی پی گروتھ میں کمی کا باعث بنتی ہے جس کا فوری نتیجہ debt  کے بالمقابل قرضوں میں اضافے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، بے روزگاری بڑھ جاتی ہے اور شرح نمو منفی ہوجاتی ہے۔

جرمنی اور آسٹریا نے یورپی یونین کے برعکس ایک innovative اور نیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے Fiscal stimulus  کا نام دیا گیا۔ جرمنی نے 50 ارب یورو کا پیکج کا اعلان کیا اور نتیجتاً وہاں پر معاشی سرگرمیاں عروج پر پہنچیں، جی ڈی پی گروتھ اور شرح نمو متاثر نہ ہوئی اور بے روزگاری کی راہ روک لی گئی۔

اب دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ اور اپنی نا اہلی کے باعثausterity measures (کفایت شعاری)  کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تباہ کن نتائج سامنے ہیں۔ کسی ایک کا خرچ دوسرے کی آمدنی ہوتی ہے اگر سب لوگوں کی آمدن متاثر ہوتی ہے اور وہ خرچ کرنا کم کردیتے ہیں تو اس سے آمدنی اور قوت خرید متاثر ہوتی ہے اور اسے paradox of thrift  کہتے ہیں۔ جس سے جی ڈی پی گروتھ گر جاتی ہے اور معیشت ایک ٹریپ کا شکار ہوجاتی ہے۔ معیشت دان اب کہتے ہیں کہ کفایت شعاری (austerity measures)  کا درست وقت وہ ہوتا ہے جب معیشت مین تیزی کا رجحان ہو، کساد بازاری یا مندی کے زمانے میں austerity measures  کا الٹا نقصان ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ تجربہ کار اور گورننس کے کامیاب ٹریک ریکارڈ کی حامل بھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا ویژن مستقبل بیں اور ترقیاتی ہے۔ مسلم لیگ جب 2103 میں حکومت میں آئی تو تین بڑے چیلنجر تھے۔ دہشت گردی جو براہ راست معیشت کے لئے زہر قاتل تھی، بجلی کا بحران جس نے ملک کی انڈسٹری کو معطل کر رکھا تھا اور بدترین معاشی صورتحال۔

مسلم لیگ نے ہنگامی بنیادوں پر دہشت گردی، معاشی بحران اور بجلی کی پیداوار پر کام کیا۔ معاشی سرگرمی کے دو ہی دائرے ہوتے ہیں پبلک سیکٹر اور پرائیوٹ سیکٹر۔ جب معاشی سرگرمی ہوتی ہے تو سرمایہ کی گردش ہوتی ہے جس سے محصولات میں اضافہ ، روزگار کی فراوانی، قوت خرید میں اضافہ اور اشیا  کی خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس سے جی ڈی پی گروتھ اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدانوں اور ٹیکنو کریٹس کی ٹیم موجود ہے۔

اب اس سے اگلے مرحلے پر چلتے ہیں۔ معیشت کی بہتری کی کنجی سیاسی استحکام ہے۔ مسلم لیگ کا نعرہ ووٹ کو عزت دو فقط سیاسی حوالے سے اہم نہیں بلکہ اس کا تعلق براہ راست معاشی صورتحال سے ہے۔ سیاسی عمل میں مداخلت، لیڈر شپ کی پنیریاں لگانے، عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے، احتساب کے نام پر انتقام نے ملکی نظام کو مفلوج کردیا ہے۔ یہ معیشت  نہیں بلکہ سیاسی معیشت  کا دور ہے۔ سیاسی استحکام ہی معیشت کی کنجی ہے۔ دھونس، دھاندلی، دھمکی اور سینہ زوری انتخابی عمل اور نتائج بدل سکتی ہے معاشی اشاریے بہتر نہیں کرسکتی۔ دنیا اتنی بے وقوف نہیں کہ وہ مان لے کہ اس وقت پاکستان میں جمہوری حکومت اور آزاد عدلیہ موجود ہے۔ سرمایہ تحفظ مانگتا ہے جو اختیارات کی تقسیم  کے فارمولے میں پایا جاتا ہے۔

مسلم لیگ ن انفرا اسٹرکچر ڈوویلپمنٹ، معاشی سرگرمی، کامیاب فارن پالیسی اور لاء اینڈ آرڈر کی بہترین صورتحال، براہ راست فارن انویسٹمنٹ کے ذریعے ملکی معیشت کو بحران سے نکال کر اسٹرکچرل ریفارمز کی طرف تیزی سے گامزن تھی جس کا نتیجہ پائیدار ترقی  ہے۔ لیکن ایک سازش کے ذریعے اس کا راستہ روکا گیا اور آج کا پاکستان معاشی طور پر سکڑ چکا ہے، معیشت تباہ حال، افراط زر بلند ترین سطح پر ہے، روپیہ بے قدر ہوچکا، ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پڑا ہے، ناکام خارجہ پالیسی کے باعث تنہائی کا شکار ہے، مسئلہ کشمیر پر ہم ناکام نظر آتے ہیں۔ چین سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ برآمدات گر چکی ہیں، بجلی اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے پیداواری لاگت  اتنی بڑھا دی ہے کہ ہماری مصنوعات بین الاقومی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔ بجلی کا بحران دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ کرپشن میں بین الاقوامی انڈکس میں تین درجے اوپر گئے ہیں جبکہ ملک میں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہا۔

اس صورتحال سے نپٹنے اور معیشت کا حجم بڑا کرنے کے لئے جس ویژن، لیڈرشپ، عوامی اعتماد، صلاحیت، ٹیم اور عوامی تائید کی ضرورت ہے وہ سوائے مسلم لیگ ن کے اس وقت پاکستان میں کسی جماعت کو حاصل نہیں۔ موجودہ مسلط شدہ حکومت بھان متی کا ایک کنبہ ہے جس کو دھونس، دھاندلی، لالچ اور موقع پرستی کے ذریعے جوڑا گیا ہے ان سے کسی بھی طرح کی بھلائی کی توقع عبث ہے۔

یہ وقت ہے کہ مقتدر حلقے اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں کہ یہ تئیس کروڑ آبادی کا ملک آئین اور قانون کی حکمرانی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جس جماعت کا مینڈیٹ ہے اسے آزادانہ الیکشن کے ذریعے حکومت بنانے دیں۔ یہ ملک ایک فیڈریشن ہے موجودہ حکومت اسے وحدانی نمونے پر چلانے کی کوشش میں ملک کے اتحاد و یگانگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ ملک نارتھ کوریا ماڈل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک بچانا ہے تو دستور کے مطابق چلنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).