قبول ہے کیوں قبول نہیں؟


اداکارہ صبا قمر حالیہ دنوں میں بارہا سوشل میڈیا پر زیر بحث رہی ہیں اور اس کی وجہ عموماً ان کے ایسے بیانات ہیں جوکہ ہمارے مخصوص حلقوں میں پسند نہیں کیے جاتے۔ صبا قمر نے ایک یو ٹیوب چینل بنایا اور اس پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیو نے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ جہاں بہت سے لوگوں نے اس ویڈیو کی پذیرائی کی وہیں کچھ لوگ اس پر معترض نظر آئے۔ صبا قمر کی ویڈیو میں شادی اور اس سے متعلقہ مسائل جیسا کہ جسمانی اور ذہنی تشدد پر بات کرتی نظر آئیں۔

لوگوں کو اس پیغام کو سیریس لینے کی بجائے اس بات کو زیادہ سیریس لیا کہ صبا قمر سر عام ایک ایسے شخص کا ذکر کر رہی ہیں جس سے یہ شادی کے بندھن میں نہیں بندھیں۔ کیسی بے شرمی کی بات ہے۔ اس کے بعد ایک اور ویڈیو آئی جس میں اداکارہ نے شادی کے لیے خاندانی بہو ڈھونڈنے والوں کو آئینہ دکھایا جسے دیکھ کر کچھ لوگ برا مان گئے۔ اور ہمارے معاشرے میں تو یہ رواج ہے کہ جوہمیں آئینہ دکھائے ہم اس کو کرچی کرچی کر ڈالتے ہیں۔ یہاں آئینہ دکھانے والوں کو قدم قدم پر مسائل درپیش ہوتے ہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ذہنی طور پر اتنا بالغ نہیں ہوا کہ اپنے آپ سے ملاقات کی ہمت رکھیں۔ کیونکہ شاید اس صورت میں انہیں کچھ ایسا محسوس ہو

کوئی سادہ ہی اس کو سادہ کہے
ہمیں تو لگے ہے وہ عیار سا
(میر تقی میر)

ہمیں ایسے لوگ نہیں کہ اپنا من کا میل صاف کریں، ہم ایسے لوگ ہیں کہ خود کو گندا پا کر کسی دوسرے کو اس سے زیادہ گندا کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایمان کے معاملے میں تو ہم ایک ایسے جھنڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جسے اپنی نہیں بس اپنے ساتھ والے کی فکر ہوتی ہے۔ اس کی مثال کچھ ایسی ہے کہ

جے میں ویکھاں عملاں ولے کجھ نہیں میرے پلے

ہمارے خود کے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن ہمیں دوسروں کی آخرت کی فکر ستاتی ہے۔ ہمیں یہ فکر نہیں کہ ہم مسجد جا کر نماز پڑھتے ہیں یا نہیں مگر ہمیں یہ فکر ضرور ہے کہ صبا قمر اور بلال سعید مسجد میں شوٹنگ کر رہے تھے۔ بات صبا قمر جیسی بے حیا عورت کی ہو اور ہمارا ایمان نہ جاگے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمیں تو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ ایسی بے حیا عورت کو مسجد میں جانے کس نے دیا؟ اب سات بار دھونی پڑے گی مسجد وہ بھی زم زم سے۔ تب ہی کہیں اس عورت کی نجاست ختم ہو گی۔ نجاست ہی تو پھیلائی ہے اس نے شوٹنگ کر کے۔

مسجد میں نجاست نہیں ایمان پھیلایا جاتا ہے، جیسے ہم پھیلاتے ہیں۔ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانا شاید ایمان ہی تو ہے۔ منبر کا تقدس پامال کرتے ہوئے شر انگیزی پھیلانا ایمان کا اولیں درجہ ہے جس تک ہم دن میں بارہا پہنچتے ہیں۔ لوگوں کی پگڑی اچھالنابہت مقدس فریضہ ہے جس کی انجام دہی میں ہم کوئی کوتاہی نہیں برتتے۔ لوگوں پر فتوے لگانے سے خدا بھی خوش ہوتے ہیں اور رسول بھی۔ مسجد میں ہم ایمان ووالوں کی جگہ ہے نہ کہ صبا قمر اور بلال سعید جیسے بے حیاؤں کی۔

میرے خیال میں یہاں مسئلہ مسجد کی توقیر سے زیادہ اس بات کا ہے ہمارے نشانے پر کون ہے اور ہم کس کے خلاف کھل کر زہر اگل سکتے ہیں۔ صبا قمر بظاہر ایک آسان ٹارگٹ ہے اس لیے اہل ایمان کی حمیت جاگ اٹھی ہے۔ جو پہلے سے ہی فاحشہ ہے، ایمان اور گھر خراب کر رہی ہے اس پر تنقید کر نا بہت آسان ہے، اس پر فتوی لگانا اس سے بھی زیادہ آسان۔ ویسے بھی پشاور کی عدالت میں ہونے والے حالیہ قتل کے بعد جس طرح سے قاتل کی پذیرائی کی گئی ہے اور اس کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے اس سے ان عناصر کی مزید ہمت بڑھے گی۔ یہ آسان ٹارگٹس پر اب اور فتوے بھی لگائیں گے اور ان میں سے کوئی ایک کسی کی جان لے کر امر ہو جائے گا۔ بلکہ ناصرف امر ہو جائے گا، بلکہ ایک آدھ رہائشی کالونی بھی اس کے نام سے بن جائے گی جس میں گھر بنانے کے لیے اہل ایمان ادھر نکلیں گے، ادھر جھپٹیں گے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کمزور پر انگلی اٹھانا بہت آسان ہو گیا ہے۔ ورنہ مسجد میں فوٹو شوٹ تو کیٹ مڈلٹن اور شہزادے ولیم نے بھی کروایا تھا۔ اس وقت کسی کا ایمان خطرے میں نہیں پڑا، کیونکہ تب معلوم تھا کہ ایمان کے خطرے کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ شاہی دورے کے پیچھے حکومت اور دیگر ریاستی ادارے تھے، لہذا ان پر تنقید کی صورت میں بہت سوں کے سافٹ ویر اپ ڈیٹ ہو جانے تھے۔

ہمارے معاشرے کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں یہ نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ہم یہ فرق نہیں کر پاتے کہ صبا قمر کا فوٹو شوٹ اسلام کے لیے اتنا خطرہ نہیں جتنا ایک معصوم بچے کا زیادتی کا شکار ہوتا اور اس کے نتیجے میں مذہب سے متنفر ہونا اور ذہنی امراض کا شکا ر ہو نا بڑا مسئلہ ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ اسلام ایسا دین ہے جو عرب کے اس معاشرے میں بھی پھیل گیا تھا جہاں بت خدا تھے اور ان دیکھے خدا کو ماننے کا کوئی تصور نہ تھا۔

پھر کیوں آپ کو ایسا لگتا ہے کہ ایسی معمولی بات اسلام کو خطرے سے دوچار کر دے گی یا اس سے مسجد کا تقدس پامال ہوا ہے۔ خدارا اصل مسائل کی طرف توجہ کریں اور ایسے عناصر کو مزید شہ نہ دیں جن کو اپنی آنکھ کا شہتیر تو نظر نہیں آتا لیکن دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اپنی آواز اصل مسائل کے لیے اٹھائیں۔ یہ شر پسند عناصر اپنے مخصوص ایجنڈا پر کام کرتے ہیں ہم ایسے سادہ لوح ان کی باتوں میں آکر اس بھیڑ کا حصہ بن بیٹھتے ہیں جو کسی معصوم کی جان کے درپے ہوتا ہے۔ آج ان کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کر کے صبا اور بلال کو بچائیں تاکہ کل آپ اور آپ کے بچے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).