عمران خان کی پنجاب پالیٹکس کا تجزیہ


وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ لاہور میں ایک بار پھرگجرات کے چودھریوں کو نظرانداز کر دیا ہے۔ جن کے ساتھ وہ تقریباًایک سال پہلے جون میں ملے تھے۔ وہ انہیں پہلے دن سے ہی ناپسند کرتے تھے لیکن2018 میں انہوں نے انہیں صرف عثمان بزدار کوحمایت کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ شریفوں کی حکومت کی دہائیوں کی حکمرانی کیساتھ پنجاب ایک بڑاصوبہ ہے جبکہ بزدار کے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا۔

چودھریوں نے اپنی روایت کے مطابق انہیں مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی کیونکہ وہ بزدار کے والد کو بھی جانتے تھے۔ چوہدری پرویزالٰہی کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی اور عمران خان کی ہدایت کے مطابق تحریری معاہدہ طے پایا جسے پی ٹی آئی کے نکالے گئے رہنما جہانگیرترین نے سپروائز کیاتھا۔ جب عمران نے خان اپنی پارٹی پنجاب کے رہنماؤں سے معاملے پربات کی تو بزدار کو بطور وزیراعلیٰ اور چودھریوں کے ساتھ معاہدے پر تحفظات سامنے آئے۔

عمران جو چودھریوں کو ذاتی طور پر پسند نہیں کرتا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ انہیں شریف اور زرداری کی صف میں شمارکرتاتھا، انہیں ضامنوں نے ضمانت دی کہ وہ حکومت کو عدم استحکام کاشکارنہیں کرینگے اور نہ ہی کرپشن میں ملوث ہونگے۔ کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں نے وزیراعظم کو مشورہ دیاکہ پرویزالٰہی کو پنجاب سے نکال کر وفاقی وزیر، سپیکر یاقومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر بنا دیں۔

ایک دفعہ چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ کے طور پر بھی دیکھا گیا لیکن اس پیشکش پر کہ مسلم لیگ ق پی ٹی آئی میں ضم ہو گی، جسے چودھریوں نے مسترد کر دیا۔ اسی طرح، چودھری نثار جو ایم پی اے منتخب ہوئے اور ابھی تک حلف نہیں اٹھایا کو بطور وزیراعلیٰ دیکھاگیاجسے ان کے پی ٹی آئی میں شمولیت سے انکار کے بعد نہیں لیاگیا، اطلاعات کے مطابق وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں تھے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کوساتھ لاپاتے۔

پی ٹی آئی پنجاب کے ارکان اسمبلی کے تحفظات کے باوجود عمران خان نے مسلم لیگ ق کو کوئی اہم عہدہ دیئے بغیر ان کیساتھ معاہدے کی توثیق کر دی۔ تحریری معاہدے کے مطابق چودھری اپنے آبائی شہر گجرات سمیت 6اضلاع کے معاملات دیکھنے میں مکمل بااختیار تھے، ان اضلاع میں کوئی بھی انتظامی تبدیلی ان کی منظوری سے ہونا طے پائی۔

معاہدے کے مطابق ق لیگ کے ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈ جاری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں تمام سکیمیں ان کی رضامندی سے بنائی جائیں گی۔ بلدیاتی اداروں اور پولیس اصلاحات میں ان کے رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ پی ٹی آئی ق لیگ کو 2وفاقی وزراتیں دینے پر بھی رضامندہوئی لیکن جب چودھری مونس الٰہی کا نام سامنے آیا تو وزیراعظم نے ان کانام مسترد کردیا، ایک موقع پر جب ان دونوں کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے وزیراعظم کو بتایاکہ وہ جانتے ہیں وہ مونس الٰہی کوپسند نہیں کرتے جس کے جواب میں وزیراعظم نے انکار نہیں کیا۔

2018 کا الیکشن عمران خان کیلئے مایوس کن تھا کیونکہ وہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی برتری ختم نہیں کرسکے اور انہیں دوسروں کی حمایت سے حکومت بنانا پڑی۔

عمران خان کو 2013 کے بین الجماعتی انتخابات کا بھی تلخ تجربہ تھا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی ترین اور شاہ محمود قریشی کے دو طاقتور گروپوں میں تقسیم ہو گئی۔ شاہ محمود قریشی ایم پی اے کی نشست پر شکست نہ ہوتی تووہ خودبخود وزیراعلیٰ منتخب ہو جاتے۔

شاہ محمود کے قریبی یہ سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے ان کی شکست میں کردار ادا کیا۔ جب پارٹی میں یہ پیش رفت ہو رہی تھی بزدار پی ٹی آئی میں نہیں تھے۔ انہوں نے 2018سے چند ماہ پہلے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور کچھ قریبی حلقوں نے انہیں اہم عہدہ دلانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جو عہدہ انہیں ملا وہ انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچاتھا۔

عمران کی دوسری بڑی غلطی یہ تھی جب ان کی پارٹی اکثریت میں ہونے کے باوجود انہوں نے بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے۔ پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماؤں نے بلدیاتی انتخابات کی اس بنیادپر مخالفت کی کہ قیمتوں میں ہوش ربا اضافے اور حلقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو فائدہ ہوگا۔ کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں نے وزیراعظم سے یہ گلا بھی کیا کہ مسلم لیگ ق کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے 17 بلین روپے بغیرکسی رکاوٹ کے ملے جبکہ انہیں پیچیدہ اور سخت قانونی معاملات کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران کی تیسری غلطی اسلام آباد سے صوبہ چلانا تھا جبکہ وہ ذاتی طور پر اپنی پالیسیوں کے نفاذ نہیں کرسکتا تھا، اس لئے انہیں بیوروکریسی پرانحصارکرناپڑا جس کی وجہ سے یکے بعددیگرے تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ اندازہ کریں کہ صرف 2سال میں 4آئی جیز اور 3 سیکرٹری بدلے گئے، جب انہوں نے اقتدار سنھبالا تو تو وہ خیبرپختونخواکے سابق آئی جی ناصر درانی کو لے کرآئے، جو خیبرپختونخوامیں خان کی کامیاب کہانی تھے، انہیں پولیس اصلاحات کیلئے ایڈوائزر کے طور پرلایاگیا لیکن انہوں نے پنجاب میں سیاسی مداخلت کی بنا پر 3 ماہ میں ہی استعفیٰ دیدیا۔

2 سال میں پولیس اور بیوروکریسی میں مسلسل تبادلوں نے بزدارکو وزیراعلیٰ بنانا عمران خان کی غلطی ثابت کردیا۔ عمران خان کے سوا کوئی نہیں جانتاکہ اب تک پنجاب میں بزدار کی ذہانت سےکیا کام لیا گیا۔ پی ٹی آئی کی چوتھی غلطی مسلم لیگ ن کو توڑنے میں ناکامی تھی، کوئی شریفوں کی سیاست سے متفق ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ ن لیگ نے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا۔ ن لیگ کی اعلی، درمیانی اور نچلے درجے کی ساری قیادت نیب کیسز کا سامنا کر رہی ہے اس کے باوجود پارٹی میں توڑ پھوڑ نہ ہو سکی۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).