پھیکے تہوار


کیا آپ لوگوں نے بھی میری طرح یہ محسوس کیا ہے تہواروں میں وہ لذت خاص جو باقی تھی وہ بھی اب ختم ہو رہی ہے۔ پھر وہ مذہبی ہو علاقائی ہو قومی ہو ملکی ہو بہرحال عید سے لے کر کسی مخصوص دن تک یہ سارے تہوار اپنی اہمیت کھوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

بات کسی کے ہاں جاکر سلام دعا میل ملاپ حال پرسی سے شروع ہوئی تھی۔ پھر خطوط تک جاپہنچی اور دیکھتے دیکھتے کال پھر میسج اب منانے کے ذرائع اتنے تیز ہوگئے ہیں کہہ ایک وٹزپ گروپ میں دو الفاظ لکھ دو تو دو سو سے زائد لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ وہ الفاظ عید مبارک ہو شادی مبارک ہو یا پھر کیسے ہو۔ اور اگر فاروڈ پر جاؤ تو یہ تعداد سیکنڈز میں ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر جان چھوٹ جاتی ہے۔ اب جان چھوٹنے سے مراد مجھ سمیت آپ میں کئی لوگ ایسے ہوں گے جو متعلقہ تہوار کے دن صبح سویرے یا رات سے ہی سب کو ایڈوانس میں نمٹا دیتے ہیں۔

دراصل میں خود اس تجربے سے گزر رہا ہوں اور اس سلسلے کا حصہ ہوں۔ خیر جہاں تک پیغام رسانی کی بات ہے اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ سوشل میڈیا نے پیغام کے ذرائع آسان کردیے ہیں انفرادی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک یہ ذریعہ اپنی ایک پہچان بنا چکا ہے۔ مگر جہاں بات تہواروں کی آئے وہاں یہ عمل ان مخصوص دنوں کی اہمیت کھو دیتا ہے۔ یا تو ہمیں ان ذرائع کا استعمال پتا نہیں یا پھر وقت کے ساتھ ساتھ تہواروں کے اسالیب بھی بدل جاتے ہیں شاید۔

اس عید الاضحی پر مجھے ایک دوست نے کال کی کہا آپ کو وٹزپ پر عید مبارک کہا تھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا۔ جبکہ میں اس سے مل کر مبارک باد دینا چاہ رہا تھا۔ کیونکہ میرے دوست کے گھر کا فاصلہ میرے گھر سے بمشکل ایک کلومیٹر تھا۔ اور جب روبرو ملاقات ہوئی تو بھی اس کا وہ وٹزپ پر خیرمبارک والا غصہ کم نہ کر سکا۔

میں شہر میں رہتا ہوں۔ اور آپ میں سے جو بھی شہری زندگی سے منسلک ہوگا اس نے ایک کمال یہ دیکھا ہوگا۔ وہاں عید یا کسی اور تہوار کے دن اکثر وہاں کے لوگ شام کے اوقات یا رات کو باہر نکلتے ہیں۔ کیونکہ ان اوقات میں لوگوں کا رش بازار یا دیگر وہ جگاہیں جہاں بندہ محض چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ تفریح کرسکے کم ہوتا ہے۔ جبکہ تہوار کی لغت میں اس قسم کا رویہ شاید ہی کئی ہو۔

اگر تہواروں سے ہٹ کر سماجی زندگی کی جانب اس پہلو کو دیکھا جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ایک فرد میں سماج سے الگ تھلگ ہونے کے امکانات دگنے ہوسکتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ایک فرد جتنا زیادہ وقت آن لائن صرف کرتا ہے اتنا ہی کم وقت وہ حقیقی دنیا میں میل جول کرتا ہے۔

سماجی دوری ان دنوں مجبوری صحیح مگر وبا سے پہلے بھی یہ اپنی اہمیت بنا چکی تھی وہاں جہاں سوشل میڈیا کا رجحان زیادہ ہے مثلاً شہری زندگی میں ایک ہی گھر کے افراد روبرو کم ہی مخاطب ہوتے تھے ایک دوسرے کے ساتھ لیکن ابھی ایک بہانہ یا پھر مجبوری نے اس عمل کو مزید وسعت دی ہے۔ اور اب گزشتہ چند برسوں سے ہمارے تہوار بھی اسی زد میں آگئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).