اردو کی درمیانی کتاب


پہلی جماعت میں ہمیں ”اردو کی پہلی کتاب“ پڑھائی جاتی تھی اور دسویں جماعت میں اس کا سلسلہ ”اردو کی آخری کتاب“ پر ختم ہو جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے اور نظام تعلیم نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے جس میں سب سے اہم سبق سچائی کے مقابلے میں مصلحت کا دامن تھامے رکھنے کا ہے۔ بقول شاعر یہ شیوہ ہمارے معاشرے میں دانائی کا مظہر بھی ہے ”مصلحت سب کا تھا ایمان بھری بستی میں / سارے دانا تھے کوئی بات نہ سچی کہتا۔“ مصلحت والی بات میں نے بھی پلو سے باندھ رکھی ہے۔ ”اردو کی درمیانی کتاب“ یعنی اپنی مرضی سے واقعات کا چناؤ طوالت سے بھی بچاتا ہے اور اس سے مصلحت کوشی کے زیادہ سے زیادہ تقاضے بھی پورے کیے جا سکتے ہیں۔ یوم سعید یعنی یوم آزادی کی آمد آمد ہے اس لئے سب سے پہلے حال کے ساتھ جڑے ماضی کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی سنۂ 1600 میں وجود میں آئی تھی۔ سنۂ 1612 میں مغل بادشاہ جہانگیر کے ساتھ تجارتی معاہدے کے ذریعے کمپنی کو دوسری تجارتی کمپنیوں کے مقابلے میں ترجیحی بنیادوں پر تمام بندرگاہوں تک رسائی ملی۔ سنۂ 1647 تک اس کی فیکٹریوں کی تعداد تئیس تک پہنچ چکی تھی جبکہ سنۂ 1717 میں اس کے کاروبار پر لگا معمولی ٹیکس بھی معاف کر دیا گیا۔ سنۂ 1857 میں مغیلہ سلطنت اسی کمپنی کے ہاتھوں اپنے فطری انجام تک پہنچی۔

اس تمہید کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ جس طرح کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اسی طرح ناکامیاں سمیٹنے کے لئے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سولہویں اور سترویں صدی میں برصغیر میں رہنے واے مسلمانوں کا ایمان یا عقیدہ ہم سے کمزور تھا جن کے ہاتھوں سے موجودہ پاکستان سے کئی گنا بڑی عطا کی گئی سلطنت یا مملکت خداداد ریت کے دانوں کی طرح پھسل گئی یا پھر ان سے سنگین اور فاش قسم کی غلطیاں سرزد ہوئی تھیں؟ آپ کو جواب کی زحمت سے بچانے کے لئے مولانا الطاف حسین حالی کے تجزیے کا ذکر کافی ہے جنہوں نے برصغیر کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر کسی قوم میں پھوٹ پڑ جائے تو اس کے قلعے، فصیلیں، مورچے، ہتھیار اور لاؤ لشکر سب بے کار ہو جاتے ہیں۔“

ہم اکثر اسباب اور جذبہ ایمانی کی بحث میں اٹک جاتے ہیں۔ شاید یہ دونوں باہم مربوط ہوں یا پھر ہر شخص اپنی آراء کے مطابق ایک کو دوسرے پر ترجیح دے سکتا ہے لیکن یہ بحث ثانوی ہے کیونکہ سب سے پہلے تو ہمیں ہر حال میں ملک و قوم کی خاطر اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مولانا مرحوم کی اس نشاندھی کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔

ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت دوسروں کے حال پر غور کرتے ہیں لیکن اپنے حال کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ شاید اس کے پیچھے چھپی نفسیات یہ ہے کہ ہم خود اپنی ستائش کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی ستائش کا سب سے ارزاں، ناپسندیدہ اور بھونڈا طریقہ یہ ہے کہ مسلسل اوروں میں خامیاں تلاش کی جائیں۔ اس عمل کا سب سے برا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ جتنے قریب ہوتے ہیں وہی اس برے عمل یعنی بے جا تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ رجحان عمومی طور پر مسلمان مملکتوں کے اندر اور ان کے آپس کے معاملات میں دیکھنے میں آتا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ پچاس سالوں میں لڑی گئی تمام جنگیں مسلمان ممالک کے حدود کے اندر لڑی گئی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان جنگوں میں کوئی ملک دوسرے کو فکری یا جنگی طور پر مغلوب کر کے قبضہ نہیں کر سکا بلکہ لڑنے والوں نے خود کو کمزور اور دوسروں کا دست نگر بنوایا۔

ہمارا اگلا مسئلہ سماجی تبدیلیوں سے اعتماد اور خندہ پیشانی سے سامنا کرنے میں ناکامی ہے۔ اگر ہم گزشتہ چھ سات دہائیوں میں دبے پاؤں آنے والی سماجی تبدیلیوں کو نہیں روک سکے تو آنے والے وقت میں تبدیلی کے کئی گنا تیز رفتار اور طاقتور پہیوں کو قابو کرنا ہمارے لئے قطعاً ممکن نہ ہو گا۔ میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں میں زباں و بیاں کا موازنہ آج کے دور سے نہ بھی کروں تو قیام پاکستان کے بعد کی کتابوں میں شوہر کے نام خطوط ہمارے جرائد اور رسائل میں دستیاب ہو سکتے ہیں جس میں بیوی خط کا آغاز ”سرتاج من سلامت“ اور اختتام ”آپ کی کنیز“ پر کرتی تھی۔

ریلوے سٹیشنوں پر ملنے والی کتب میں ”شوہر سے گفتگو کے آداب“ اور اس قسم کی بیسیوں کتابیں دستیاب ہوتی تھیں۔ سماجی تبدیلی کے کئی انجن ہیں جس نے ہماری اقدار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب تو لوگ انگریزی کے لفظ تھینکس کو بھی وقت کی کمی یا بے اعتنائی میں مخفف میں لکھتے ہیں۔ یہ صرف سماجی تبدیلی کی ایک جھلک تھی۔ موضوع کے اس حصے کو مزید کریدنا یا ”گوڈی کرنا“ مناسب نہیں۔

سر دست ہمیں درپیش سب سے بڑا چیلنج ملی وحدت کا حصول ہے جو ایک مضبوط سیاسی بندوبست کا متقاضی ہے۔ ملی وحدت کے بغیر شہریوں کے لئے سماجی اور معاشی تحفظ کا خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکتا۔ سیاست اور سیاسی بندوبست کے شعبے میں ہماری ناکامی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ ابتدائی چالیس سال تک تو حالات اتنے ابتر اور غیر یقینی رہے کہ آئین کی موجودگی میں جمہوریت کی ضرورت پر ہی اختلاف رہا۔ جہاں قوموں کی سوچ و فکر میں اس قدر سنجیدہ اور اہم مسائل پر یکسوئی نہ ہو وہاں آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔

صوبائیت اور علاقائیت جیسے رجحانات کی بیخ کنی ایک مضبوط سیاسی نظام کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی طرح سماجی انصاف، مساوات اور فلاحی ریاست کی منزل تک رسائی بھی ممکن نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں وقت کے ساتھ معاشرتی انصاف اور فلاح کی نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں۔ عالمی اور علاقائی تبدیلیاں، نئے نظریات اور معاشی امکانات کے پھیلاؤ نے اپنے دامن میں فلاحی ریاست کے نت نئے مطالب، تشریحات اور مفاہیم سمیٹ رکھے ہیں۔ ہمیں بھی ان تصورات سے استفادہ کرنا چاہیے۔

فیض جو کہ امیدوں، حوصلوں اور زندگی سے محبت کا شاعر ہے نے کہا تھا کہ ”درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی“ اور پھر اس سے بھی آگے جا کے مصرعہ باندھا تھا کہ ”صد شکر کہ اپنی راتوں میں، اب ہجر کی کوئی رات نہیں۔“ وطن عزیز میں بسنے والے تمام شہری بھی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، ریاست سے اپنی تمام تر وابستگی اور وفاداری کے عوض ایک روشن مستقبل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).