خارجہ پالیسی: میرے نخچیر پہ کیا عالم تنہائی ہے


ایسے وقت میں جبکہ عمران خان اپنی دو سالہ غیرمعمولی کامیابیوں کو عوام میں اجاگر کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے سعودی عرب سے تعلقات میں تناؤ نے سارے منصوبے کو چوپٹ کر دیا۔ اوپر سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر عدم دلچسپی پر سعودی عرب پر تنقید کی۔ حال ہی میں جب پاکستانی حکمرانوں نے ایک ترانہ بنا کر اور نقشے میں مقبوضہ کشمیر کو شامل کر کے جو سطحی اقدام کیا ان کو توقع تھی کہ اسلامی کانفرنس اپنے خصوصی اجلاس میں ایک قرارداد منظور کر کے ان کے پلان کو دوبالا کر دے گی۔ اس اجلاس کی درخواست شاہ محمودقریشی نے کی تھی لیکن اجلاس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا۔ غالباً اس سے شاہ صاحب کو غصہ آگیا اور وہ سفارتی آداب اور پیچیدگیاں بھول گئے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں سعودی عرب کا جھکاؤ بھارت اور بنگلہ دیش کی طرف ہے حالانکہ اپنے سیکیورٹی معاملات کے ضمن میں وہ بارہا پاکستان سے معاونت حاصل کرتا رہا ہے اس وقت بھی سعودی عرب نے یمن کے حوالے سے جو سنی اتحاد بنا رکھا ہے اس کے کمانڈر انچیف راحیل شریف ہیں۔ یہ الگ بات کہ یمن کے معاملہ میں ابھی تک سعودی عرب کو کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ ایران کا یمن، شام، عراق اور لبنان میں جو اثرورسوخ ہے سعودی کوششیں رائیگاں نظرآرہی ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ میں ترکی سعودی اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ قطر میں اس نے اپنا پہلا فوجی اڈہ بنا رکھا ہے۔ لیبیا میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جنرل ہفتار کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ترکی مخالفین کا ساتھ دے رہا ہے۔ ترکی شام میں بھی مداخلت کررہا ہے جہاں سعودی حمایت یافتہ گروپوں کو شکست ہو گئی ہے۔

عالمی صف بندی میں سعودی عرب امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے لیکن صدرٹرمپ نے کافی ساری دولت اینٹنے کے بعد تعلقات کو سردمہری کا شکار کر دیا ہے حالانکہ ٹرمپ سے پہلے سعودی عرب ایشیاء یا مشرق وسطیٰ میں امریکی تھانیدار کا کردار ادا کر رہا تھا یہ ذمہ داری امریکہ نے سعودی عرب کو شاہ ایران کے زوال کے بعد تفویض کی تھی۔  جنرل ضیاء الحق نے سعودی عرب سے تعلقات کو بہت مضبوط بنایا تھا کیونکہ انہوں نے افغانستان میں جہاد شروع کردیا۔ صدر ریگن نے مجاہدین کے نان ونفقہ کی ذمہ داری سعودی خزانے پر ڈال دی تھی۔ سعودی عرب نے اسامہ بن لادن کو بھی جہاد میں حصہ لینے کیلئے افغانستان بھیجا تھا۔ ایمن الظواہری نے وانا میں بیٹھ کر القاعدہ کی بنیاد ڈالی تھی جس نے افغان جہاد ختم ہونے کے بعد نائن الیون کا قہرآلود سانحہ برپا کردیا تھا۔

ضیاء الحق کے بعد ان کے سیاسی و روحانی جانشین میاں محمد نواز شریف نے سعودی عرب سے خصوصی تعلقات قائم کئے تھے۔ یہ بہت ہی نازک اور حساس نوعیت کے تعلقات تھے۔ شک ظاہر کیا جاتا ہے کہ نوازشریف کے دور میں سعودی عرب کو کچھ ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1999ء میں جب پرویز مشرف نے نوازشریف کا تختہ الٹا تو سعودی فرمان روا نے حکم دیا کہ نوازشریف کو اس کے ہاں جلاوطن کیا جائے۔ ان تعلقات میں اس وقت سردمہری آئی جب سعودی شاہی خاندان کی سیکیورٹی میں دراڑیں پڑ گئیں۔ امریکی سی آئی اے کی نااہلی کی وجہ سے شاہی خاندان کوخطرات لاحق ہوگئے تھے اس پر مشرف نے خصوصی دستے بھیجے تھے اور کافی عرصہ تک شاہی خاندان کو سیکیورٹی فراہم کی تھی۔ اس سے خوش ہوکر شاہ عبداللہ نے جنرل مشرف کو کروڑوں ڈالر انعام میں دیئے تھے۔

2007ء کو جب بینظیر نے جلاوطنی ترک کر کے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو سعودی فرماں روا نے مشرف پر دباؤ ڈالا کہ شریف فیملی کو بھی واپس آنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم مشرف کی کوششوں سے شاہی خاندان اور شریف فیملی کے تعلقات میں گرم جوشی ختم ہوگئی جبکہ شاہ سلمان کے تخت پر بیٹھنے اور اقتدار پر ولی عہد محمد بن سلمان کے قبضہ کے بعد یہ تعلقات ختم ہو گئے لیکن شاہ محمود کے حالیہ بیان کے جواب میں شہباز شریف نے سعودی عرب کی جو حمایت کی، وہ دراصل تعلقات کی دوبارہ بحالی کی شعوری کوشش ہے۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد جب پاکستان دیوالیہ ہو رہا تھا تو جنرل باجوہ نے شاہی خاندان سے امداد کی خصوصی درخواست کی جو منظور کی گئی، اس میں عمران خان کا کوئی کمال نہیں ہے۔ امداد کے بعد جب عمران خان نے کوالالمپور میں ڈاکٹر مہاتیر اور طیب اردگان سے مل کر ایک اسلامی کانفرنس بلانے کی کوشش کی تو سعودی ولی عہد ناراض ہوگئے۔ انہوں نے عمران خان کو ریاض طلب کرکے حکم دیا کہ وہ نہ صرف خود اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں بلکہ اپنا کوئی وفد بھی نہ بھیجیں، مجبوراً عمران خان کو حکم ماننا پڑا ورنہ سعودی عرب اپنا 3 ارب ڈالر کا قرضہ اور 3 ارب ڈالر ادھار پر تیل کی فراہمی بند کردیتا۔

عمران خان سفارتی آداب سے اتنے ناواقف ہیں کہ انہوں نے ترکی کے صدر کو ساری بات بتا دی اور کہا کہ سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ وہ لاکھوں پاکستانیوں کو بھی نکال دے گا۔ اس سے سعودی عرب مزید ناراض ہو گیا۔ اب جبکہ معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ عمران خان کوایک ارب ڈالر واپس کرنا پڑا ہے تو ناگوار تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے آرمی چیف کو ایک بار پھر میدان میں آنا پڑ رہا ہے۔ تعلقات میں جو بال آیا ہے وہ وقتی طور پر تو ٹھیک ہوجائے گا لیکن پاکستان کو اپنی موجودہ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ اگراسی دوران متحدہ عرب امارات نے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کردیا تو انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال پیداہوجائے گی لیکن اس کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے کیونکہ سعودی عرب کی دلچسپی انڈیا میں ہے۔ وہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری لگا رہا ہے اور مکیش امبانی کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔

اسی طرح عرب امارات کے تعلقات بھی انڈیا سے زیادہ دوستانہ ہے۔ موجودہ او آئی سی عالم نزع میں ہے اور اس کے زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ چنانچہ پاکستان کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ترکی اور ملائیشیا کی جانب دیکھے نہ صرف یہ بلکہ ایران سے بھی اسے تعلقات ٹھیک کرنے پڑیں گے۔ اگر سعودی عرب نے ہاتھ کھینچ لیا تو ایران سے دوبارہ گیس پائپ لائن کے منصوبے کا معاہدہ کرنا پڑے گا اور تیل کی خریداری بھی ایران سے کرنا پڑے گی۔ اس وقت پاکستان سعودی عرب اور کویت سے تیل خرید رہا ہے جو زیادہ کرایہ کی وجہ سے مہنگا پڑ رہا ہے۔ ایران سے تیل وگیس کی خریداری کے بعد بڑی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی چونکہ اس وقت پاکستان اور ایران دونوں کا سرپرست چین ہے لہٰذا دونوں ممالک کو قریب آنا چاہئے۔

چینی کیمپ میں جانے کے بعد امریکہ پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کرے گا اور ماضی کی طرح سازشوں سے کام لے گا کیونکہ چین اس کا سب سے بڑا حریف اور ایران پرانا دشمن ہے لیکن یہ ایک اہم اور نازک معاملہ ہے۔ اپنے قیام سے اب تک پاکستان امریکی کیمپ میں رہا ہے وہ ماضی میں اسلحہ اور امداد بھی امریکہ سے لیتا رہا ہے اور اس کے دفاع کا سارا اسٹرکچر امریکی ہے۔ ٹوٹل شفٹ سے اس کے لئے بے شمار تکنیکی مسائل پیدا ہو جائیں گے جس سے انڈیا کو فائدہ ہو گا کیونکہ انڈیا اور امریکہ نے تزویراتی پارٹنر شپ کا معاہدہ کر رکھا ہے۔

اگر امریکہ سعودی عرب اور یواے ای ناراض ہو گئے تو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تمام مسائل ایسے وقت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ جب پاکستان عالمی تنہائی کے خاتمہ کیلئے ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ اس کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ سفارتی آداب پیچیدگیوں اور بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ان کا یہ حال ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو اپنے نقشہ میں شامل کرنے سے یہی سمجھ رہے ہیں کہ کشمیر انہیں مل گیا ہے۔ ایک طرف داخلی مسائل گھمبیر ہیں تو دوسری طرف پاکستان شدید عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ اس کے باوجود حکمران اپنی دو سالہ ناکامیوں کو کامیابی کا نام دے کر ان کا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).