دنیا رد عمل دے گی مگر رد عمل پر


میرے گھر والوں پر میرے پڑوس میں رہنے والے بد قماش افراد نے حملہ کر دیا، بد قماشوں کی یہ حرکت اہل محلہ کو گراں بھی گزرے تب بھی وہ میرے رد عمل کی جانب ضرور دیکھیں گے۔ اگر میں رد عمل کے طور پر بہر لحاظ خاموش رہا تو اہل محلہ میں دو طرح کی سوچیں ابھریں گی۔ ایک یہ کہ میں اتنا اعلیٰ ظرف ہوں کہ تمام تر بدلہ لینے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود در گزر سے کام لے کر محلہ کی فضا کو خراب نہیں کرنا چاہتا اور بدقماشوں کو امن و آشتی بر قرار رکھنے کا ایک موقع اور فراہم کرنا چاہتا ہوں یا پھر وہ تمام کے تمام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ میرا بظاہر یہ پہاڑ جیسا تن و توش ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے کے لئے ہو تے ہیں لیکن حقیقتاً میں اندر سے نہایت بزدل اور ڈر پوک ہوں۔ ہر دو صورت میں اہل محلہ نہ تو میری مدد کے لئے آگے بڑھیں گے اور نہ ہی میرے لئے ہمدردی کے جذبے کا کوئی زبانی یا عملی مظاہرہ کریں گے۔

یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب بہت فوری دیا جائے۔ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی غلط رویے پر اہل محلہ کو آگاہ کرنا، ان کے سامنے ہر قسم کی صورت حال رکھ کر اس بات کی دعوت دینا کہ وہ از خود جائزہ لے کر فیصلہ کریں کہ زیادتی پر کون ہے تاکہ محلہ کی امن و امان کی بگڑ جانے والی صورت حال بے قابو نہ ہو جائے۔ اول تو اہل محلہ کافی حد تک آگاہ ہوا ہی کرتے ہیں لیکن آپ کی جانب سے شکایات کے ازالے کی دعوت سے وہ آپ سے مزید قریب ہو سکتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان آج سے نہیں، گزشتہ 72 برس سے کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھایا بھی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین تر اس لئے ہو گیا ہے کہ بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370 اور ذیلی شق 35 اے کی تنسیخ کرکے ایک جانب قانونی طور پر کشمیر کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا ہے تو دوسری جانب وہاں کئی لاکھ مزید فوج بھیج کر پوری وادی میں نہ صرف کرفیو نافذ کر دیا ہے بلکہ بھارتی اقدامات کے خلاف ہر کشمیری کی آواز کے جواب میں اسے موت کی نیند سلایا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کا صرف بیان اور نقشے بازی تک محدود رہنا کشمیریوں کو غلامی کی زنجیروں میں مزید جکڑے رہنے کا سبب تو بن سکتا ہے، انھیں آزدی کسی صورت نہیں دلا سکتا۔

جیسا کہ کہا گیا کہ ہر جارحیت کا جواب فوری جارحیت نہیں ہوا کرتا لیکن کیا پاکستان نے دنیا کو اس کے لئے تیار کیا؟ کیا دنیا کے بیشمار ممالک میں چار چار پانچ پانچ افراد پر ہی مشتمل سہی، وفود بھیج کر صورت حال کو ان کے سامنے رکھا گیا اور کیا ہمدرد ممالک کو آگاہ کیا گیا کہ کوئی اور اس سلسلے میں پیش رفت کرے یا نہ کرے، ہم اپنا رد عمل دینے جا رہے ہیں۔

مہاتر محمد بے شک اب ملائشیا کے وزیر اعظم تو نہیں رہے لیکن ان کا یہ جملہ کہ ”کشمیر پر خاموش رہنے کا کوئی آپشن نہیں“ ، بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ ”بھارت مقبوضہ کشمیر میں وہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے“ ۔ مہاتر محمد کے یہ الفاظ کہ بھارت خطے میں بدمعاش بننے کی کوشش نہ کرے، مودی اور اس کی کابینہ بدمعاشوں کا روپ نہ دھارے ”ایک ہتھوڑا ہیں جو بھارتی سر کار کے سر پر لازماً برسے ہوں گے لیکن دنیا کے نہ جانے کتنے ممالک نے اپنے سروں میں پڑے گومڑوں کی تکلیف کی شدت کو محسوس ضرور کیا ہوگا۔ مہاتر محمد کا کہنا پاکستان کے لئے ایسا ہی ہے جیسے کوئی سمجھدار ماں کہتی تو اپنی بیٹی کو ہے لیکن سنا بہو کو رہی ہوتی ہے۔

اصل بات یہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر مسلسل خاموشی اور پاکستان کی جانب سے کوئی عملی رد عمل کا سامنے نہ آنا بجائے خود ایک نا قابل فہم اقدام ہے جس کی وجہ سے بیشمار وہ ممالک جو اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے تیار بھی ہوں، وہ اپنی جانب سے کسی بھی قسم کا عملی مظاہرہ کرنے سے معذور ہیں۔

گزشتہ ایک دو روز سے پاکستان کی جانب سے کچھ ایسے اشارے ضرور ملنا شروع ہوئے ہیں جیسے پاکستان اپنی خارجی پالیسی میں ایک بڑا موڑ لینے والا ہے اور وہ ایسے تمام ممالک سے اپنے آپ کو دور کر لینا چاہتا ہے جو کشمیر کے موقف کے سلسلے میں خاموش رہنا چاہتے ہیں اور ان سے قربت اختیار کرنا چاہتا ہے جو کشمیر کے سلسلے میں پاکستانی موقف کے ساتھ ہیں۔ اس سوچ کے اظہار کے باوجود پاکستان کشمیر کے سلسلے میں کیا واضح اقدامات اٹھانا چاہتا ہے، اس کا واضح فیصلہ ابھی تک خود پاکستان کی جانب سے سامنے نہیں آ سکا ہے بلکہ اس کے بر عکس وزیر خارجہ کی پومپیو سے ٹیلیفونک بات چیت پاکستان کے شش و پنج کی مکمل عکاس ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان دنیا کے سامنے اپنا موقف بلا کسی ملمع سازی پیش کرے ورنہ دنیا کا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).