پردہ از مولانا مودودی اور مسلم عورت کی حالتِ زار


’کراچی یونیورسٹی میں کرکٹ کھیلتی لڑکیوں پر ایک طلبا تنظیم کا حملہ۔ بلّوں سے پٹائی‘

’پی ٹی آئی کے جلسے میں خواتین سے بدتمیزی اور دست درازی کے متعدد واقعات۔ نوجوانوں میں گھری ہراساں لڑکی کی وڈیو جاری‘

’انگلستان میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر کا بالغ بیٹی پر تشدد، لائسنس معطل‘

’حاملہ عورت کو سگے بھائیوں اور باپ نے لاہور ہائی کورٹ کے پر ہجوم احاطے میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس سیمت سینکڑوں افراد خاموش تماشائی بنے رہے‘

’ماڈل و اداکارہ انعم خان پر مداح نے تیزاب پھینک دیا۔ تشویشناک حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج‘

’اسلام آباد میں نصب اشتہاری بورڈز پر موجود خواتین کے چہروں پر سیاہی پھیر دی گئی۔ بازار آنے والے خریدار بے نام خوف کا شکار‘

پاکستانی معاشرے میں عورت کے خلاف تعصب روایتی طور پر یہاں کے قبائلی اور جاگیردارانہ سماج کے باعث تھا لیکن پڑھے لکھے اور شہری علاقوں میں بھی مردانہ احساسِ برتری اور عورت کی تحقیر جڑ پکڑ گئے ہیں جس کی عکاسی مندرجہ بالا اخباری سرخیوں سے ہوتی ہے۔ بنتِ حوا کو پابند کرنے والی اس شہری فکر کا تعلق مذہبی بنیاد پرستی کے ان نظریات سے ہے جنہیں پچھلے تیس پینتیس سالوں میں تدریسی کتب کا حصہ بنا کر ایک انوکھی نسل پروان چڑھائی گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جہاں ملک کی کل آبادی کے گنے چنے خوش نصیب ترین طلباء پہنچ پاتے ہیں عورت مخالف خیالات کو تشدد کے زور پر دوسروں پر ٹھونسنے کی راسخ ہوتی ہوئی روایت کی جتنی مذمت اور مزاحمت کی جائے وہ کم ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیف ’پردہ‘ اس نکتۂ نظر کی علمبردار ہی نہیں بلکہ قدامت پسند سوچ کی بنیاد کی اینٹ ہے۔ مولانا کی انہی علمی خدمات کے صلہ میں سعودی عرب کی حکومت نے انہیں 1979 میں پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ یاد رہے کہ خود سعودی فرمانرواؤں شاہ خالد اور شاہ فہد کو بعد میں اس گراں قدر اعزاز کا اہل سمجھا گیا۔

عنوان کے برخلاف اس کتاب کا بمشکل دس فیصد اس بات کا احاطہ کرتا ہے کہ کس کس سے اور کتنا پردہ کرنا چاہئے جب کہ بقیہ نوے فیصد میں عورت کے حوالے سے پہلے ہی قائم کردہ رائے کی تائید میں دلائل کا انبار اکھٹا کیا گیا ہے۔ مثلاً مغربی معاشرے کی اخلاق باختگی، آزادی کے نام پر عورت کا استحصال، بن بیاہی مائیں، ناجائز بچے، نکاح کا ختم ہوتا ادارہ، بکھرتے ہوئے خاندان، طلاق کی خوفناک شرح وغیرہ وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بشارت دی گئی ہے کہ اب مغرب کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

قدیم یونان اور سلطنتِ روما میں فواحش کی فراوانی اور عورت کی حرمت و عزت کی ارزانی کا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اگر اس وقت تک کی (کتاب 1940ء میں لکھی گئی) عظیم مسلم بادشاہتوں یعنی اموی، عباسی، فاطمی، عثمانی یا مغلیہ ادوار میں عورت کو نصیب ہونے والے کسی قابلِ رشک مقام کی نشاندہی بھی ہوجاتی تو قاری کے لئے موازنہ کرنا کتنا آسان ہوجاتا۔

کتاب میں کئی مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے قارئین سے مخاطب ہوتے ہوئے صاحبِ کتاب منبر پر نہیں بلکہ آسمان پر براجمان ہیں اور عورت کا جو روپ ان کے ذہن میں ہے اسے ہاتفِ غیبی کی طرح پیش کر رہے ہیں۔

مثلاً ’’اسلامی نظمِ معاشرت میں تو عورت کی آزادی کی آخری حد یہ ہے کہ حسبِ ضرورت ہاتھ منہ کھول سکے اور اپنی حاجات کے لئے گھر سے باہر نکلے‘‘۔

’’عورت کو خانہ داری کے ماسوا دوسرے امور میں حصہ لینے کی مقید اور مشروط آزادی اسلام میں دی گئی ہے‘‘۔

’’صرف یہی نہیں کہ عورت پر بیرون خانہ کی ذمہ داری ڈالنا ظلم ہے بلکہ وہ اس کی اہل بھی نہیں‘‘۔

’’فوج کی مثال کو آپ کہہ دیں گے کہ یہ زیادہ سخت قسم کے فرائض ہیں مگر پولیس، عدالت، انتظامی محکمے، سفارتی خدمات، ریلوے، صنعت و حرفت اور تجارت ان میں سے کس کی ذمہ داریاں ایسی ہیں جو مسلسل قابلِ اعتماد کارکردگی کی اہلیت نہ چاہتی ہوں؟ پس جو لوگ عورتوں سے مردانہ کام لینا چاہتے ہیں وہ عورت کو ناعورت بنا کر نسلِ انسانی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

اپنے موقف کی تائید میں مولانا ’’سائنسی تحقیق‘‘ کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ:

’’ایامِ ماہواری میں ایک عورت دراصل بیمار ہوتی ہے۔ یہ ایک بیماری ہی ہے جو اسے ہر مہینے لاحق ہوتی ہے۔ اس زمانے میں عورت کا نظامِ عصبی نہایت اشتعال پزیر ہوجاتا ہے۔ ایک عورت جو ٹرام کی کنڈکٹر ہے اس زمانے میں غلط ٹکٹ کاٹ دے گی اور ریزگاری گننے میں الجھے گی۔ایک موٹر ڈرائیور عورت گاڑی آہستہ آہستہ اور ڈرتے ڈرتے چلائے گی اور ہر موڑ پر گھبرا جائے گی۔ ایک لیڈی ٹائپسٹ غلط ٹائپ کرے گی، ایک بیرسٹر عورت کی قوتِ استدلال درست نہ رہے گی، ایک مجسٹریٹ عورت کی قوتِ فہم اور قوتِ فیصلہ دونوں متاثر ہوں گے۔ایک دندان ساز عورت کو اپنے مطلوبہ اوزار نہ ملیں گے۔ ایک گانے والی، اپنے لہجے اور آواز کی خوبی کھو دے گی۔ غرض یہ کہ وہ کوئی ذمہ دارانہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی‘‘۔

’’ایامِ ماہواری سے بڑھ کر حمل کا زمانہ عورت پر سخت ہوتا ہے۔اس زمانہ میں کئی مہینے اس کا نظامِ عصبی مختل رہتا ہے۔ اس کا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس میں تلوّن پیدا ہوتا ہے۔ خیالات پریشان رہتے ہیں۔ ذہن پراگندہ ہوتا ہے۔ شعور اور غور وفکر اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت بہت کم ہوجاتی ہے‘‘۔

’اصلاحِ باطن‘ نامی باب میں عورت کی حیا پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد اس کی ذات سے جڑے دل کے چور، فتنۂ نظر، جذبۂ نمائشی حسن، فتنۂ زبان، فتنۂ آواز، فتنۂ خوشبو، فتنۂ عریانی پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔

تعلیم کے باب میں دو ٹوک فرماتے ہیں کہ ’’عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اس کو ایک بہترین بیوی، بہترین ماں اور بہترین گھر والی بنائے۔ اس کا دائرۂ عمل گھر ہے، اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان علوم کی تعلیم دی جانی چاہئے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہیں‘‘۔

مغرب کے شہوانی ماحول کی بڑی تفصیلی، رنگین اور مسالہ دار تصویر کشی کا حاصل ہمیں یوں پیش کرتے ہیں:

’’طلاق اور تفریق کی اس کثرت کا علاج اب یہ نکالا گیا ہے کہ رحمدلانہ شادی (کمپیشنیٹ میرج) یعنی ‘آزمائشی نکاح’ کو رواج دیا جائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ مرد اور عورت پرانے فیشن کی شادی کیے بغیر کچھ عرصے تک باہم رہیں اور اگر اس یکجائی میں دل سے دل مل جائے تو شادی کرلیں‘‘۔

مودودی صاحب کی پردہ کو یہیں چھوڑ کر ہم ذرا ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی فرق کی حالیہ رپورٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس میں دنیا کے ایک سو چوالیس ممالک میں عورت کے مقام کا تعین کرنے کے لئے ذیلی چار پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے:

1۔ معاشی عمل میں عورت کی شرکت اور مواقع

2۔ حصولِ علم میں کامیابی

3۔ صحت اور زندہ رہ جانے کے امکانات

4۔ سیاسی اختیارات میں شراکت داری

یہ رپورٹ مولانا مودودی کے تحریر کردہ تمام مفروضات کا پردہ چاک کرتے ہوئے یہ بتاتی ہے کہ جن معاشروں میں عورت کی پسماندگی تحت الثریٰ کو چھو رہی ہے ان میں پاکستان کا مقام صرف جنگ زدہ یمن سے اوپر ہے۔ بقیہ بد ترین ممالک میں شام، سعودیہ، ایران، مراکش، مصر، ترکی، اردن اور امارات شامل ہیں۔

مغرب میں نکاح کے ادارے کی معدومیت اور طلاق کے رحجانات پر بھی مولانا کے خدشات اور تنبیہات کچھ غیر ضروری ثابت ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پردہ کی ہوبہو تشکیل یعنی سعودیہ میں طلاق کی شرح اکثر مغربی ممالک سے اونچی ہے اور ‘نکاح مسیار’ کے نام سے جز وقتی شادی کے ادارے کو کافی فروغ مل رہا ہے۔

عورت پر تشدد بنیاد پرست عناصر کی باقاعدہ ایک حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد نصف آبادی کو گھروں میں محبوس رکھ کر مسلم معاشروں کی کمر توڑ دینا ہے۔ جن ان دیکھے ہاتھوں نے جامعات میں معصوم طالبات پر تیزاب پھینکا اور اشتہاری بورڈز پر عورت کی شکل کو مسخ کیا ان کے ذہنوں کی آبیاری پردہ جیسی کتابوں سے ہوئی تھی۔

محض اتفاق نہیں کہ ایامِ طالب علمی میں گلبدین حکمت یار پر بھی کابل یونیورسٹی کی طالبات پر تیزاب پھینکنے کا الزام تھا اور یہ بھی محض حادثہ نہیں کہ عرب بہار کے دوران جب تحریر اسکوائر پر تاریخی اجتماعات میں خواتین نے بھرپور شرکت کی تو ان میں سے کئی سو کو جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments