لویہ جرگے کا افغانستان کی تاریخ میں کردار


افغانستان کو جرگوں کی سرزمین کہاں جاتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں آباد پشتون اپنے مسائل کو جرگوں کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ جرگہ صدیوں سے پشتون روایات کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس جدید دور میں جب دنیا جمہوریت کو مسائل کا واحد حل قرار دیتی ہے لیکن جرگہ نظام جمہوری نظام کے معاشرتی اور سیاسی روایات سے قدرے مختلف ہے۔ جرگہ میں کسی امیر اور غریب کا فرق نہیں کیا جاتا ہے۔ جرگے میں شریک ہر شخص بلا جھجک اور خوف سے آزاد ہوکر بات کرتا ہے۔ وہ کسی پارٹی یا گروپ کے احکامات کا پابند نہیں ہوتا۔ جرگے کا حتمی فیصلہ دونوں فریقوں یا اجتماعی طور پر فوری طور قابل قبول ہوتا ہے۔ حتمی فیصلے کے بعد ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا جب تک اس معاملے میں کوئی اور فیصلہ جرگہ نہ کرے۔

لویہ جرگہ جب افغان قوم کو کوئی قومی سطح پر مسئلہ درپیش ہو تب لویہ جرگہ طلب کیاجاتا ہے۔ اس جرگے میں افغانستان کے تمام علاقوں کے نمائندے اور بعض اوقات پاکستان میں رہنے والے پشتونوں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔ اور یہ روایت دوسرے ممالک میں ہمیں نہیں ملتی۔ اس جرگے میں مختلف مکتبہ ہائے فکر کے افراد شریک ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ تعداد قبائلی عمائدین کی ہوتی ہے۔

جدید افغانستان کی بنیاد بھی لویہ جرگے کے تحت رکھی گئی ہے۔ جب اکتوبر 1848 کو مشہد میں نادر شاہ افشار کا قتل ہوا اس وقت احمدشاہ ابدالی نادرافشار کے فوج میں ایک اہم فوجی عہدے پر فائز تھے۔ وہ ہندوستان سے مشہد جا رہے تھے۔ اس دوران وہ قندہار میں رکے۔ اور ایک لویہ جرگے کا انعقاد کیا گیا جو نو دن جاری رہا۔ اس لویہ جرگہ نے احمد شاہ ابدالی کو بادشاہ کے طور پر منتخب کیا۔ افغانستان کے تاریخ میں دوسرا جو اہم لویہ جرگہ 1915 افغانستان کے اس وقت کے امیرحبیب اللہ خان کے سربراہی میں منعقد ہوا۔

اس وقت پہلا عالمی جنگ چل رہا تھا۔ جرمنی اور اس کے اتحادی ترکی کے مشترکہ وفد نے افغانستان سے جنگ میں ترکی اور جرمنی کا اتحادی بننے کے خواہش کا اظہار کیا۔ امیرحبیب اللہ خان نے اس مسئلے پر لویہ جرگہ طلب کیا تھا جس میں یہ قرار پایا کہ افغانستان جنگ میں غیرجانبدار رہے گا۔ اس طرح دوسری عالمی جنگ میں بھی لویہ جرگہ نے ہی فیصلہ کیا کہ افغانستان جنگ میں غیرجانبدار رہے گا۔

طالبان رجیم کے خاتمے کے بعد 2001 کے ستمبر کے مہینے میں لویہ جرگے کا انعقاد ہوا اس جرگے میں حامد کررزئی کو عبوری صدر کے طور پر نامزد کیا گیا۔ اور اس جرگے میں پہلے بار بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔

29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوہا میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پایا۔ معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کی شق بھی شامل تھی۔ اس شق کے تحت افغان حکومت پانچ ہزار افغان طالبان قیدیوں کے رہا ئی کا پابند ہوگا۔ اوراسی طرح طالبان کے ساتھ قید افغان حکومت کے فوجی اور دیگر اہلکار طالبان رہا کریں گے۔ قیدیوں کے تبادلے کے بعد بین الافغانی مذاکرات کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس دوران قیدیوں کے تبادلے میں حکومت کی طرف سے اعتراضات سامنے آئے اور کہاں گیا کہ اس کے لئے اعتماد کی فضا ء کا وجود ناگزیر ہے۔

ٰقیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ التوا کا شکار ہوگیا لیکن اس دوران افغان حکومت نے 4600 کے قریب قیدیوں کو رہا کیا۔ دوسری طرف افغان طالبان نے بھی دوہزار کے قریب قیدی رہا کیے ۔ لیکن افغان حکومت کی طرف سے چار سو افغان طالبان قیدی طالبان یہ کہہ کر رہا نہیں کیے کہ یہ چار سو افغان قیدی قیدی سنگین انسانی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ اور خدشہ ظاہر کیا کہ یہ قیدی ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور ان طالبان قیدیوں کے بارے میں عیدالالضٰحی کے موقع پر اپنے پیغام می افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ میرے پاس اختیار نہیں ہے کہ ان قیدیوں کو رہا کردوں اس لیے انہوں نے مشاورتی لویہ جرگہ طلب کرنے کا اعلان کیا۔

یاد رہے یہ جرگہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے سلسلے مشاورت کرنے کے لئے حکومت نے طلب کیا تھا تاکہ جرگے سے مشورہ طلب کرسکیں۔ طالبان نے چونکہ مشاورتی جرگے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ حکومت کی طرف سے طلب کردہ جرگہ افغان عوام کا ترجمان جرگہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود طالبان نے جرگے میں ہونے والے فیصلے کو سراہا۔ مشاورتی جرگے کی سربراہی افغان امن مصالحتی شوریٰ کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سپرد تھی۔ اس مشاورتی لویہ جرگہ میں افغان صدر کے بقول 2400 کے قریب مندوبین شریک تھے۔ جس میں 720 کے قریب خواتین بھی شامل تھیں۔ جرگے میں افغان طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ افغان صدر نے جرگے کے فیصلے پر فوری طور عمل درآمد کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ لویہ جرگہ نے اپنی حثیت ایک بار پھر ثابت کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).