خاموش اور دھیمی عورت


ہمارے معاشرے میں ہم کسی کی جنس کے لحاظ سے اس کا خاکہ اپنے دماغ میں بنا لیتے ہیں۔ اگر مرد ہے تو روپ دار ہی ہونا چاہیے اوراگر کبھی کبھی غصہ ہو بھی جاتا ہے تو وہ اس کا حق ہے کیونکہ وہ کمانے والا ہے۔ اور اگر عورت ہے تو وہ سلیقے والی، دھیمی اورسمجھوتہ کرنے والی ہونی چاہیے تاکہ وہ نئے گھر گزارا کر سکے۔

کوئی بھی دو انسان جب ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں تو ان کے درمیان کسی بات پر بحث یا لڑائی کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ لیکن اس لڑائی میں یہ امید رکھنا کہ ہمیشہ مرد ہی حق پر ہے اور عورت کو خاموش ہو جانا چاہیے غلط ہے۔ ہمیشہ عورت سمجھوتاکیوں کرے؟ صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے؟ ایک عورت کو بچپن سے اس کے کم تر ہونے کا احساس دلایا جایا ہے۔ اس کے اندر نفرت کا بیج بویا جاتا ہے اور خود اعتمادی کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اب وہ ایک اچھی ماں، بیٹی یا بیوی کیسے بن سکتی ہے؟

اس رویے کی ابتدا تب ہوتی ہے جب اس کے ہوش سنبھالتے ہی اسے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں بیٹا چاہیے تھا۔ اور اکثر یہ بات کرنے والے کوئی اور نہیں اس کے اپنے باپ یا ماں ہوتے ہیں۔ کچھ سال میں بھائی نہ آئے تو منحوس قرار دے دی جاتی ہے اور بھائی آ جائے تو اسے نئی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں۔ اب بھائی کی ہر صحیح یا غلط بات پر جی حضوری لازم ہو جاتی ہے۔ اس کو کمپیوٹر کے سامنے کھانا پینا پیش کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی مردہ خواہشات کے سامنے بھائی کی ناجائز خواہشات پوری ہوتے دیکھتی ہے۔

پھر ایک خاص عمر کے بعد اس کے باہر کھیلنے پر پابندی لگ جاتی ہے۔ پڑھائی میں ایسے مضمون کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اس کی شادی کی عمر تک مکمل ہو جائے اور کبھی کبھی تو سکول کی شکل دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اور اس سب کے دوران بھائی کو بیرون ملک پڑھائی کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ اس عمر تک وہ اچھے سے سیکھ چکی ہوتی ہے کہ گھر کے کام کاج صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔ اس کی ماں اسے روز بتاتی ہے کہ اس نے گھر کے کام نہ سیکھے تو وہ سسرال میں ناک کٹوائے گی۔

اسے روز بتایا جاتا ہے کہ وہ کتنی موٹی اور پکے رنگ کی ہے۔ اسے سمجھایا جاتا ہے کہ اسے خود میں کتنا کچھ بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی اچھی جگہ اس کی شادی ہو جائے۔ اسے روز نئے لوگوں کے سامنے سجا کے پیش کیا جاتا ہے جو اس میں نقص نکال کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اور جب کہیں رشتہ پکا ہو جائے تو جہیز کے درمیان وہ لڑکی کو بھی لے جاتے ہیں۔ لڑکی کو سمجھایا جاتا ہے کہ اس نے زبان بند کر کے اپنے شوہر اور اس کے لمبے چوڑے خاندان کی خدمت کرنی ہے، شوہر کی مار کے جواب میں بھی خاموش رہنا ہے اور ماں باپ کی عزت تب ہی بنے گی کہ سسرال سے اب بیٹی کا جنازہ ہی اٹھے۔

اب شوہر یہ امید رکھتا ہے کہ بچوں کی اچھی دیکھ بھال اور اس کے خاندان والوں کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کے بعد بیوی شوہر کو وقت بھی دے اور اس کے لیے سج سنور کے رہے۔ اور اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسے بیٹی کا درجہ کبھی نہیں دیا جاتا۔ اس کی ہر چھوٹی چھوٹی غلطی پر طعنوں سے اس کی عزت نفس کو روند دیا جاتا ہے۔

عورت کی شخصیت کو تار تار کرنے کی یہ چند مثالیں ہیں۔ ورنہ اس کی فہرست بناتے بناتے تو صبح سے شام ہو جائے۔ لیکن میراسوال یہ ہے کہ ایسے انسان میں غصہ اور نفرت کیسے نہ ہو؟ وہ مرد کی غلامی تو کر لے گی لیکن اس کا لباس بن کر اس سے محبت کیسے کرے گی؟ جب اسے اچھی تعلیم اور خود اعتمادی نہیں دی جائے گی تو وہ بچوں کو مکمل انسان کیسے بناسکے گی؟ کیا ماں باپ کا فرض صرف پیدا کرنا ہوتا ہے؟ کیا شوہر کے کمانے کے علاوہ کوئی فرائض نہیں؟ اللہ نے عورت کو صرف خدمت کے لیے پیدا کیا ہے؟

ہم اس رویے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ایسے سوال کرنا گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں رہا کہ ہم صرف ایک لڑکی کا مستقبل داؤ پر نہیں لگا رہے بلکہ اپنی اگلی نسل کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔

مریم فیروز
Latest posts by مریم فیروز (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).