جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں


میں ایک پاکستانی ہوں، ایک جذباتی پاکستانی اور اپنی اس شناخت کو تمام تر تحفظات کے ساتھ بسر و چشم تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں ایک پنجابی ہوں اور یہی میری اولین شناخت ہے کیونکہ پنجابیت کی قوت میرے تلوؤں تلے مٹی کے لمس کا احساس جگائے رکھتی ہے۔

میری پنجابی شناخت میرے لیے بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ یہ میری یہ شناخت مجھے بھلاپے کے عذاب کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے شناخت کا کوئی بحران میرے شعور کو تہ و بالا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی شناخت کی مدد سے میں حب الوطنی کے غیر ارضی معیارات کو مسترد کر کے تاریخ کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے رکھنے میں کامیاب رہتا ہوں۔

میری یہی شناخت مجھے یاد دلائے رکھتی ہے کہ سات دہائیاں پہلے یہاں اور وہاں کے سیاست کاروں نے میرے ہرے بھرے پنجاب کو کند چھری سے ذبح کیا تھا اور بہت سوچ اور سمجھ کر ایک جنون پرور ماحول تخلیق کیا تھا جس کے نتیجے میں سرحد کے آر بھی اور پار بھی دس سے بیس لاکھ انسانوں کو ان کے اپنے ہی دیکھے بھالے بھائی بندوں نے سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور پھر نئے دیس میں یک رنگی کو یقینی بنانے کے لیے یہاں سے اور اس کے رد عمل میں وہاں سے لاکھوں خاندانوں کو اپنی مٹی سے اور اپنے اجداد کی قبروں سے جدا کر کے اجنبی سرزمینوں میں جا بسنے پر مجبور کر دیا گیا۔

میری شناخت مجھے یاد دلائے رکھتی ہے اس کل یگ کی جب ہری بھری زمینوں میں وحشت کاشت کر کے درندگی کی فصل کاٹی گئی اور مجھے یاد دلاتی ہے اس ہولناکی کی جب صدیوں کی بقائے باہمی کی روایت پل کی پل میں دھجیوں میں بٹ گئی۔ جب بھی کیلنڈر کا صفحہ پلٹتا ہے تو اگست کا مہینہ میرے سامنے ان گنت تصویریں بکھیر دیتا ہے جنہیں موت کی سیاہی اور خون کی لالی سے پینٹ کیا گیا تھا۔ میں ان تصویروں سے نظریں چرانا چاہتا ہوں لیکن لاحاصل کہ اب یہ البم میرے اجتماعی شعور کی امانت بن چکی ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہے گی۔

میرا اجتماعی شعور اب گاہے گاہے ماضی کے سائے میرے حال پر دراز کرتا رہے گا اور مجھے، کہ میں اس پار بھی ہوں اور اس پار بھی، اپنے کل کے سجنوں اور آج کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے اسلحے کے انبار اکٹھا کرنے پر مجبور کرتا رہے گا۔

اس دور وحشت میں اپنی اپنی زندگی جیتے سیدھے سادھے لوگوں کو دین اور دھرم کا واسطہ اور ”مال غنیمت“ کا لالچ دے کر جس طرح ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا گیا اس کی اتنے بڑے پیمانے پر کوئی اور مثال ہے تو میری علم میں نہیں۔ جذبات کی تند آندھیوں کی زد میں آئے ہوئے ان لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کی عورتوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا تصور کرتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

ماجرا یہ ہوا کہ اس پار بھی اور اس پار بھی ان گنت عورتوں کو بھیڑیوں کے غول سے بچانے کے لیے خود ان کے باپوں نے اور بھائیوں نے اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں جانے کیسی کیسی ست بھرائیاں اور کیسی کیسی لاڈو رانیاں ہوں گی۔ ایسی کہ ایک اشارے پر جان حاضر۔ یہ سب کسی نہ کسی کی عزت تھیں، کسی نہ کسی کا مان تھیں اور کسی نہ کسی کا خواب تھیں کہ اگر انگلی پر لہو کی ایک بوند بھی پھوٹے تو کلیجے کٹ جائیں لیکن جب اگیا بیتالوں کا سامنا ہوا تو انہی پیاروں نے لرزتے ہاتھوں سے ان کے پیٹ میں خنجر اور بلم کی انیاں اتار دیں۔ اور پھر جانے کتنی ایسی ہوں گی جنہوں نے اپنی آبرو بچانے کے لیے قطار در قطار کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وہ کیسا ماحول ہوگا جب سنت سنگھ نے محمد علی کو اور کمال دین نے رام دین کو اور رام بابو نے معراج دین کو زمین پر لٹا کر ذبح کیا ہوگا۔
وہ کیسا ماحول ہوگا جب لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مروت کو نوچ کر انہیں آہن پوش کر لیا ہوگا۔

وہ کیسا ماحول ہوگا جب کرم الٰہی نے اپنی منہ بولی بہن رام دلائی کو ، دیال سنگھ نے اپنی منہ بولی ماں کنیز فاطمہ کو اور رام پال نے منہ بولی بیٹی نور بانو کو ریپ کر کے ان کی چھاتیاں کاٹ دیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ خون کے پیاسوں نے ان کے پیٹ کاٹ کر رحم مادر میں موجود بچوں کو بھی سنگینوں میں پر ودیا۔

وہ کیسا ماحول ہوگا جب ہمسائیوں نے اپنے ہاتھوں میں مٹی کے تیل کے کنستر اور جلتی مشعلیں تھام لی ہوں گی۔
وہ کیسا ماحول ہوگا جب لوگ اپنی گھروں سے اٹھتے شعلوں کی لو میں بھاگ نکلنے کا راستہ تلاشتے ہوں گے۔
وہ کیسا ماحول ہوگا جب لوگوں نے اپنے جنم جنم کے ہمسائیوں کو محض عقیدے کے اختلاف اور جائیداد پر قبضے کے لالچ میں ان کے وطن سے کاٹ کر بے وطن کر دیا ہوگا۔

وہ کیسا ماحول ہوگا جب اپنے گھروں سے نکالے جانے والے مہاجر اور شرنارتھی کیمپوں کی پناہ میں پتہ کھڑکنے پر بھی دہشت زدہ ہو جاتے ہوں گے۔
وہ کیسا ماحول ہوگا جب لوٹ مار کے بعد محلے کے محلے جلا کر راکھ کر دیے گئے۔
وہ کیسا ماحول ہوگا جب لٹے پٹے قافلوں اور ٹرینوں پر دھاوے بولے گئے اور یقینی بنایا گیا کہ کوئی مائی کا لال بچ کر جانے نہ پائے۔

وہ کیسا ماحول ہوگا جب لٹی پٹی ”سکینہ“ کو والٹن کیمپ میں خوف خدا رکھنے والے رضاکاروں نے اس حال تک پہنچا دیا کہ اس کا نیم جان وجود ”کھول دو“ کے الفاظ کا ایک ہی مطلب سمجھنے پر مجبور ہو گیا اور دوسری طرف لخت لخت بملا کور کو اس کے اپنوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو گا یا کوئی ”لاجونتی“ اپنے دکھ سینے میں چھپائے مرجھا گئی ہوگی۔

اور وہ کیسا ماحول ہوگا کہ جب وحشت اور درندگی اس طرح بال کھول کر ناچی کہ اس خطہ ارض میں ہمیشہ کے لیے انسان کا انسان پر سے اعتبار اٹھ گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ پاؤں میں چبھا کانٹا تو نکل جائے دل میں پیوست تیر کون نکالے، کسی کا جھونپڑا برباد ہو جائے تو پھر سے بن جائے، دل ڈھے جائیں تو انہیں کون اسارے؟
اور پھر محبتوں کے نقش تو وقت کے ساتھ دھندلے پڑ جاتے ہیں نفرتوں کے داغ تو پکے ہوتے ہیں، انہیں کون مٹائے؟
میں اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر جے آئی ٹی بیٹھ جاتی ہے لیکن انسانیت کے خلاف اتنے بھیانک جرم ہوئے ان کے لیے کوئی جے آئی ٹی، کوئی انکوائری کیوں نہیں بیٹھی؟

اور میں اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون اور لاکھوں ہی عصمتوں کا کوئی دین دار نہیں؟ سب کے سب پاک صاف اور دھلے دھلائے ہیں تو ان وحشتناک منظروں میں لال زبانیں لٹکائے، آنکھوں میں شرارے بھرے کیا کوئی اگیا بیتال تھے؟ دونوں ملکوں کی حکومتوں نے کیوں صرف اغوا شدہ عورتوں کا تبادلہ کرنے پر ہی اکتفا کیا؟ ہر بات میں لڑائی، ہر بات میں لعن طعن لیکن اس باب میں مٹی پاؤ کا رویہ کیوں؟ کیا کچھ نہیں ہو گیا لیکن دونوں طرف کسی ایک کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا، کسی کو ایک دن کی جیل نہیں کاٹنا پڑی۔ اور تو اور کسی نے کسی سے معافی تک مانگنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ یہ معلوم کرنے کی زحمت کی گئی کہ کتنے انسان تھے جو دھرم اور عقیدے کے اختلاف پر جینے کے حق سے محروم کر دیے گئے، کتنی عصمتیں تھیں جو عقیدے کی مقدس قربان گاہ میں بھینٹ چڑھا دی گئیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں میرے پاس دنیا جہان کا ڈیٹا موجود ہے لیکن صرف سات دہائیاں پہلے کی جانے والی پنجابیوں کی نسل کشی کے حوالے سے میرے پاس کوئی ایک بھی قابل اعتبار ہندسہ موجود نہیں ہے۔

میں ایک پنجابی ہوں اور زخم زخم ہوں، میرے من میں تھوہر کے کانٹوں کی فصل لہرا رہی ہے، میرے عقب میں ایک دہشتناک ماضی اور میرے آگے کوئی مستقبل نہیں۔

جو خوش وقت لوگ سوختہ لاشوں اور جلے ہوئے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر جشن منانا چاہتے ہیں ضرور منائیں لیکن انسان اور پنجابی ہونے کی حیثیت سے مجھے اتنا سا حق تو پہنچتا ہے کہ میں اپنے قتل پر کچھ دیر کے لیے آزردہ ہو لوں۔
ویسے بائی دا وے، کوئی سوجھوان مجھے یہ تو بتائے۔ خیر، چھوڑو مٹی پاؤ، کون کس سے کیا پوچھے کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا یعنی اللہ اللہ اور خیر سلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).