آزادی مبارک


لاہور کی سڑکوں پر آتش بازی ہو رہی ہے اور چوراہوں میں ملی نغموں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ڈھول اور شہنائیاں بج رہی ہیں اور ہر طرف خوشی کو سماں ہے۔ زندہ دلانِ لاہور آزادی کی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ نوجوان نے بڑے بڑے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں اور انہوں نے خوب آتش بازی کی ہے۔

اسی دوران میری نظر ایک بچے پر پڑی ہے جس کے ہاتھ میں جھنڈے ہیں اور اسے آزادی سے کوئی غرض نہیں ہے اسے تو جھنڈے بیچنے کی فکر ہے۔ دوسری طرف نظر ایک خاتون پر پڑی جس کا آزادی سے تعلق نہیں ہے اسے بس اپنے بچوں کے لئے چار نوالے روٹی کے چاہیے۔ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو لاٹھی کے سہارے چل رہا ہے۔ ان کو تو بس دو دن کی بھوک مٹانے کے لئے چند روپے چاہیے اور انہوں نے اشارے پر کھڑے ایک جوان سے پیسے مانگے مگر نے منہ پھیر لیا اور اس نوجوان نے اگلے چوک سے 1000 روپے میں آتش بازی کا سامان لیا۔ تو کیا یہ سب لوگ آزاد ہیں؟

افسوس کہ ہم نے آزادی کے معنی غلط سمجھ لیے ہیں اور یہ ایک قومی سوچ بن چکی ہے کہ پٹاخے بجائے بغیر آزادی نہیں ہے۔ آزادی اس وقت ہے جب سب کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں۔ جب تک چوک میں ایک پھول اس امید پر پھول بیچ رہا ہے کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا لے گا۔ مگر یہ 10 سال کا پھول صبح سے شام تک پھول بیچتا ہے۔ فوڈ سٹریٹ میں چائے پینے چلا گیا تو وہاں ہر طرف سے آواز تھی ”چھوٹے ادھر آؤ، جلدی لاؤ چھوٹے۔“ چھوٹے کو آزادی سے کوئی تعلقات نہیں ہے اسے تو بس صاحب لوگوں کے آرڈر جلدی لانے ہیں۔

ہم مضافات سے آئے لوگوں کا میاں
مسئلہ رزق کا ہوتا ہے محبت کا نہیں

کیا یہ سب لوگ آزاد ہیں؟ اس سوال کا جواب آپ خود دیں گے۔ کیا زندہ قومیں آتش بازی کر کے آزادی مناتی ہیں اور آزادی منانے کے لئے کیا بہت زیادہ لائٹنگ اور ہر طرف سبز ہلالی پرچم ہر جگہ لگانا لازم ہے؟

1947 میں نہ تو ہر گلی کوچے میں پرچم لگائے گئے نہ لائٹنگ ہوئی اور نہ آتش بازی۔ بلکہ اس وقت اپنے ہم وطنوں کی خدمت کی گئی اور غریب، لٹے ہوئے اور بے سہارا لوگوں کی مدد کی گئی۔ آج بھی 1947 والے جذبے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نظریات کے مطابق عمل کرنا چاہیے تاکہ یکساں آزادی سب کو میسر ہو۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے۔
سب کو آزادی مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).