پاکستان کا 74 واں یومِ آزادی


بلاشبہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور وہ قومیں جو آزادی کی قدر نہیں کرتیں وہ فتنوں اور فساد میں الجھ جاتی ہیں اور عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی دو زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہے جو کئی دہائیوں سے اپنی آزادی اور خودمختاری کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی طرح افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور سیریا کی مثالیں بھی سامنے ہیں جہاں دشمنان اسلام نے فتنوں اور فسادات کے ذریعے ان ممالک پر جنگ مسلط کردی اور ان اقوام سے ان کی آزادی چھین لی، آج ان ممالک کی قومیں فتنوں اور فسادات کا شکار ہیں۔

آزادی کیا ہے؟ آزادی ایک خوبصورت گلشن ہے جہاں قدرتی آب و ہوا میں زندگی پرسکون ماحول میں مہکتی ہے۔ آزادی کے معنی ہیں کہ آپ اپنی تربیت، تہذیب، روایات، ثقافت اور دین کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ آپ کو سوچنے، بولنے اور حق رائے کی مکمل آزادی ہو اور آپ کی جان و مال کی مکمل حفاظت ہو۔ بلاشبہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کو حاصل کرنا جتنا مشکل ہے اس سے کئی زیادہ اس کا تحفظ کرنا۔

وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کو آزاد ہوئے 74 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ ان 74 سالوں میں پاکستان نے کہیں نشیب و فراز دیکھے، چاہے میدان جنگ ہو یا دہشتگردی، سیاسی خلا ہو یا جمہوریت پر شب خون، معاشی بحران ہو یا معاشرتی مسائل، پاکستان ہر محاذ پر سرخرو رہا بلاشبہ اس مملکت خداداد پر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص رحم و کرم اور نصرت برقرار رکھی ہوئی ہے کہ مصائب اور مسائل کے باوجود اللہ تعالیٰ اس ملک کو اپنی رحمت سے قائم رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر ہے، دستور کی روح سے جس کا حاکم اللہ تعالیٰ ہے اور جس کا نظریہ اسلام ہے۔ اس ریاست کو یہ مقام حاصل ہے کہ یہ ریاست اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی اور اس ریاست کے معنی لا الہ الا اللہ منسوب کیے گئے۔

قیام پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے پر امن طور پر میز پر ہوا لیکن تقسیم ہند کے وقت برصغیر کے مسلمانوں کو ہجرت کرتے وقت دس لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تاکہ ایک آزاد مملکت میں آزاد زندگی کا آغاز کرسکیں، ان کے خون کا نذرانہ ناقابل فراموش ہے جو بھولے نہیں بھولتا۔

رفتہ رفتہ جب یہ جذبہ مسلم کا ایمان بنا
لاکھوں جانیں دے کر اپنا پھر یہ پاکستان بنا

کئی سیاست دان، دانشور اور تجزیہ کار یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ اس سوال کا جواب تاریخ کے ان حوالوں سے ملتا ہے۔ قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ ”آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے، اور کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے، اس مملکت پاکستان میں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں، آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے“۔

قائداعظم نے 14 اگست 1947 کو مجلس دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ہماری مسلسل کوشش ہوگی کہ ہم پاکستان میں آباد تمام گروہوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں اور مجھے توقع ہے کہ ہر شخص خدمت خلق کے تصور سے سرشار ہوگا، وہ جذبہ تعاون سے لیس اور ان سیاسی اور شہری اوصاف سے سرفراز ہوں گے جو کسی قوم کو عظیم بنانے اور اس کی عظمت کو چار چاند لگانے میں ممدوح معاون ہوتے ہیں“۔

جب بی بی سی کے نمائندے نے ایک انٹرویو میں قائداعظم سے پوچھا کہ آپ کا کس مکتب فکر سے تعلق ہے تو قائداعظم نے فرمایا کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے“ ۔ اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح اپنی کئی تقاریر میں فرماتے رہے کہ ”قرآن مجید مسلمانوں کا دستور ہوگا“ ، اس کے علاوہ بھی کئی تقاریر ہیں جس میں انہوں نے فرمایا کہ ”پاکستان ایک ماڈرن اسلامی ریاست ہوگی“۔

قائداعظم کی ان تقاریر سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جو مدینہ کی ریاست سے مماثلت رکھتی ہوگی، جس کا آئین و قانون اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کی روشنی میں ہوگا، جہاں مساوی حقوق اور عدل و انصاف ہوگا، جہاں رنگ و نسل اور مذہب و مسلک قانون کی نظر میں یکساں ہوں گے اور اقلیتوں کو مدینے کی ریاستوں کی طرح مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا، جہاں امیر اور غریب میں تفریق نہ ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے اقوال اور خطابات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ سیکولرازم کے مخالف تھے اور ریاست مدینہ سے متاثر تھے۔

آج کا پاکستان قائد اعظم کے پاکستان سے بہت مختلف ہے، 74 سالہ سفر میں اب تک ملک میں جان و مال غیر محفوظ ہیں، آئین و قانون تو ہے لیکن کتابوں تک، قانون کا جبر صرف غریبوں پر، حکمران جمہوریت پسند لیکن آمرانہ سوچ کے حامل، عدلیہ ہے لیکن عدل نہیں، امیر اور غریب کے لئے بظاہر یکساں مگر حقیقتاً علیحدہ قوانین، جمہوریت ہے لیکن اس کو چلانے والے کوئی اور ہیں، رنگ و نسل کا تعصب، مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت ہیں۔ ان تمام تر خامیوں کے باوجود قوم کی اس وطن سے محبت و عقیدت پہلے کم ہوئی نہ کبھی آئندہ کم ہوگی، کیونکہ وطن چاہے جیسا بھی ہو اپنا وطن پھر اپنا ہوتا ہے، نظام میں خامیاں ضرور ہیں لیکن گھر تو آخر اپنا ہے اور یہی جذبہ اور جستجو قوم کو یکجا کیے ہوئے ہے۔

ہماری قوم کے نوجوان قائداعظم کے اقوال اور ان کے نظریات سے محروم ہیں، نوجوانوں کو نظریہ پاکستان کا مفہوم ٹھیک سے معلوم نہیں اور نہ ہی آبا و اجداد کی پاکستان کے لئے جدوجہد اور قربانیوں سے واقف ہیں۔ نام نہاد سیاست دانوں، ادیبوں و مصنفین، موٹیویشنل اسپیکرز اور تجزیہ کاروں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں سیکولرازم کا جراثیم پیدا کر دیا ہے اور غلط درس دیا جا رہا ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر اسٹیٹ چاہتے تھے۔

ہماری آج کی نوجوان نسل آزادی کی اہمیت اور افادیت سے سہی طرح آراستہ نہیں، نوجوانوں کے لئے آزادی کا دن صرف چھٹی اور تقریب و سیر سپاٹے کے لئے ہے۔ آزادی کے دن جہاں قوم کے نوجوانوں کو اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر شکرانے کے نفل ادا کرنے چاہئیں وہیں اب انہیں ہوائی فائرنگ کرنے، باجے بجانے، ون ویلنگ کرنے، ہلڑ بازی کرنے اور ناچنے گانے میں مشغول کر دیا گیا ہے۔

قوم کے مستقبل کی ضمانت نوجوان ہیں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں اس مملکت کی امانت ہے، ان کو آزادی کا مفہوم اور اس کے حقیقی استعمال کو سمجھنا ہو۔ پاکستان کا نظریہ اور اس کی بقاء کا ذمہ قوم کے نوجوانوں اور آئندہ نسلوں پر ہے۔ ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ ہم اپنے بہترین مستقبل کے لئے اپنے حال کو درست کریں اور اصلاحات کریں تاکہ مستقبل میں پاکستان حقیقی معنوں میں ایک ماڈرن اسلامی فلاحی ریاست بن سکے اور وطن عزیز قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان بن سکیں۔

چمک رہا ہے جہاں میں وہ میرے فن کی طرح ہے
نہ کوئی بھی وطن میرے وطن کی طرح ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).