دعا کی ضرورت ہے


واصف علی واصف صاحب سے اپنی پہلی ملاقات اور ان کے دو ارشادات کے حوالے سے ایک ”خون کے رشتے خونی ہوتے ہیں“ میری گزشتہ تحریر کا عنوان تھا۔ آج انہیں کے فرمائے ہوئے دوسرے جملے کو موضوع تحریر بنا رہا ہوں۔

واصف صاحب مملکت خداداد پاکستان کی حالت زار پر فرمایا تھا ”دعا کریں دعا کی ضرورت ہے“

پاکستان کی تہتر سالہ عمر میں ایک بھی لمحہ ایسا نہیں ملتا کہ ہمارے ملک یا اس کے باسیوں نے آزادی کے وہ ثمرات حاصل کئیے ہوں جن کے لئے آزادی کے متوالوں نے اپنے خون قربانی دی تھی۔ مجھے بھی یہ فخر حاصل ہے کہ پاکستان کی بنیادوں میں کچھ حصہ ہمارے خاندان کے خون کا بھی شامل ہے۔ قائد نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں تعمیر وطن کا عہد اس قوم سے لیا۔ اداروں کے حدود و قیود مقرر کرنے کے لئے جلد از جلد آئین بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے سنہری اصول وضع کیے۔ ملک عوام کا اور حکومت عوام کی خدمتگار ہو نہ کہ حاکم کا زریں اصول متعین کیا۔ سب سے بڑھ کر دینی اور مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی بات ذور دے کر کہی۔

یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی اور ہے کہ اس ملک پر جس اشرفیہ نے قبضہ جمایا اسی کے ہاتھوں پر کہیں نہ کہیں قائد اور ان کے ساتھیوں کا خون بھی ہے جیسے تلاش کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ مملکت پر اشرفیہ جس نے یہ قبضہ جمایا اس میں انگریزوں کے نوازے ہوئے جاگیردار، انتظامیہ اور نوکر شاہی کے نمائندے، اور فوج کے افسران کی ملی بھگت اور قبائلی عمائدین کی شمولیت اور پھر ساتھ ہی اس میں سرمایہ داروں کا حصہ بھی پڑ گیا۔ یہ تاریخ پاکستان کا نہایت ہی افسوسناک پہلو ہے کہ جب بھارت میں آئین بن رہا تھا تو اس وقت پاکستان میں قطار در قطار وزرائے اعظم اپنی باریاں لے رہے تھے۔ جمہور کی آواز ملک کے عوام کے لئے تو بند تھی مگر سرکاری ریڈیو پر جمہور دا پروگرام روزانہ چل رہا تھا۔ فوج کا تو اپنا ہی مزاج تھا اور آج تک ہے جس کا بنیادی عنصر حکومت کے احکامات کو ڈیفائی کرنا ہے یہ قائد کے حکم پر بھی ہوا اور بھٹو سمیت ہر وزیراعظم کے احکامات پر بھی اور سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بس صرف وہ مانا گیا جو انہیں سوٹ کرتا تھا۔

ملک میں سیاسی عدم استحکام نے ترقی کا پہیہ جام کیے رکھا اور جب بھی کبھی اس پہیے نے سرکنا شروع کیا فوجی جرنیلوں نے عوامی حکومتوں کو چلتا کیا اور اقتدار پر براجمان ہو گئے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب بھی عالمی منظر نامے پر سامراجیت کی اہم چالیں کھیلی گئیں پاکستان میں فوجی آمریت کو پہلے نافذ کیا یا کرایا گیا۔ ایوب خان کا مارشل لاء جس نے بی ڈی ممبر سسٹم پر صدارتی انتخابات کرائے اور خود کی صدارت پر عوامی مہر لگانے کی رسم ڈالی پھر یکایک کشمیر فتح کرنے کی نوید ہوئی سترہ دن بھارت سے جنگ ہوئی شہادتوں کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ ایوب گئے تو اقتدار اپنے فوجی جانشین جنرل یحی خان کو دے گئے انہوں نے انتخابات تو کروا دیے مگر انتقال اقتدار کے مراحل کو ایسا الجھا دیا کہ ہمارے بنگالی بہن بھائیوں میں پہلے سے پڑی حقوق و فرائض کی خلیج اتنی طویل اور گہری ہو گئی کہ ملک ہی دولخت ہوگیا۔

ضیاء الحق نے ملک و قوم کو افغان جنگ میں دھکیلنے کے لئے اسلامائزشن کا نعرہ لگایا۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے کو اپنی صدارت سے منسلک کیا اور اسلامی ریفرینڈم کرایا ”اگر آپ کو اسلام عزیز ہے تو صدر ضیاءالحق ہوگا“ وہ جنگ جو اسلام کے نام پر مجاہدین پیدا کرکے لڑی اسے مشرف نے روشن خیالی کے نام پر معاشرے کو واپس ماڈرن بنانے میں تبدیل کر دیا نتیجہ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ ہم ناں تو ماڈرن بن پائے الٹا جو مجاہدین ہم نے پیدا کیے تھے انہوں نے ہم ہی کافر قرار دے کر ہمیں خودکش بمباروں کے جھرمٹ میں پھینک دیا۔ اور ہم خود کو اس نئے فتنے سے بچاتے بچاتے ستر ہزار سے زیادہ معصوم انسانی جانوں کو قربان کر بیٹھے ہیں وہ معاشرتی بگاڑ جو ضیا کی اسلامائزیشن سے ستر کی دہائی میں شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں!

آج حالت یہ ہے کہ ہم مشرف کے بعد تیسری جمہوری حکومت دیکھ رہے ہیں مگر ان تینوں انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں نے بھرپور عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انتخابی نتائج کو تبدیل کر دیا جاتا ہے جیسے پولیٹیکل انجنئیرنگ کا نام دیا جاتا ہے۔

دنیا کی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ امریکہ چین اور یورپ معیشتیں بدحالی کے دھانوں پر ہیں پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح جکڑا جا چکا ہے۔ ماضی کے ترقیاتی منصوبے سفید ہاتھی بن کر ہمارے مستقبل کو تاریکی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔ موجودہ حکومت معاشی اور معاشرتی میدان میں نعروں اور طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی ایسا نہیں کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتی مگر ہمارے معاشی ڈھانچے میں اتنا مارجن ہی نہیں کہ عوام کو کچھ دیا جا سکے۔ سرحدوں کی صورت حال دگر گوں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری فوج دہشت گردی سے جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ اورسٹرچڈ ہے کسی باقاعدہ جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی تو دور عدم برداشت کا پیمانہ تک لبریز ہوچکا ہے۔ غربت افلاس اور بے روزگاری نوجوانوں میں عدم تحفظ کی فضا کو جنم دے چکی ہے جو روز بروز ان سے جینے کی امنگ کو دور کیے جارہی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بین الاقوامی معیشتیں برباد ہونے کو آئیں تو سامراجی قوتوں نے دنیا کو بھیانک جنگوں میں دھکیل دیا۔ کمزور اور غریب ممالک پر یہ جنگیں مسلط کیں تاکہ بڑی طاقتیں اپنی مفلوج معیشتوں کو سہارا دیے سکیں۔ آنے والے حالات بھی کچھ ایسا ہی نقشہ بنا رہے ہیں۔ بڑی طاقتوں نے اس سلسلے میں کسی حد تک صف بندی بھی کر لی ہے دنیا بلاشبہ آج تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر کھڑی نظر آ رہی ہے اور یہ خطرہ اس وقت اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے جب دنیا بائی پولر پاور سے یونی پولر پاور بننے کے بعد آج ٹرائی پولر پاور گیم میں داخل ہو چکی ہے۔ ہم اس ٹرائی پولر پاور میں کہاں فٹ ہوں گے معلوم نہیں کیونکہ ہماری نہ تو اس سلسلے میں کوئی تیاری ہے نہ ہی ہم نے خارجہ میدان میں طاقت کے توازن اور اس کے بگاڑ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں ابھی تک کسی سمت کا تعین کیا ہے۔ ہماری معیشت بدحال ہے لہذا ہم آزادانہ طور پر اپنی مرضی کا مرکز چننے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ دوسرا چونکہ ہماری معیشت اس وقت کسی بھی جنگ کے لئے ہماری دفاعی ضروریات کو پورا کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لہذا اب ہماری حالت اس پکے ہوئے پھل کی ہے جو اپنے ہی بوجھ سے پک کر گر جانے کو ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ اسے کس جھولی میں گرنا ہے۔

بس جب مملکتوں کے حالات اس نہج پہ پہنچ جائیں تو ایسے میں صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ واصف علی واصف کے کہے ہوئے وہ الفاظ آج میرے کانوں میں سیسہ پگھلا رہے ہیں کہ ”دعا کریں، دعا کی ضرورت ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).