حیوان ناطق یا حیوان اصلی


پاکستان ایک نظریاتی مملکت جو نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ ہندوستان کی تقسیم اس وجہ سے ہوئی کہ اس میں بسنے والے مسلمان اپنی زندگی اپنی مرضی اور آزادی سے نہیں گزار سکتے تھے۔ تاریخ اور تحریک پاکستان میں ہمیں اس سلسلہ میں بہت کچھ مل جاتا ہے کہ مسلمان نے اپنی ایک ہزار سالہ حکمرانی کو خیر باد کیوں کہہ دیا اور ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند ہو گئے۔ وہ تو جو ہوا سو ہوا مگر جو اب ہو رہا ہے اس کے بعد نہ جانے ہماری اس نظریاتی مملکت کا کیا بنے گا۔

ایک زمانے میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ ال اللہ کے نعرے لگتے تھے اور عوام کو اس نعرے پر پختہ یقین بھی تھا۔ تب عام بات یہ تھی کہ اگر کسی سے سوال کیا جاتا کہ تم کون ہو تو وہ جواب دیتا کہ میں مسلمان ہوں الحمدللہ۔ کچھ وقت گزرا سیاست دانوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیکولر طبقہ نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ہم کہنے لگ گئے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ پاکستان ہمارا وطن ہے۔ اس کے بعد کچھ یوں ہوا کہ حکمرانوں کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ہم نے اپنے آپ کو صوبائی بنیادوں پر تقسیم کر لیا۔

سندھ اور بلوچستان پنجابی اور پنجاب کارڈ کھیلنے لگے۔ کراچی والے مہاجر پنجاب کے ساتھ ساتھ سندھیوں کو مورد الزام ٹھہرانے لگے اور یوں ہماری فیڈریشن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا۔ وفاق تمام صوبوں کو فنڈ جاری کرتا ہے آبادی کے تناسب سے بلوچستان اور سندھ کے وڈیرے رئیس اور سردار اور کراچی کے موالی قسم کے لیڈر وہ ہڑپ کر جاتے اور الزام وفاق کی بجائے پنجاب پر آ جاتا کہ پنجاب سب کچھ کھا گیا۔ حالانکہ پنجاب نے ہمیشہ دوسرے بھایؤں کی مدد کی ہے اور ہمیشہ اس ملک کو ہر طرح کے بحرانوں سے نکالا ہے۔ بے شک یہ اپنے حقوق کے لئے آج تک باہر نہیں نکلا۔

سندھی بلوچی پنجابی اور پٹھان کی تقسیم میں اب نرمی کی بجائے شدت آ چکی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں پنجابی کا رہنا کافی مشکل ہے اسی طرح ایک وقت میں کراچی میں پنجابی کا قیام اور طعام بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اس طرح کوئی سوال کرتا تو ہم مسلمان یا پاکستانی ہونے کا بتانے کی بجائے اپنے صوبے کا نام لیتے اور اس پر فخر بھی کرتے۔ پاکستانیت کو پاکستانیوں کے اندر سے نکال کر ان میں صوبایئت کا کینسر بھر دیا گیا۔ جو اب کہیں کہیں سے رسنا بھی شروع ہو گیا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے بات اس سے بھی بہت آگے نکل گئی ہے۔ اب پاکستان میں انسان نہیں رہتے۔ یہ معاشرتی جانور یا حیوان ناطق کا مسکن نہیں رہا بلکہ حیوان اصلی یہاں براجمان ہو چکے ہیں۔ اب سیاسی پارٹیوں نے اس ملک کے اندر بسنے والوں کو اور بھی تقسیم کر دیا ہے اور انہیں انسان ہی نہیں رہنے دیا۔ اگر آپ مسلم لیگ نون کے پیروکار ہیں تو بھی آپ انسانوں کی صف سے نکل چکے ہیں آپ پٹواری بن چکے ہیں اور پٹواری کہنے والوں کی نظر میں پٹواری عقل سے عاری صرف کھانے والے جانور کا نام ہے۔

دوسری طرف اگر آپ تحریک انصاف کے حامی ہیں تو آپ یوتھیا ہیں جس میں عزت نام کی کوئی چیز نہیں جو اندھا اعتماد کرنے والا جانور ہے۔ پی پی پی والے جیالے ہیں انسان وہ بھی نہیں ہیں۔ اگر بات صرف اسی حد تک محدود رہتی تو قابل برداشت تھی اور اس میں زیادہ مضائقہ بھی نہ تھا کہ مخالفت میں ایک دوسرے کو کچھ ایسا کہہ دینا کہ وہ چڑ جائے چلتا ہے مگر ہم نے تو کمال کر دیا۔ سرے سے مخالف پارٹی کے پیروکاروں کو انسان ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹ کر انہیں پاکستانی ہونے کا دعویدار بھی نہیں رہنے دیا۔

تمام لیڈران سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اس سلطنت خدا داد سے محبت کا اظہار کریں اور اپنے سیاسی مخالفین کو صرف سیاسی مخالفین ہی رہنے دیں انہیں غدار ایجنٹ اور جانور گدھے کتے کھوتے ہرگز نہ کہیں اور نہ ہی لعنت اور بے غیرت جیسی اصطلاحوں کو عام کریں۔ آج جو بھی اس بات کو نظر انداز کرے گا یاد رکھے کل وہ بھی کھوتا، گدھا، بے غیرت اور پتہ نہیں کس کس نام سے پکارا اور لکھا جائے گا۔ اس لئے وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لئے جائیں اور انسانوں کو انسان ہی رہنے دیا جائے۔

پاکستانیوں کو پاکستانی بنایا جائے نہ کہ غداری کے سرٹیفیکیٹ جاری کر کے انہیں اپنے اندر سے نکال دیا جائے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگر کوئی غداری کا سرٹیفیکیٹ دے رہا ہے تو اسے روکیں اپنے اپنے ورکروں کو یہ شعور دلائیں کہ مخالف بھی پاکستانی ہی ہیں سیاسی نظریات اپنی جگہ ہم نے تو پورے اس پاکستانی ہجوم کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کے رکھ دیا ہے۔ اپنے اپنے نام نہاد سوشل میڈیا ورکرز کو سختی سے حکم دیں کہ وہ کوئی ایسی بات نہ لکھیں نہ کریں جس سے کسی دوسرے کی حب الوطنی کو اور صوبائی شناخت کو نشانہ بنایا گیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).