شاہ صاحب کی قربانی


جیسے کہ میں نے گزشتہ کالموں میں لکھا تھا کہ موجودہ حکومت بہت جلد اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کاعشرہ منانا شروع کردے گی چنانچہ 2 سال تاخیر سے مکمل ہونے والے پشاور بی آر ٹی پروجیکٹ کے افتتاح سے عشرہ کا آغاز کر دیا گیا ہے حکومت کرونا کے کیسوں میں کمی کو بھی اپنا کارنامہ شمار کر رہی ہے ایک خوش خبری گیس کمپنیوں سے سیس (CESS) کی رقم کی واپسی کا عدالتی فیصلہ بھی ہے جبکہ بجلی کمپنیوں سے بھی چار کھرب روپے سے زائد وصول ہو رہے ہیں اس کے علاوہ سندھ حکومت کے حوالے سے بھی حکومت کو آئندہ کچھ عرصہ میں حسب منشا نتائج ملنے والے ہیں۔ سندھ حکومت لاکھ واویلا کرے، کون سنے گا۔ پیپلزپارٹی زیادہ سے زیادہ سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے سکتی ہے یا کشتیاں جلا کر مولانا فضل الرحمن کی منت سماجت کرے گی کہ وہ حکومت کے خلاف ایک عوامی تحریک کا راستہ ہموار کریں۔

اگر ن لیگ کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا تو اسے بھی کشتیاں جلانی پڑیں گی۔ ممکن ہے کہ اس صورت میں حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلے ورنہ دونوں جماعتوں کو تین سال تک عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ آئندہ انتخابات میں کوئی کامیابی ملے۔ جب کوئی جماعت پٹڑی سے اتر جائے اس کا دوبارہ منزل پر پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب سے تعلقات میں جوغبار آیا تھا اس میں بھی کسی حد تک بہتری کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ آرمی چیف کے دورے کے نتیجے میں تعلقات دوبارہ نارمل ہوجائیں گے البتہ ان میں دوبارہ گرمجوشی پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔

سفارتی مبصرین کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو عہدے کی قربانی دینا پڑے گی۔ اگرحاکم بالا زیادہ مہربان ہوئے تو انہیں ایک اور وزارت دی جائے گی ورنہ حکومت اور تحریک انصاف سے شاہ جی کی چھٹی وہ چونکہ جذباتی انسان ہیں، اس لئے دلبرداشتہ ہوکر کوئی اور جائے پناہ تلاش کریں گے۔ گیلانی کی وجہ سے پیپلزپارٹی میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ن لیگ نے معافی دے دی تو انہیں وہیں پر پناہ مل سکتی ہے۔ ادھر عثمان بزدار کو تذلیل کے بعد مجبور کیا جائے گا کہ وہ عہدہ چھوڑدیں اگر نیب نے واقعتاً ان کے خلاف سنجیدہ کارروائی شروع کردی تو ان کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے پر براجمان رہیں کیونکہ انہوں نے ہوٹل کو شراب کا لائسنس جاری کرنے کے علاوہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی جائیدادوں میں اضافہ کیا ہے۔ اگر وہ ان جائیداوں کی خرید کا جواز فراہم نہ کرسکے تو ان کا جانا ناگزیر ہو جائے گا۔ عمران خان نے تو متبادل کی تلاش شروع کردی ہے۔ اتنے بڑے پنجاب اور 365 ممبران صوبائی اسمبلی کے باوجود کوئی ایسا ڈھنگ کا شخص موجود نہیں جو پنجاب کا وزیراعلیٰ بننے کا اہل ہو۔

عمران خان کے پسندیدہ امیدوار علیم خان پارک ویو اسکیم کی وجہ سے نیب کے ریڈار پر ہیں۔ موزوں ترین امیدوار چوہدری پرویز الٰہی ہیں لیکن عمران خان انہیں وزیراعلیٰ بنانے کا رسک نہیں لے سکتے۔ ان کے آنے سے پورا پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں بھی مطلوبہ کامیابی نہیں ملے گی۔ ویسے بیشتر مبصرین کاخیال ہے کہ تحریک انصاف کوئی مستقل یا دائمی جماعت نہیں ہے، اسے وقتی طور پر بعض اہداف کے حصول کے لئے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ اس کے لئے آئندہ کئی انتخابات تک زندہ رہنا مشکل ہے۔ جس طرح ق لیگ مشرف کے بعد زوال کا شکار ہوگئی اسی طرح تحریک انصاف بھی زمین بوس ہوجائے گی۔ کیونکہ ابھی تک اس ملک میں جمہوری نظام مستحکم نہیں ہوا بلکہ پرانے اور آزمودہ تجربے جاری ہیں۔ ہر دفعہ کنگز پارٹی بدل جاتی ہے۔ آئندہ کے حالات کے مطابق شاید ایک نئی کنگز پارٹی کی ضرورت پڑے جیسے کہ 2018ء کے انتخابات کے وقت اچانک باپ پارٹی کھڑی کی گئی اور اسے اتنی اکثریت دلائی گئی کہ وہ ایک کولیشن حکومت تشکیل دے سکے۔

اسی طرح کی ایک جماعت یا وسیع اتحاد سندھ میں بھی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ یہ پیپلزپارٹی کا متبادل ثابت ہو سکے ماضی میں جام صادق اور ارباب رحیم کی صورت میں اس طرح کے تجربات کئے جا چکے ہیں اس وقت بھی ق لیگ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے پر مشتمل حکومت قائم کی گئی تھی جام صادق علی نے تو پیپلزپارٹی کا صفایا کردیا تھا حالانکہ اس زمانے میں بینظیر جیسی قد آور شخصیت پارٹی کی قیادت کررہی تھی لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ بوجوہ زرداری اور بلاول اتنے موثر نہیں ہیں جتنی کہ بینظیر تھیں۔ اس دور میں پارٹی پر کرپشن کے اتنے بڑے الزامات نہیں تھے جو اس وقت ہیں۔

گزشتہ 12سال میں پیپلزپارٹی اپنے آپ کو حکومت چلانے کی اہل ثابت نہیں کرسکی حتیٰ کہ کراچی کے بدترین حالات پر وفاق اورعدلیہ کو مداخلت کرنا پڑی خیر گورننس کے لحاظ سے باقی صوبوں کا بھی برا حال ہے لیکن سندھ اپنی آمدنی پورٹس، وسائل اور سیاسی اہمیت کی وجہ سے خاص ٹارگٹ ہے۔ وفاق کوشش کررہا ہے کہ سندھ ہر قیمت پر اسے ملے یا اتحادیوں کے ہاتھ آئے تاکہ اس کے وسائل وفاقی اداروں پر خرچ کئے جا سکیں اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے۔ سندھ کے لئے جو طویل المدتی منصوبہ تیار کیا گیا ہے اسکے تحت پیپلزپارٹی کی بے دخلی سرفہرست ہے اسکے بعد آئندہ انتخابات میں اسے اکثریت میں آنے نہیں دیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ارباب رحیم جیسے ’’ریلوکٹے‘‘ سندھی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے گا لیکن کوشش ہو گی کہ یہ آخری سندھی وزیراعلیٰ ہو۔ پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ میں جی ڈٰی اے سے متصادم کر دیا جائے گا لیکن آئندہ کے پلان میں جی ڈی اے کا کردارایک لاحقہ یا طفیلی کا ہو گا۔

اگر زرداری 18ویں ترمیم واپس لینے اور این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کاحصہ کم کرنے پر راضی نہ ہوئے تو سندھ میں ایسی حکومت لائی جائے گی جو آنکھیں بند کرکے وفاق کا ہر حکم مانے گی۔ آئین میں مطلوبہ ردوبدل اس وقت کیا جائے گا حب سندھ میں مرضی کی حکومت قائم ہوجائے گی اس درمیان کیا کیا ہوگا حکام بالا اس کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے مثال کے طور پر پیپلزپارٹی مولانا اور اے این پی سے مل کر ایک آئینی مزاحمتی تحریک چلانے کو کوشش کرے گی جس کے نتیجے میں صوبائی خود مختاری کے حامیوں اور وفاقی فورسز میں تصادم ہو گا اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھ جائے گا۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہوجائے گی۔

پیپلزپارٹی کی وجہ سے جو سیاسی خلا پیدا ہوگا اسے مرکز گریز علاقائی قوتیں پر کرنے کی کوشش کریں گی اس کے نتیجے  میں سندھ میں بھی بلوچستان جیسی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ کوئی سندھ حکومت سکون سے نہیں چل سکے گی۔ اس سے صنعتی اور معاشی ترقی کو شدید دھچکہ لگے گا۔ پشتونخوا اور بلوچستان کی بے چینی میں اضافہ ہوجائے گا۔ وفاق کے مکمل غلبہ سے وحدانی طرز حکومت قائم ہو جائے گا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد پڑی تھی۔

اس وقت سندھ کے حالات اس لئے قابو میں نہیں آ رہے کہ دوسرے صوبوں کے ایک کروڑ کے قریب لوگ یہاں مقیم ہیں۔ بیشتر کچی بستیاں ہیں۔ کراچی شہر اس لئے گوٹھ بن گیا ہے کہ کچی آبادیاں کو ٹھیک کرنے کے لئے اس کی صلاحیت کم ہے۔ ان کی وجہ سے کوئی بھی حکومت آجائے، چاہے گورنر راج ہو یا براہ راست وفاق کی حکومت، کراچی کی صورت حال ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے تین صوبوں کے بے روزگار لوگوں کا رخ کراچی کی طرف ہے. یہاں لوگوں کا آنا جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا.

کراچی بمبئی کی طرح آؤٹ آف کنٹرول ہوگیا ہے۔ حالانکہ بمبئی کے بڑے وسائل ہیں لیکن وہاں کی ریاستی حکومت مسائل پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہے حالیہ بارشوں میں بمبئی تین دن تک ڈوبا رہا۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ وفاق کسی بھی صوبے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے ورنہ نقصان بالآخر اسی کا ہوگا۔ اگر معاشی زبوں حالی جاری رہی تو آخر کار لوگ گھروں سے باہر آ جائیں گے اور سڑکوں پر حکومت کا احتساب کریں گے دوسری طرف پیپلزپارٹی ،اے این پی، بی این پی، نیشنل پارٹی اور مولانا مل کر حکومت کا چلنا دوبھر کردیں گے جس کا نقصان بھی وفاقی حکومت کو ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).