14 اگست: جشن ضرور مگر خود احتسابی بھی!


تہتر برس ہو گئے ہیں۔ انگریزی اور برہمنی سامراج کے شکنجے توڑ کر آزادی حاصل کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اسے بیسویں صدی کا سب سے بڑا معرکہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کئی سالوں پر پھیلی ہوئی ایک جنگ تھی۔ اسے انہوں نے بھی نہایت قوت اور بڑے پختہ عزم کے ساتھ لڑا جو ہندوستان کی تقسیم یا ایک نئی مسلم ریاست کے خلاف تھے۔ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان میں ہر مذہب اور مسلک کے لوگ شامل تھے۔ مسلم مجاہدین کی قربانیوں کی بھی بڑی روشن تاریخ ہے جنہوں نے انگریز کے مظالم سہتے، قید و بند کی سختیاں برداشت کیں حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی نچھاور کر دیں۔ لیکن یہ سب پاکستان کے قیام یا ہند کی تقسیم کو اپنی سوچ کے مطابق درست خیال نہیں کرتے تھے۔ اس طرح سے پاکستان کے حامیوں کو برہمنی اور انگریز سامراج کے ساتھ ساتھ ان اپنوں کا بھی سامناتھا، جو مسلمان تھے لیکن اپنی دیانتدارانہ رائے کے مطابق سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ہندوستان سے دستکش ہو کر ایک نئی ریاست نہیں بنانی چاہیے۔

سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے مفکرین نے جب دو قومی نظریہ پیش کیا تو رفتہ رفتہ یہ ایک نئی مسلم ریاست کے مطالبے میں ڈھلتا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی مخلصانہ، مدبرانہ اور بہادرانہ قیادت نے نا ممکن کو ممکن کر دیا۔ وہ مسلم ریاست قائم ہو گئی جسے ایک شاعر کا خواب کہا گیا تھا۔ اس خواب کے لئے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ خون پانی سے بھی ارزاں ہو گیا۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں، جنہوں نے وہ ہولناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ہم لوگوں نے تو بس کہانیاں ہی سنی ہیں۔

آزادی کی ہر سالگرہ پر ہم کچھ اس طرح کی رسوم و روایات کا اہتمام کرتے ہیں جو تقریبات کا مستقل حصہ بن چکی ہیں۔ پرچم کشائیاں، تقریریں، ترانے، نغمے، جھنڈے، جھنڈیاں، توپوں کے گولے، گارڈز کی تبدیلی، چراغاں، آتش بازی۔ آپ چاہیں تو اس میں وہ ہلڑ بازی بھی شامل کر لیں جو منچلے آزادی کا جشن منانے کے نام پر سڑکوں پر کرتے ہیں۔ چلیں یہ سب کچھ بجا۔ بہت سی دوسری قومیں بھی کم و بیش اسی طرح آزادی کے جشن مناتی ہیں لیکن کیا یہ سب کچھ بس ایک دن یا رات کا کھیل ہے کیا قوم کے کچھ ہوش مند طبقوں کو کم از کم سال میں ایک بار، پوری سنجیدگی سے غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم نے پچھلا سال کیسے گزارا؟ کیا ہم واقعی زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک سال آگے آئے ہیں یا ایک سال پیچھے گئے ہیں؟ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ۔ ۔ ۔ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم۔ ۔ ۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

بے شک ہر زمانے میں اور ہر وقت اپنے عمل کا جائزہ لینے والی قوم ہی تقدیر کے ہاتھوں کی تلوار بنتی ہے لیکن ہماری بیماری یہ ہے کہ ہم اپنا احتساب کرنے، اپنی کامرانیوں کے اسباب جاننے، اپنی ناکامیوں کی وجوہات معلوم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ کسی قوم کے لئے اس سے بڑا سانحہ کیا ہو گا کہ اپنی زندگی کے صرف چوبیس سال بعد اس کا وطن دو لخت ہو جائے؟ انسان ہو یا قوم، اس کی کامیاب زندگی کا انحصار چند باتوں پر ہوتا ہے۔

پہلی یہ کہ وہ خود احتسابی سے ہر گز نہ ڈرے بلکہ انتہائی سختی سے اس عادت کو اپنا حصہ بنا لے۔ دوسری یہ کہ وہ کامیابیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے اور ان کے اسباب کا تعین کرئے۔ تیسری بات یہ کہ وہ ماضی کے ان تلخ تجربوں سے نتائج اخذ کرئے، سبق سیکھے اور مستقبل میں اپنی زندگی کو ان نتائج کے مطابق ڈھالے۔ ان میں سے ایک بھی پہلو خارج ہو جائے تو اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ماضی کی غلطیاں دہرائی جاتی رہتی ہیں اور ماضی ہی کے افسوسناک نتائج بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

73 برس بعد اگر ایک سوال نامہ مرتب کریں او ر ہر سوال کا جواب ”ہاں یا ناں“ میں دیں تو کوئی اچھی تصویر ابھر کر سامنے نہیں آئے گی۔ مثلاً کیا ہم آئین کی مکمل پابندی کرتے ہیں؟ کیا یہاں قانون کا ہر فرد پر یکساں نفاذ ہوتا ہے؟ کیا عوام انصاف کے عمل اور عدالتوں سے پوری طرح مطمین ہیں؟ کیا ہماری معیشت بھارت اور چین جیسے ممالک کا مقابلہ کر رہی ہے جن کی آزادی یا نئے نظام کا سفر ہمارے ساتھ ہی شروع ہوا؟ کیا یہاں شہریوں کے بنیادی حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہے؟

کیا ہمارا میڈیا پوری طرح آزاد ہے؟ کیا تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کو خاطر خواہ بجٹ مل رہا ہے؟ کیا جمہوری ادارے مضبوط ہیں؟ پوری طرح آزاد ہیں؟ کیا تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کو خاطر خواہ بجٹ مل رہا ہے؟ کیا جمہوری ادارے مضبوط ہیں؟ کیا اب یہاں ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ جمہوری عمل میں رکاؤ ٹ پڑے گی؟ کیا ٰیہاں کی پولیس اور عوامی خدمت کے دوسرے ادارے مثالی انداز میں کام کر رہے ہیں؟ کیایہاں کے حکمرانوں نے انتقامی سیاست چھوڑ دی ہے؟ کیا یہاں ایک اسلامی ریاست ہونے کے حوالے سے بھوک اور غربت ختم کی جا چکی ہے؟ کیا پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار مل رہا ہے؟ اور کیا لوگ اپنے حالات سے پوری طرح مطمین ہیں؟ کیا ہم کسی بھی حوالے سے ایک اسلامی فلاحی ریاست ہیں؟ کیا دنیا میں ہمارا کوئی مقام ہے؟

ان میں اور بھی کئی سوالات شامل کیے جا سکتے ہیں اور پھر ”اسکور کارڈ“ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ان سوالوں کا تعلق کسی ایک حکومت، کسی مخصوص سیاسی جماعت یا کسی ایک لیڈر سے نہیں، پاکستان کے تہتر سالہ حالات سے ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم خود احتسابی کی عادت ہی نہیں رکھتے۔ نمونے کے طور پر پاکستان کی کسی بڑی اور نامور یونیورسٹی میں چلے جائیے اور ماسٹرز، ایم فل، پی۔ ایچ۔ ڈی کی کلاس سے پوچھئیے کہ جسٹس حمود الرحمن کون تھا؟

حمود الرحمن کمیشن کس نے قائم کیا تھا؟ ممکن ہے اپ کو دس پندرہ فی صد طلبا ء و طالبات بتا دیں لیکن سوال کیجیے کہ اس کمیشن کی سفارشات میں سے کوئی سی دو سفارشات بتائیے؟ مجھے یقین ہے کہ شاید ہی آپ کو اس کا جواب مل سکے۔ یہ نوجوانوں کا قصور نہیں۔ ہم نے انہیں بتایا ہی نہیں کہ ایک مشرقی پاکستان بھی تھا اور اس پر کیا گزری! کسی بھی سطح کی رسمی نصابی کتاب میں ہم نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے المیے کے اسباب کو شامل ہی نہیں کیا۔

اس حادثے کی یاد تازہ رکھنے کو نئے نئے گیت لکھنے یا گانے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی۔ سقوط ڈھاکہ کا دن آتا بھی ہے تو ہم اس دن سبق آموز مباحث کروانے، اپنا محاسبہ کرنے، اور اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے، اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ کسی طرح سے یہ قومی سانحہ دیگر واقعات، اطلاعات اور معمولات کے انبار تلے دب جائے اور قوم کی یاد داشت سے محو ہی رہے۔ ایسے میں نتیجہ کون اخذ کرئے اور اصلاح کیسے ہو؟

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).