خلیجی ممالک کے ساتھ خلیج کیسے پیدا ہوئی؟


آج کل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اے آر وائی نیوز پر کاشف عباسی کو دیے گئے انٹرویو میں سعودی عرب کے مسئلہ کشمیر پر موجودہ کردار پر بیان نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بد مزگی پیدا کردی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ صاحب کے انٹرویو کا وہ حصہ ہی کاٹ دیا گیا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب آرمی چیف سعودیہ عرب کا دورہ کریں گے تا کہ جو تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوئی اسے دور کیا جا سکے گا۔ مگر آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ خلیجی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اس حکومت کے دور میں کیسے ہیں اور یہ خلیج کیوں پیدا ہوئی ہے؟

پہلے سب سے پہلے ہمیں سعودیہ عرب کے ساتھ تعلقات کو دیکھنا چاہیے۔ اس حکومت کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کا سب سے پہلا بیرون ملک دورہ ہی سعودی عرب کا تھا جو 18۔ 19 ستمبر 2018 کو کیا گیا تھا۔ اس دورے سے پہلے آرمی چیف سعودی عرب کا دورہ کر چکے تھے۔ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے تعلقات بہتر کیے۔ پہلے تعلقات وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں یمن میں فوج نا بھیجنے پر خراب ہو چکے تھے حالانکہ اسلامی فوجی اتحاد کے پہلے کمانڈر ان چیف کے لئے سعودی عرب کے درخواست پر جنرل راحیل شریف کو پہلا سربراہ اسلامی فوجی اتحاد کا بنایا گیا۔

وزیر اعظم کے دورہ نے جمی برف کو پگھلایا۔ پھر ہوا جمال خشوگی والا معاملہ۔ ایک عالمی سرمایہ کاری کانفرنس سعودی عرب میں جو ہونی تھی اس سے کئی ممالک اور کمپنیز دستبردار ہو گئی۔ وزیر اعظم نے اس کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ اسی دورے کے بعد سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر ہمارے خزانے میں جمع کروائے جو ہم استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ اور 3 ارب ڈالر ادھار تیل دینے کا بھی معاہدہ ہوا۔ واپسی پر قوم سے وزیر اعظم نے خطاب کیا اور اسے قوم کے لئے بڑی خوشخبری قرار دیا۔ کہا کہ اب ہم سعودی حکومت اور حوثی باغیوں میں ثالثی کروائیں گے۔ پھر 2019 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں کافی معاہدوں پر مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے۔ سعودیہ نے گوادر میں ایک آئل ریفائنری بنانے کا معاہدہ بھی کیا۔ اس کے بعد مئی میں اسلامی سربراہی کانفرنس مکہ میں ہوئی۔ اس میں وزیر اعظم نے سعودیہ کی سلامتی کے لئے اپنے تعاون کے عزم کو دہرایا۔ اس کے بعد ہوا 5 اگست۔

اس کے بعد حالات بدلے۔ سعودیہ نے بھارت کی حمایت کی۔ پھر نیو یارک جانے سے پہلے وزیر اعظم دوبارہ ریاض گئے۔ وہاں ولی عہد نے اپنا جہاز دیا کہ آپ اس میں نیو یارک جائیں۔ اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد اس جہاز پر واپس نہیں آئے وزیر اعظم۔ اس کے بعد دسمبر میں تھی کوالا لامپور کانفرنس۔ سعودی تحفظات ختم کرنے کے لئے وزیر اعظم گئے مگر سعودیہ نے دھمکی دی کہ ہم پاکستانی مزدوروں کو نکال دیں گے۔ یہ سعودیہ میں پاکستان کے سفیر کی جانب سے دھمکی کے بعد پاکستان نے کوالا لامپور کانفرنس سے دستبرداری اختیار کی۔

سعودیہ نے کشمیر پر حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اب جب شاہ صاحب نے بیان دیا تو سعودیہ کو بہت برا لگا۔ انہوں نے ایک ارب ڈالر واپس مانگا جو ہم نے چین سے ایک ارب ڈالر لے کر واپس کر دیا۔ ادھار تیل کا معاہدہ ختم ہو چکا۔ اب 3.2 ارب ڈالر وہ بھی ادا کرنے ہیں۔ سعودی سفیر نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور شاہ صاحب کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

اب بات کریں متحدہ عرب امارات کی۔ وہاں بھی پہلا دورہ 19 ستمبر 2018 کو ہوا۔ اس کے بعد نومبر میں دورہ ہوا جس میں آرمی چیف بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے بھی 3 ارب ڈالر دیے۔ پھر ابو ظبی کے ولی عہد محمد بن زید نے 2019 اور 2020 میں اسلام آباد کا دورہ کیا۔ پہلے دورے میں وزیر اعظم نے خود گاڑی بھی چلائی تھی۔ متحدہ عرب امارات نے بھی کشمیر پر بھارت کی حمایت کی اور پچھلے سال اگست میں بھارتی وزیر اعظم کو اپنا اعلی اعزاز سے نوازا۔ جب متحدہ عرب امارات اور سعودی وزیر خارجہ اسلام آباد آئے دونوں نے کشمیر کو امت کا مسئلہ قرار نا دینے کا کہا۔ اب جو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے تعلقات قائم کیے ہیں تو پاکستان نے محتاط رد عمل دیا ہے ورنہ متحدہ عرب امارات بھی پیسے نا واپس مانگ لے۔

اب بات کریں قطر کی۔ قطر سے ایل این جی ہم درآمد کرتے ہیں۔ اور اسی ایل این جی پر وزیر اعظم عمران خان اسے کرپشن ڈیل قرار دیتے تھے۔ جب وزیر اعظم نے جنوری 2019 میں قطر کا دورہ کیا تو قطر نے دو ارب ڈالر دے دیا مگر ادھار ایل این جی دینے سے معذرت کرلی۔ اس وقت قطر کے ساتھ تعلقات نا اچھے ہیں برے۔

کویت کے ساتھ تعلقات بھی کوئی خاص نہیں ہیں۔ کویت کا جب ایک وفد دورہ کر رہا تھا تو ہمارے ایک افسر نے ایک کویتی کا بریف کیس یا والٹ چوری کر لیا تھا جس پر کویت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

عمان کے ساتھ تعلقات نارمل ہیں۔ سلطان قابوس کے انتقال کے بعد سلطان حیتم سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے اور اس کے بعد سے تعلقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بحرین کے ساتھ بھی تعلقات ویسے ہی ہیں جیسے تھے۔ اس میں بھی کوئی خاص رابطہ ہوا اور نا ہی کوئی پیش رفت۔

یمن کا معاملہ ذرا حساس ہے۔ اس وقت حوثی باغیوں اور سعودی اتحاد کے درمیان پانچ سال سے ایک جنگ چل رہی ہے۔ یمن مکمل تباہ ہو گیا ہے۔ وہاں حالات نہایت ابتر ہیں۔ حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور یمنی حکومت کو سعودی اتحاد کی حمایت۔ اس لئے پاکستان کی پالیسی کسی بھی دھڑے کے حق میں نہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ ہم خلیجی ممالک کے ساتھ جو خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ اسے کیسے دور کریں گے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ سعودیہ کے ساتھ تو تعلقات میں بہتری شاہ محمود قریشی کی برطرفی سے ہی ممکن ہے۔ شاہ صاحب پہلے سلالہ کی دفعہ پر جب کابینہ کی از سر نو تشکیل ہوئی تھی اس میں جب وزارت خارجہ کی بجائے پانی و بجلی کا قلمدان دیا گیا تھا تو تقریب چھوڑ کر چلے گئے اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ کابینہ کے اندر سے شاہ محمود قرشی کے خلاف بغاوت ہو رہی ہے۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ شاہ صاحب جو وزارت عظمی کے لئے ایک امیدوار ہیں انہیں شاید دوبارہ وزارت خارجہ سے ہاتھ دھونا پڑے اور شاید نئی سیاسی پارٹی بھی تلاش کرنا پڑے۔ اس لئے سیانے بولتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے ورنہ ہوا اچانک نا موافق ہو جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).