ڈی این اے کے تقاضوں سے آزادی ممکن نہیں


اب سائنس نے یہ جان لیا ہے کہ انسانوں کے لیے شخصی آزادی نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ انسان کا رویہ ہارمونز اور کیمیکل ری ایکشنز کا نتیجہ ہے۔ یہ اپنی پسند نا پسند اور باقی خصوصیات لے کر ہی پیدا ہوتا ہے۔ اپنی مرضی سے کچھ بن جانا اس کے بس میں ہی نہیں ہے۔ یہ اپنی مرضی نہیں رکھتا، سب کچھ قدرتی ہے۔

مثال کے طور پر کوئی کب اور کہاں پیدا ہوا ہے۔ لڑکا، لڑکی یا ٹرانسجیندر ہے۔ کالا، گورا یا براؤن ہے۔ مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہے یا کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے گھر میں۔ ان میں سے کوئی بھی اختیار ہم میں سے کسی کے پاس نہیں تھا۔ یہ سب قدرتی ہے لیکن پھر بھی ہمارے اردگرد کروڑوں انسان ان ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے ہیں۔

جب انسان پیدا ہو گیا تو اس کے بعد اس کا قد کتنا ہو، اس کے بال کیسے ہوں اور کس عمر میں گنجا ہو جائے یا ساری زندگی بالوں کے ساتھ رہے اس کی آواز کیسی ہو اس کی پسند کیا ہو اس کی ناپسند کیا ہو کسی بھی چیز پر انسان کا کوئی بس نہیں چلتا۔ وہ مکمل بے اختیار ہے۔

باقی ساری باتیں تو کسی حد تک مان لی گئی ہیں کہ ان میں انسان کا اختیار نہیں ہے لیکن اس کی پسند ناپسند کے قدرتی ہونے پر کوئی یقین نہیں کر پا رہا۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس سے فساد ہو گا اور اس سے ورلڈ آرڈر تباہ ہو جائے گا۔ حالانکہ اصل فساد اس سلسلے میں انسان کی بے بسی کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ اسے تسلیم کر لیں تو بہت سارے معاملات خود بخود ہی سیدھے ہو جائیں گے۔ کسی شخص کو عورتوں والا لباس پہننے پر تماشا نہیں بنایا جائے گا۔

پسند اور ناپسند کا جائزہ ایک مثال سے لیتے ہیں۔ اگر آپ کوئی بھی چالیس پچاس انسانوں کا ایک سیمپل لیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کی پسندیدہ ترین ایک سبزی کون سی ہے۔ ان کے جوابات سے جو لسٹ بنے گی اس میں تقریباً ساری ہی سبزیاں آ جائیں۔ پھر آپ انہی لوگوں سے پوچھیں کہ ان کی ناپسندیدہ ترین ایک سبزی کون سی ہے تو پھر تمام سبزیوں کی ایسی ہی ایک لسٹ بن جائے گی۔ کیونکہ وہی سبزی جو کسی ایک انسان کو بہت پسند ہے دوسرے شخص کو سخت ناپسند ہو سکتی ہے۔

ذرا سوچیں کہ بھنڈی جیسی خوبصورت اور لذیذ سبزی کو ناپسند کرنے والے شخص کو آزاد پھرنے کا بھی کوئی حق ہے۔ اسے چودہ سال قید بامشقت ہونی چاہیے۔ معاملہ سمجھنے کا یہ ہے کہ اس قانون سے آپ اسے صبح دوپہر شام بھنڈی کھلا تو سکتے ہیں لیکن بھنڈی کے بارے میں اس کے جذبے کو تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اس کے اپنے سمیت کسی کے بھی بس میں نہیں ہے۔ یہ قدرتی ہے۔

اگلا سوال یہ ہے کہ بھنڈی کیوں پسند ہے یا کیوں پسند نہیں ہے۔ اس بات کا تو جواب ہے کہ آپ کو کیا پسند ہے کیونکہ انسان آپ کو بتا دے گا، لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ بھنڈی کیوں پسند یا ناپسند ہے۔ کیونکہ اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔

انسانوں کے بچے تھوڑے سے بڑے ہوتے ہیں مثال کے طور پر سکول جانا شروع کرتے ہیں یا گلی میں کھیلنا شروع کرتے ہیں تو کچھ لوگ انہیں پسند آتے ہیں کچھ بالکل بھی پسند نہیں آتے۔ یہ سب قدرتی ہے۔ ایک انسان ایک ہی وقت میں کسی کا بیسٹ فرینڈ ہو گا اور کسی دوسرے کو انتہائی برا لگتا ہو گا۔

اس لئے یاری دوستی پیار محبت پسند اور ناپسند آپ کے بس میں نہیں ہیں۔ کون سے دوست آپ کو کیوں پسند ہے آپ کی کیوں دوستی ہو گئی۔ اس ”کیوں“ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ دو لوگوں کی عادات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے کے پیارے اور جگری دوست ہوں۔ یہ قدرتی ہے اس پر کسی کا کوئی زور نہیں چلتا۔

یہی بات علم کی اقسام یا سکول کالج پڑھائے جانے والے میں مضامین کی ہے۔ کسی کو میتھمیٹکس بہت پسند ہے کسی دوسرے کو زہر لگتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی کمال ہے نہ قصور۔ کسی کو شاعری اچھی لگتی ہے۔ کسی کی لکھائی اچھی ہے لیکن گانا گانے کے لیے آواز اچھی نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے کسی کو بھی معلوم نہیں۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کسی بچے کو یہ پسند نہیں کہ وہ کسی بھی مضمون میں کمزور ہو لیکن یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ بچہ اپنے ناپسندیدہ مضمون میں محنت کر کے کچھ کارکردگی تو دکھا سکتا ہے لیکن اس کی پسند اور ناپسند بدلنا اس کے بس میں نہیں ہے۔ اپنی ناپسندیدہ جاب مکمل کر کے انسان پینشن تو پا لے گا لیکن وہ زندگی بہت مشکل سے گزری ہو گی۔ اور اگر اپنی پسند کے شعبے میں ہو گا تو مزے دار گزری ہو گی۔

اب انسانی تاریخ میں پتہ نہیں کب یہ سلسلہ شروع ہو گیا کہ انسان کے کچھ ذاتی دلچسپی کے معاملات کا درجہ کم اور کچھ کا زیادہ کر دیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کو سزا اور انعام سے بھی جوڑ دیا گیا۔ جرائم کی لسٹ میں بھی شامل کر دیا گیا۔ پھر یہ ذاتی معاملات معاشرتی روایات میں شامل ہو گئے۔ انہیں معاشرے کے خلاف جرم سمجھا جانے لگا اور ان سے ہٹنا ناممکن ہو گیا۔ لیکن اس سلسلے میں انسانوں کا رویہ نہیں بدل سکا۔

ابھی کئی جگہوں پر معاشرے میں بڑی مثبت تبدیلی آ رہی ہے۔ کافی جگہوں پر یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ ذاتی نوعیت کی جو چیزیں انسان کے ڈی این اے میں ہیں، وہ انہی کے ساتھ پیدا ہوا ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایسے ذاتی معاملات پر دسروں کی مداخلت مناسب نہیں ہے۔

وقت سے ساتھ ساتھ ہر جگہ پر یہ سب بدل جانا ہے۔ ہماری بھی منزل وہی ہے جہاں انسان اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے گا۔ دوسرے لوگ نہ صرف یہ کہ اس کا برا نہیں منائیں گے بلکہ قدرت کی اس رنگا رنگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور انجوائے کریں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik