صرف باتیں ہیں کہ اعمال میں گوہر سے بھی ہو


یوم آزادی کا دن ہو یا کسی بھی قسم کی ایسی تقریبات جس میں پاکستان کے مقصد وجود اور آزادی کا ذکر ہو تو مقررین اور مہما ان گرامی ایسی رطب السانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے ان سے زیادہ پاکستان کے لئے مخلص اور آزادی کا قدردان پورے ملک میں شاید ہی کوئی ہو لیکن دوران خطابت نہ تو ان کے پاس کوئی ٹھوس تجاویز ہوتی ہیں نہ ان کے دائرہ اختیار کے مطابق کسی بھی قسم کے عملی مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہوتے ہیں۔

14 اگست کے حوالے سے بھی ملک کے طول و عرض میں بیشمار چھوٹی بڑی تقاریب منعقد ہوئیں جس میں پاکستان کے بنانے کے مقاصد اور آزادی کی اہمیت پر بہت سیر حاصل باتیں کی گئیں اور شرکائے مجلس کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا۔ ایسی تقریبات جس میں ملک کی غیر ممتاز شخصیات شریک ہوتی ہیں ان کی باتوں اور زور خطابت کو تو کسی حد تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جس میں ملک کی ذمہ دار شخصیات شریک ہوں اور اہم عہدوں پر فائذ افراد جب الفاظ کے دریا بہا کر شرکا کے جذبوں کو ابھار رہے ہوں اور آزادی جیسی نعمت کے ساتھ ساتھ پاکستان بنانے کے مقاصد پر روشنی ڈال رہے ہوں تو شرکا ان سے مستقبل کے لئے ٹھوس تجاویز سننے کے لئے بے چین ہوتے ہیں اور ان کی ذمہ داری میں جو جو امور آتے ہیں ان میں کچھ عملی پیش رفت کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھنے کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں لیکن جب ان کی جانب سے صرف خوبصورت الفاظ کے علاوہ اور کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا تو یقیناً شرکا اور قوم کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کون جیتا جاگتا انسان ”آزادی“ کی نعمت سے آگاہ نہیں۔ آزادی کی اہمیت سے انسان ہی کیا، کوئی جاندار بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہم اگر کسی معمولی سے کیڑے کو بھی قیدی بنالیں تو وہ اپنے آپ کو آزاد کرانے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے۔ لوگ طوطے میناؤں کو برسوں پنجروں میں قید رکھتے ہیں، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، لیکن جب بھی انھیں فرار کا موقع ملتا ہے وہ اپنے آپ کو آپ سے دور کر لینے میں لمحہ نہیں لگا تے۔

ننکانہ صاحب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ جناب بریگیڈیر (ر) اعجاز احمد شاہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ ”آزادی نہ ملتی تو آج ہمارا حال وہی ہوتا جو بھارت میں مسلمانوں کا ہے، آدھا ملک گنوا دیا، مزید ٹوٹ پھوٹ کے متحمل نہیں ہوسکتے، اپنا آپ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے“ ۔ انھوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ ”یہ ملک ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہو رہا ہے“ ۔ ان کے فرمان کا ایک جملہ بھی ایسا نہیں جو دل کے جذبوں کو نہ چھوتا ہو اور اور پاکستان کے مقصد وجود کی جانب اشارہ نہ کرتا ہو لیکن کیا عملاً پورے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے جس کا اظہار انھوں نے اپنے خطاب میں کیا۔

کیا پاکستان میں ہر شخص کو حقیقی آزادی اصل ہے، کیا ہمارا میڈیا مکمل آزاد ہے، کیا ہماری عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، کیا ہر پاکستانی ملازمتوں کے حصول میں مکمل آزاد ہے، کیا ہر فرد رائے دہی میں آزاد ہے، کیا سیاسی جماعتیں اپنے موقف کے اظہار کے لئے مکمل آزاد ہیں اور کیا پاکستان کی ہر کمیونٹی کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ آزادی ایک نعمت عظمیٰ سہی لیکن آزاد ہوجانے والوں کو ایک قید سے نکال کر کسی دوسری قید میں ڈال کر یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ آزاد ہیں، اس سے بڑی بھول اور کیا ہو سکتی ہے۔

انگریزوں اور اہل کفر سے جس مقصد کے لئے آزادی حاصل کی تھی اگر 72 سالوں میں بھی ہم نے اس جانب ایک انچ بھی پیش رفت نہیں کی تو کیا ہم آزاد ہو گئے یا ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں داخل ہو گئے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ہم ”ریاست مدینہ“ تعمیر کر رہے ہیں۔ کیا یہ درست ہے، کیا ریاست مدینہ میں مسجدیں مسمار کی جاتی ہیں اور مندر و گردوارے تعمیر کیے جاتے ہیں، کیا ریاست مدینہ شراب خانوں کے لائیسنسز جاری کیا کرتی ہے، کیا ریاست مدینہ میں جسم فروش خواتین چوک چوراہوں پر برہنگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، ٹی وی چینلوں پر خواتین بغیر دوپٹے اپنی زینتوں کو نمائش کرتی پھر تی ہیں اور غیر مردوں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا کرتی ہیں۔

ریاست مدینہ کا کوئی ایک تقاضا بتایا جائے جو پاکستان میں پورا کیا جاتا ہو اور کوئی ایک قانون بتایا جائے جو ریاست مدینہ کا نمائندہ ہو۔

برگیڈیئر صاحب! پاکستان میں نہ تو وہ آزادی ہے جس کو آزادی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان جس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا اس کا کہیں عملی نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ آپ وفاقی وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی پابندیوں کو آزادی اور ریاست میں کفر شرک جیسے بد اعمالیوں کے مظاہروں کو محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کی ریاست مدینہ سے تشبیہ دینے سے پہلے کچھ تو لحاظ کریں اور سوچیں کہ آپ کے سب الفاظ حقیقت کے کتنے ترجمان ہیں۔

72 سال گزر جانے کے باوجود بھی اگر ہمارا یہی حال ہے تو صرف ”آدھے“ ملک کے گنوا دینے پر ہی بات ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ملک کے صیح سالم ہونے کے باوجود یہ ایک ایسا جسم بن کر رہ جائے گا جس میں سے روح نکل جاتی ہے۔ جس جسم میں سے روح نکل جائے وہ یا تو زمین برد کر دیا جاتا ہے یا پھر حنوط۔ اس لئے میں آپ سے اتنا ہی عرض ہے کہ

صرف باتیں ہیں کہ اعمال میں گوہر سے بھی ہو
جیسے باہر سے نظر آتے ہو اندر سے بھی ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).