ہم کب آزاد ہوں گے؟


ہم نے سکول کی کتابوں میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک سوداگر نے طوطا پال رکھا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ سوداگر تجارت کے لیے چین جانے لگا تو طوطے کے پنجرے کے پاس آکر پیار سے بولا میاں مٹھو! میں تمہارے لیے چین سے کیا لاؤں؟ میاں مٹھو نے جواب دیا آپ میرے لیے وہاں سے کچھ مت لائیں، بس میرا ایک پیغام چین میں میرے طوطے بھائیوں کو دے دیں کہ میں پنجرے میں قید ہوں اور تم آزاد ہو۔ جب سوداگر اپنے سفر سے واپس آیا تو میاں مٹھو نے پوچھا کہ کیا آپ نے میرا پیغام وہاں کے طوطوں کو دیا تھا؟

تو سوداگر بولا ہاں جب میں نے تمہارا پیغام دیا تو ایک طوطا درخت سے زمین پر گرا جیسے مر گیا ہو۔ یہ سن کر پنجرے میں قید طوطا بھی پنجرے کے فرش پر گرکر بے سدھ ہوگیا۔ سوداگر نے افسوس کیا کہ اس نے وہاں کے طوطے کے مرنے کی خبر سنائی۔ شاید اس طوطے کا اس طوطے سے کوئی جذباتی تعلق تھا۔ سوداگر نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور بے سدھ طوطے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ جونہی طوطا جھاڑیوں میں گرا تو اس نے ایک دم اپنے پر پھڑپھڑائے اور اڑان بھر کر قریبی درخت پر جا بیٹھا۔

طوطا حیران سوداگر کو مخاطب کرکے بولا میرے چینی دوست نے مجھے آزادی حاصل کرنے کی ایک ترکیب بتائی تھی کیونکہ آزادی بڑی نعمت ہے۔ ایک پنجرے کی قید سے محض آزاد ہوجانا چرند پرند کے لیے تو اصل آزادی ہو سکتی ہے لیکن انسانوں کے لیے پنجرے کی قید سے آزادی، آزادی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے جبکہ اصلی منزل تک پہنچنے کے لیے اس راہ سلوک میں او ربھی بہت سی منزلیں آتی ہیں۔ ہم نے 14 اگست 1947 ء کو انگریزوں اور ہندوؤں کے مشترکہ پنجرے کی قید سے آزادی حاصل کرلی لیکن خود تیارکردہ قید خانوں سے کس حد تک آزاد ہوئے، آئیے 14 اگست 2020 ء کے پاکستان کو دیکھتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے گائیڈلائن دی کہ پاکستان میں مذہبی لحاظ سے سب برابر کے شہری ہوں گے۔ ریاست کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے 6 ماہ بعد 12 مارچ 1949 ء کو پاکستان کے آئین کے رہنما اصولوں کے لیے قرارداد مقاصد منظور کی گئی جس کے مطابق ریاست پاکستان کا مذہب اسلام ہوگا۔

کیا ہم آج تک ان دو نظریات کی کنفیوژن میں نہیں ہیں؟ ہم اس کنفیوژن سے کب آزاد ہوں گے؟ قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 ء کی اسی تقریر میں انتباہ کیا تھا کہ ذخیرہ اندوز اور اقربا پرور ملک کے سنگین دشمن ہیں۔ کیا 2020 ء کے پاکستان میں جابجا ذخیرہ اندوز اور اقرباپرور موجود نہیں ہیں؟ ہم ان ذخیرہ اندوزوں اور اقرباپروروں سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان ایک جمہوری تحریک کے نتیجے میں بنا۔ علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے دوسرے رہنما اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان میں نظام حکومت جمہوری ہوگا مگر یہاں چار مارشل لا آچکے ہیں۔

ان غیرجمہوری حکومتوں کے ڈکٹیٹر علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو اپنا لیڈر مانتے تھے۔ کیا یہ ایک کھلی منافقت نہیں تھی؟ ہم اس منافقت سے کب آزاد ہوں گے؟ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خراب صورتحال کو دنیا کے سامنے پاکستان کے مقدمے کے لیے ایک اہم ترین دلیل کے طور پر پیش کیا۔ یعنی پاکستان کی ریاست اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی ضامن ہوگی۔

کیا 2020 ء کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال خراب نہیں ہے؟ ہم انسانی حقوق کی خراب صورتحال سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس پاکستان میں مسلمانوں کے کئی فرقے موجود ہیں جو ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے۔ کیا پاکستان ان مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا جو مذہبی تعصب پر یقین رکھتے ہوں گے؟ ہم اس مذہبی تعصب سے کب آزاد ہوں گے؟ 2020 ء کے پاکستان میں لسانی بنیادوں پر علاقے تقسیم ہوچکے ہیں۔

14 اگست 1947 ء کو سامنے آنے والا پاکستان کیا انہی لسانی جھگڑوں کے لیے معرض وجود میں آیا تھا؟ ہم ان لسانی جھگڑوں سے کب آزاد ہوں گے؟ اگست 1947 ء سے پہلے کے ہندوستان میں مسلمان تعلیمی میدان میں بہت پسماندہ تھے۔ پاکستان بنانے والوں کا خیال تھا کہ مسلمان اپنے ملک میں رہ کر زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں گے۔ 73 برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں تعلیم کا شعبہ حکومت کے لیے کم ترین ترجیح رکھتا ہے۔ یہاں کے شہری اپنی ہمسایہ ریاستوں سے کئی فیصد زیادہ ان پڑھ ہیں۔

کیا پاکستان جہالت کے فروغ کے لیے بنایا گیا تھا؟ ہم اس جہالت سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان کے مسلمان ہندوؤں کے ہاتھوں اپنے معاشی استحصال کا رونا روتے تھے۔ کیا 2020 ء کے پاکستان میں مسلمان ہی مسلمان کا معاشی استحصال نہیں کررہا؟ ہم اس معاشی استحصال سے کب آزاد ہوں گے؟ اگست 1947 ء سے پہلے کے ہندوستان میں ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان، مال، عزت محفوظ نہیں تھی۔ کیا 2020 ء کے پاکستان میں سب شہریوں کی جان، مال، عزت اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں محفوظ ہے؟

ہم جان، مال، عزت کے غیرمحفوظ ہونے کے خوف سے کب آزاد ہوں گے؟ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا۔ 2020 ء کے پاکستان میں کئی قوموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کیا یہ دو قومی نظریے سے اختلاف نہیں ہے؟ ہم اس اختلاف سے کب آزاد ہوں گے؟ ہمارے ہاں ادیب، شاعر، رائٹر، دانشور، صحافی اور اساتذہ جیسی علمی و ادبی شخصیات اپنی نوکریوں اور ملازمت میں توسیع کے لیے اپنے قلم، نظریات اور شرافت وزرا کے قدموں میں رکھنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔

ہمارے ادیب، شاعر، رائٹر، دانشور، صحافی اور اساتذہ کی یہ منافقت پاکستان کو ادب اور علم و دانش کے میدان میں بہت پیچھے لے گئی۔ پاکستان اس ادبی، علمی اور دانشورانہ منافقت سے کب آزاد ہوگا؟ مذکورہ بالا بہت سے قیدخانے ایسے ہیں جن میں ہم نے اپنے آپ کو خود بند کر رکھا ہے۔ ان سے آزادی ہی 14 اگست 1947 ء والے پاکستان کی مکمل آزادی ہوگی۔ لہٰذا ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کب آزاد ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).