ایمانداری کا عہد


آج 15 اگست ہے۔

آزادی کی تمام رونقیں مانند پڑ چکی ہیں۔ سبز و سفید جھنڈیاں جابجا بکھری ہیں۔ فضا جو کل تک قومی ترانوں سے گونج رہی تھی آج خاموش ہے۔ بیجز اتار کر اگلے سال کے لئے سنبھال کر رکھے جا چکے ہیں۔ زندگی اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑی ہے۔

یہی کہانی ہے جو ہر سال ذرا سے ردوبدل کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔

یکم اگست سے 14 اگست تک اہل وطن، وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ (افسوس! یہ دورانیہ بہت مختصر ہے ) گلیاں محلے سبز اور سفید جھنڈیوں سے سجائے جاتے ہیں۔ چہار سو قومی ترانوں کی صدائیں گونجتی ہیں۔ بچے سبز اور سفید لباس زیب تن کرتے ہیں۔ سبز اور سفید رنگ کے کیک کاٹے جا تے ہیں۔ فیس پینٹنگ کے نام پہ نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بچے چہروں پر طرح طرح کے نقش و نگار بنواتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ وطن کے ایک اشارے پہ جان تک قربان کر دیں گے۔
لیکن ذرا ٹھہرئیے!
یہ وطن ہے کیا؟
7، 096، 96 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا زمین کا ایک ٹکڑا؟
نہیں! یہ وطن نہیں ہے۔
اصل وطن ہم پاکستانی ہیں۔
اس زمین کے ٹکڑے پہ بسنے والے لوگ۔
اب ذرا سوچئے۔

کیا ہم اس زمین پہ بسنے والے لوگوں سے محبت کرتے ہیں؟ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں؟ ان کی مشکلات دور کرتے ہیں؟

نہیں!
ہم ایسا نہیں کرتے۔

ہم تو ملاوٹ کرتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، غریبوں کا خون چوستے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، ناجائز منافع کماتے ہیں، سڑکوں پہ گند پھیلاتے ہیں، بجلی چوری کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ایسی کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔ ۔ ۔
پھر کون سی محبت؟
کہاں کی محبت؟
پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا اور ہاتھ جھاڑ دینا۔ ۔ ۔ بس فرض ادا ہو گیا۔ کس قدر مضحکہ خیز ہے۔

ہم ہر ہر بات پہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ حکمرانوں کو کوستے ہیں۔ گالیاں بکتے ہیں۔ لیکن اپنی ذات میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ہمارے اعمال کیا ہیں؟ انفرادی طور پر ہم نے اپنے پاکستان کے لئے کیا کیا ہے؟

اپنے وطن کی ترقی کے لئے، بہتری کے لئے کیا اقدامات کیے ہیں؟

آزادی کا جشن منانا ضروری ہے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں اس کی اہمیت سے آگاہ رہیں۔ لیکن یہ صرف جشن منانے اور مبارکباد دینے کا دن نہیں۔ ہمیں اس سے ایک قدم آگے بڑھنا ہے۔ خود سے عہد کرنا ہے۔

ایمانداری کا عہد۔

اگر ہم صرف اور صرف ایمانداری کی صفت کو اپنا لیں تو ہم ترقی کے راستے پر چل پڑیں گے۔ آپ کوئی فالتو کام نہ کریں لیکن جو کام آپ کر رہے ہیں وہ ایمانداری سے کریں۔ اساتذہ ایمانداری سے اپنے فرائض پورے کریں، ڈاکٹر ایمانداری سے درست معائنہ کریں اور موثر ادویات تجویز کریں۔ حکومتی اراکین اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے نبھائیں۔ تاجر جائز منافع کمائیں۔ ۔ ۔ ہر ہر شخص جب ایمانداری کی صفت اپنا لے گا تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔

پھر کسی بھی شخص کے لئے حیات جرم اور زندگی وبال نہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).