انصاف پسند فلاحی تنظیم


جب کوئی ملک اپنے عوام کے بنیادی ضروریات پورا کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو کچھ رضاکار اور مخیر حضرات اپنے مدد آپ کے جذبے سے لوگوں کے بنیادی ضروریات پورا کرنے کی کوشش کرتے ہے۔ رضاکار بغیر کسی مالی یا جانی فائدے کے بغیر اور خدمت انسانی کے جذبے کو سامنے رکھ کر یہ کام کرتے ہے۔

آج میں آپ کو ضلع بونیر کے ایک رضاکار اور فلاحی ادارہ ”انصاف پسند فلاحی تنظیم“ کے بارے میں اگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ جس کا مقصد انسانیت کا خدمت کرنا ہے۔ اس فلاحی تئظیم کی بنیاد انصاف خان جس کا تعلق ضلع بونیر سے ہے نے 2019 میں رکھی ہے۔ اس تنطیم کا بنیادی مقصد ضرورتمند مریضوں کو خون کی عطیہ مہیہ کرنا ہے۔ انصاف خان بونیر یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کا طالب علم ہے۔ ایک دن اس سے میں نے پوچھا کہ آپ نے کیوں بونیر کے مریضوں کا ٹھیکہ اپنے سر لیا ہے۔

انھوں نے کہا اس کی ایک لمبی کہانی ہے۔ جب میں ڈگر کالج پڑھ رہا تھا اس وقت ایک شخص جس کا بیٹا تھیلسمیہ کا مریض تھا کوخون کی اشد ضرورت تھی۔ وہ ہمارے کلاس کو آیا اور انتہائی تھکا ہارا تھا ہمارے کلاس فیلوز کو کہا کہ خدا کے لئے میرا بیٹا بہت بیمار ہے اس کو خون کا عطیہ چاہیے۔ اسی دن سے مجھے بہت صدمہ ہوا اور میں نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا کہ جس طرح بھی ہو میں اگر سارے صوبے کے لئے نہیں کر سکتا تو اپنے علاقے بونیر کے ضرورت مند مریضوں کو خون کا عطیہ فراہم کروگا۔

اسی دن سے انصاف خان نے یہ رضاکارانہ طور پر یہ خدمت شعروع کی۔ وہ اپنے دوستوں کے وساطت سے جگہ جگہ پر خون ٹیسٹ کرتے ہیں۔ خون ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ اس بندے کا نام، پتہ اور موبائل نمبر اپنے ساتھ لکھ کر ایک فہرست بناتاہے۔ موجودہ وقت میں اس کے پاس ضلع بونیر کے ہزاروں لوگوں کے لسٹ ہے جس سے وہ ضرورت مند لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ انصاف خان کے مطابق روزانہ پانچ سے دس لوگوں کے لئے وہ خون کا عطیہ فراہم کرتا ہے۔ انصاف خان اب اپنی فلاحی تنظیم بھی بنائی ہے جس کے ذریعے وہ خون کے عطیئے کے علاوہ غریب اور نادار لوگوں کی مالی اعانت کرتے ہے۔

انصاف خان نے ضلعی انتظامیہ اور حکومت سے بلڈبینک بنانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ابھی تک حکومت نے اس پر کوئی رد عمل نہیں کیا ہے۔ جوکہ بونیر کے عوام کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ضلع بونیر میں ایک بلڈبینک آج تک نہیں ہے جو کہ باعث تشویش بات ہے۔ موجودہ کرونا وائرس کے وبا کے دوران یہاں پر ایک کثیر تعداد میں لوگ بیمار ہو گئے ہے لیکن ضلع کے واحد ہسپتال میں علاج معالجے کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور اکثر مریضوں کو مردان، پیشاور اور سوات کے ہسپتالوں کو لے جایا جاتا ہے۔

اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ جو کام ریاست کا ہے وہ ایک عام آدمی کیوں کررہا۔ کیا ریاست ٹیکس نہیں لیتا، کیا ریاست کمزور ہے۔ کیا ریاست کا یہاں تک پہنچ نہیں ہے۔ اس طرح کے بہت سے سوالات اٹھ سکتے جس کا جواب دینا پڑھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).