عزت ہمیشہ عورت کی نہیں، کمزور کی لٹتی ہے



افسانے کی حقیقی لڑکی – گزشتہ سے پیوستہ

اگلی صبح وہ آفس کی گاڑی کا انتظار کیے بغیر ہی آفس پہنچ گئی۔ اسے پتا تھا کہ جس وقت وہ آفس جائے گی تب تک بختاور ایک میٹنگ کے لیے جاچکی ہوگی۔

بختاور کسی کام میں مصروف تھی جس کی وجہ سے بسمہ کو آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور اس دوران بسمہ مسلسل یہ سوچ سوچ کے تلملاتی رہی کہ اب بختاور اس کی ”باس“ ہے اسی لیے انتظار کروا رہی ہے۔ ان لوگوں کا پبلک میں رویہ کچھ اور ہوتا ہے اور اصل میں کچھ اور۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ دب کے یا ڈر کے بات نہیں کرے گی۔ باس ہے تو ہوتی رہے۔ جتنا وقت گزرتا جا رہا تھا بسمہ عجیب سے تناؤ کا شکار ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔ وہ شدید اضطراب کا شکار ہو رہی تھی۔ آخر کار بختاور نے اسے آفس میں بلوا لیا۔

”جی بسمہ! کیسی ہیں؟ دارلامان میں کام کیسا جا رہا ہے؟“

بختاور کے نرم لہجے میں بات کرنے پہ بسمہ کچھ لمحوں کے لیے بھول گئی کہ وہ کیا بات کرنے آئی تھی وہ تو آدھے گھنٹے سے خود کو باس والے سخت لہجے کے لیے تیار کر رہی تھی۔ اور اسی حساب سے جواب سوچے ہوئے تھے۔ نرم لہجے کا جواب تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ کچھ گڑبڑا کر وہ ہونٹ کاٹنے لگی پھر کچھ لمحوں کے بعد بولی۔

”میڈم اسلم کی موجودگی میں مجھ سے کام نہیں ہوگا؟“
”تو آپ کیا چاہتی ہیں؟“
بختاور نے بہت پرسکون لہجے میں پوچھا

بسمہ کو یک لخت اندازہ ہوا کہ سوچنا الگ بات ہے مگر وہ یہ کہہ نہیں سکتی تھی کہ آپ اسلم کو نکال دیں۔ بہت ہی احمقانہ بات ہوتی۔

”اگر وہ یہاں موجود ہوگا تو مجھے جاب چھوڑنی پڑے گی۔“
”کیوں؟“
بختاور کے ٹو دی پوائنٹ سوال و جواب اسے مزید گھبراہٹ کا شکار کر رہے تھے۔
” وہ دوبارہ بھی ایسا کچھ کر سکتا ہے“
”آپ کو اس سے ڈر لگ رہا ہے“
”شاید“ بسمہ نے کمزور سی آواز میں کہا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ جسے اب تک نفرت سمجھ رہی تھی وہ خوف تھا۔
”آپ کو لگتا ہے کہ یہاں وہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی ہمت کرے گا۔“

” میڈم سوری مگر یہ اس کی بھابھی کا آفس ہے اس کی پوزیشن بہرحال مجھ سے زیادہ مضبوط ہے اگر اس نے کچھ کیا تو آپ اسی کا ساتھ دیں گی۔ میرا ساتھ کون دے گا؟“

” بیٹا ایک بات تو آپ کلیئر کر لیں یہ میرا آفس نہیں میں بھی یہاں آپ کی طرح ملازم ہوں۔ میرا واسطہ صرف دارلامان کے پراجیکٹ سے ہے۔ جبکہ اسلم، مجید صاحب کے انڈر میں چائلڈ لیبر کے پراجیکٹ میں وولینٹئیر ہے۔“

”میڈم اس بات سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اگر اس نے کچھ کیا تو آپ اسے سپورٹ نہیں کریں گی؟“
”بسمہ آپ کو پتا ہے اسلم نے پہلے ایسا کیوں کیا تھا؟“
”مجھے کیسے پتا ہوگا؟ اور اس بات سے اس کا کیا تعلق“

”آپ کو نہیں پتا مگر پتا ہونا چاہیے۔ اور اسی لیے اس کا اس بات سے تعلق ہے۔ چلیں اس کو اگر اس طرح سے کہہ لیں کہ کوئی بھی لڑکا کسی لڑکی کو ایسے تنگ کیوں کرتا ہے؟“

بسمہ کو اس لمبے سوال جواب سے الجھن ہو رہی تھی اسے ہاں یا ناں میں جواب چاہیے تھا۔
”میڈم پلیز آپ ابھی والا مسئلہ حل کر دیں میں کوئی لیڈر یا فلسفی نہیں ہوں جو ان بحثوں میں پڑوں۔“

”چلیں فرض کریں میں مجید صاحب کو کہہ کر اسلم کو نکلوا دیتی ہوں مگر کیا اس سے آپ ہمیشہ کے لیے ہر مرد سے محفوظ ہوجائیں گی؟ اور آپ خود کو اسلم سے بچانا چاہتی ہیں یا ہر مرد سے؟“

”ظاہر ہے ہر مرد سے“
” تو یہاں پہ کام کرنے والے سب مردوں کو نکلوا دیں؟“

بسمہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بلکہ جو جواب تھا وہ دے نہیں سکتی تھی۔ کیونکہ حقیقت یہ تھی کہ اسے اب ہر مرد سے ڈر لگتا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ اس کے ڈر کی وجہ سے وہ تمام مردوں کو دنیا سے غائب نہیں کر سکتی تھی۔ یہ صرف وہی جانتی تھی۔ کہ گھر سے نکلتے ہوئے اس کا دل کس طرح کانپ رہا ہوتا تھا۔ آفس کی وین کا ڈرائیور، آفس کا چوکیدار، دارالامان کا گارڈ، انسٹیٹیوٹ کے ٹیچرز، کلاس فیلوز جس جس سے اس کا روز واسطہ پڑتا تھا اسے ہر اس مرد سے ڈر لگتا تھا۔

وہ ان سے بات کرنے سے ممکنہ حد تک بچنے کی کوشش کرتی تھی۔ اگر بات کرنی پڑ جائے تو وہ کوشش کرتی کہ اس کے لہجے میں اعتماد ہو مگر اسے اپنی ٹانگوں کی جان نکلتی محسوس ہوتی تھی۔ اور پھر اسلم تو خود ان دونوں مردوں میں سے ایک تھا جن کی وجہ سے اسے مرد ذات سے اتنا ڈر لگنا شروع ہوا تھا۔ ہر بار اسلم کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوجاتی تھی جیسے بس اب خوف سے اس کا دل بند ہو جائے گا۔ بختاور جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ سر جھکائے سوچے جارہی تھی۔ اس کی اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ سر اٹھا کر بختاور کی طرف دیکھ سکے۔ آخر کار بختاور نے ہی بات شروع کی۔

”بسمہ بیٹا آپ اور آپ جیسی کئی لڑکیاں تعریف کے قابل ہیں کیونکہ وہ اپنے خوف کے باوجود گھر سے نکل کر اپنی زندگی معمول کی مطابق جینے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ہیں جب ان کی یہ ہمت جواب دے جاتی ہے۔ ایسے وقت میں آپ کے پاس دو طریقے ہوتے ہیں یا تو ڈر کے پیچھے ہٹ جائیں یا پھر اپنے ڈر کا مقابلہ کریں۔“

”ڈر کا مقابلہ ہی تو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں“

”بیٹا ایسے ڈر کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ ڈر کے پیچھے ہٹتے ہیں۔ آپ کہاں کہاں اسلم یا اسلم جیسے مردوں کی وجہ سے خود کومحدود کریں گی؟“

”تو کیا کروں؟ خود کو اسلم اور باسط جیسے مردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دوں کہ آؤ جو کرنا ہے کرلو؟“

شدت جذبات سے بسمہ کی آواز کانپ گئی۔ وہ بہت کچھ بولنا چاہتی تھی مگر رونا نہیں چاہتی تھی اسی لیے چپ ہوگئی۔

”بسمہ، اچھا فی الحال اپنی اور اسلم کی بات کو سائیڈ پہ رکھیں یہ بتائیں آپ کے خیال میں مجھے مرد تنگ کرتے ہوں گے؟“

بسمہ نے پہلی بار بختاور کو غور سے دیکھا۔ اور اسے اندازہ ہوا کہ بختاور بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہے۔ اس کی شخصیت پہ سب سے حاوی بات اس کی نرمی اور خوداعتمادی ہے جس کی وجہ سے وہ پہلی نظر میں بہت پیاری لگتی ہے۔ بختاور سے بات کرتے ہوئے بالکل ایسا لگتا تھا جیسے وہ نفیس آنٹی سے بات کر رہی ہو۔ مگر بختاور، نفیس آنٹی کے مقابلے میں لباس ذرا مہنگا استعمال کرتی تھی اور بالکل ہلکا میک اپ بھی کیا ہوتا تھاشاید اس کے پیارے لگنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ پہلے اس نے سوچا کہ یہ اتنی پیاری ہیں مرد انہیں تنگ کرتے ہوں گے پھر سوچا شاید انہیں کبھی کسی مرد نے تنگ نہیں کیا ہو اسی لیے انہیں اندازہ ہی نہیں اسی لیے ایسی بات کر رہی ہیں۔

”میڈم میرا نہیں خیال کہ آپ کو مرد تنگ کرتے ہوں گے۔“ اس نے تھوڑا جھجھک کے کہا۔

”بسمہ ٹین ایج کی لڑکیوں کو عموماً کلاس فیلوز، اسکول ٹیچرز، محلے کے انکل یا گلی کے کونوں پہ کھڑے ہوئے لوفر لڑکے تنگ کرتے ہیں۔ جن کی زیادہ سے زیادہ ہمت یہی ہوتی ہے کہ کوئی فقرہ بول دیا، کہیں ٹچ کر دیا، جھوٹا عشق جھاڑ لیا۔ ایسے میں زبردستی کچھ کرنے کے چانسز ہوتے ہیں مگر بہت کم۔ کیونکہ یہ لوگ بہت ڈرپوک ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم جیسی آفس میں کسی اہم سیٹ پہ موجود خواتین کے ہراساں کرنے والے ہم سے بھی زیادہ اہم سیٹس پہ بیٹھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمیں وکیل، سیاسی رہنما، فنڈ دینے والے اور اسی قسم کے مضبوط پوزیشنز رکھنے والے مرد ہراساں کرتے ہیں۔ یہ حضرات بے ضرر جملے نہیں کہتے نہ تھوڑا بہت ٹچ پہ اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ہمارے کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور پھر آفر رکھتے ہیں۔ اگر آج سب عورتوں نے ان سب مردوں سے ڈرنا شروع کر دیا تو کیا ہوگا؟“

”سیاسی لوگ تو بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ میں نے سنا ہے یہ لڑکیاں اٹھوا بھی لیتے ہیں۔ ایسے میں تو اس بندی کو چھوڑنا ہی پڑتا ہوگا اپنا کام“

بسمہ اندر تک کانپ گئی۔

”بسمہ ایسی سچویشن میں ہمارے پاس چھوڑنے کا آپشن ہی نہیں ہوتا۔ یا تو مقابلہ کرنا ہوتا ہے یا ان کی آفر ماننی ہوتی ہے۔ ان سے چھپ کر بندہ کہیں نہیں جاسکتا۔“

”اتنے بڑے لوگوں کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے کوئی عورت؟“
”بسمہ بالکل یہی بات آپ نے ایک عام مرد کے لیے بھی کہی تھی۔“ بختاور ہلکے سے مسکرائی

”اور یہی بات اہم اور سمجھنے والی ہے۔ ہر جگہ ہر اس انسان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے جو کمزور ہو۔ ہمیشہ مرد ہی عورت کو نقصان نہیں پہنچاتے بالکل اسی طرح کسی مرد کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر عورتیں بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔“

”یہ کیسے ممکن ہے میڈم۔ آپ نے ایک دفعہ پہلے بھی ایسا حوالہ دیا تھا اور تب بھی میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔“

” دیکھو ریپ یا عزت لوٹنے میں ہم سمجھتے ہیں کہ سامنے والا اپنی جسمانی طاقت کی بنیاد پہ یہ سب کرتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ تم نے سہیل کو دیکھا ہے؟ ہماری دارلامان والی وین کا ڈرائیور؟“

”جی“

بسمہ کو وہ اپنے آپ میں مگن تقریباً بیس سالہ سہیل فوراً یاد آ گیا۔ بسمہ نے اسے پورے ایک سال میں کبھی چھٹی پہ نہیں دیکھا تھا۔ اتنا مستعدی سے اپنا کام کرنے والا بندہ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر ایک بات جو بسمہ نے نوٹ کی وہ اس کی گھبراہٹ یا جھجک تھی۔ وہ عموماً خاموش رہتا تھا۔ اور اگر کوئی لیڈی ٹیچر اس سے کچھ پوچھ لیتی تو اس کے لہجے میں واضح گھبراہٹ ہوتی تھی وہ جلدی سے الٹا سیدھا جواب دے کر بات ختم کردیتا۔ ٹیچرز اس کے منہ پہ ہی اس کا بہت مذاق اڑاتی تھیں۔

”تمہیں پتا ہے اس سے پہلے یہ کہاں کام کرتا تھا؟“
بسمہ نے نفی میں سر ہلا دیا

”تقریباً 5 سال پہلے چائلڈ لیبر کے ایک پراجیکٹ کے دوران اس سے ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ ایک ہوٹل پہ کام کرتا تھا ہوٹل کی مالک ایک عورت تھی شروع میں اس نے بتایا کہ یہ اس کا بیٹا ہے مگر اردگرد کے لوگوں سے پتا چلا کہ اس نے 4 سال پہلے کسی بچے بیچنے والے گروہ سے اسے خریدا تھا۔ ہم نے دوبارہ پوچھ تاچھ کی تو وہ عورت مان گئی کہ اس کے شوہر کا انتقال جلدی ہوگیا تھا اور اسے اولاد کی خواہش تھی شوہر کا ہوٹل بھی چلانے کے لیے کوئی مددگار چاہیے تھا۔

مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ گھناؤنی تھی۔ وہ عورت اس سے دن بھر مار پیٹ کر کے کام کرواتی تھی اور رات میں اپنی تسکین کے لیے استعمال کرتی تھی۔ یہ سب سہیل نے کافی دن بعد ہمیں بتایا، ہم نے زبردستی اس عورت کو مجبور کیا کہ اسے پڑھایا جائے۔ جب یہ ہم سے مانوس ہوگیا تو ایک دن اس نے خود یہ سب بتایا اور کہا کہ مجھے یہاں سے نکال لیں۔ اس عورت کو فوراً ہم نے پکڑوا دیا۔ تقریباً تین سال مقدمہ چلا اب وہ جیل میں ہے۔ اور تب سے یہ مستقل ہمارے ساتھ ہے۔

پڑھ بھی رہا ہے اور کام بھی کرتا ہے پڑھائی میں کمزور ہے مگر محنت بہت کرتا ہے پڑھنے میں۔ اسی لیے تھوڑی بہت گنجائش نکال کر اسے پاس کر دیا جاتا ہے۔ اب آٹھویں تک آ گیا ہے وہ۔ اس کے علاوہ بھی ہمارا واسطہ کئی ایسی مردوں اور عورتوں سے پڑتا ہے جنہیں انہی کے ہم صنف نقصان پہنچاتے ہیں اور وجہ وہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ان سے کمزور ہوتے ہیں۔ عموماً یہ مجبوری معاشی ہوتی ہے۔“

”یہاں تک تو بات سمجھ آ گئی کہ کوئی بھی مضبوط پوزیشن والا کسی بھی کمزور کو استعمال کر سکتا ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت مگر میرا مسئلہ تو وہیں کا وہیں ہے کہ میں خود کو کیسے بچاؤں؟“

”چلو ایک تجربہ کرتے ہیں“ بختاور ایک دم کھڑی ہوگئی۔ بسمہ کچھ حیران سی ہوگئی۔ بختاور نے آفس کی دو خواتین کے برقعے منگوائے جو کافی حد تک ایک جیسے تھے۔ وہ دونوں باہر آئیں تو گارڈ کے روم میں سہیل بھی بیٹھا اس وقت بھی کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں تھی۔ بختاور کو دیکھ کر وہ مستعدی سے کھڑا ہوگیا۔ بختاور نے پہلے گارڈ کو مخاطب کیا۔

ارشد بھائی کوئی سب سے قریبی ایسا علاقہ بتائیں جہاں بہت چھچھورے قسم کے لڑکے ہر وقت موجود ہوتے ہیں اور ہر آتی جاتی لڑکی کو چھیڑتے ہیں۔ ”

اتنے عجیب سوال پہ ارشد بھائی جواب دینے کی بجائے دانت نکال کے ہنس دیے۔
”ارے بتائیں میں سیرئیس ہوں“

” میڈم دو گلیوں کے بعد ایک اسنوکر کلب ہے وہاں ہر وقت لڑکے جمع رہتے ہیں ہے بھی گلی کا کونا عموماً لڑکیاں وہاں سے گزرتے میں ڈرتی ہیں حالانکہ بیچ والی گلی میں ایک کمپیوٹر سینٹرہے لڑکیوں کو آنا ہوتا ہے تو لمبا چکر کاٹ کے آتی ہیں اس گلی سے نہیں گزرتیں۔“

”سہیل بیٹا آپ نے دیکھی ہے گلی؟“
سہیل نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

”بسمہ آپ یہ برقعہ پہنو اور نقاب لگا لو۔“ بختاور نے ایک برقعہ بسمہ کو پکڑا دیا اور دوسرا خود پہن لیا۔ اب دیکھنے میں دونوں ایک جیسی لگ رہی تھیں نہ دونوں کی عمر کا اندازہ ہورہا تھا نہ شکل و صورت کا۔ دونوں وین میں بیٹھ گئیں۔ سہیل نے وین لاکر اسنوکر کلب سے کچھ پہلے روکی۔ وہاں سے گلی کا موڑ اور وہاں کھڑے لڑکے واضح دکھائی دے رہے تھے۔

”بسمہ آپ یہاں اتریں گی۔ مگر فی الحال گلی کی آڑ میں رہیے گا۔ جب آپ کو سامنے والی گلی سے وین کا اگلا حصہ تھوڑا نظر آنے لگے تو ان لڑکوں کے سامنے سے گزر کر وین میں آکر بیٹھ جایئے گا۔ ہم وین ایسے کھڑی کریں گے کہ لڑکوں کو اندازہ نہ ہو کہ وہاں کوئی وین کھڑی ہے صرف آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔“

بسمہ ہکا بکا وہاں کھڑی رہ گئی اور وین چلی گئی۔

سنسان گلی میں دیوار کی اوٹ سے سامنے اوباش لڑکوں کا ٹولا دیکھ کر بسمہ کو لگا وہ ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔

بسمہ کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا عذاب تھا۔ اسے عجیب عجیب خیال آرہے تھے کہ شاید بختاور اسے چھوڑ کے واپس آفس نہ چلی گئی ہو۔ یہ لڑکے اسے اغواء نہ کر لیں۔ تقریباً 2 منٹ بعد اسے دوسری طرف وین نظر آئی صرف چند سیکنڈ کے لیے ہی کچھ نظر آئی پھر پیچھے ہوگئی۔ اب صرف آگے سایہ پڑتا نظر آ رہا تھا۔ اور جس کا دھیان نہ ہو اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وہاں کوئی وین کھڑی ہے۔ بسمہ نے چند گہرے سانس لے کر ہمت مجتمع کی اور گلی میں آگے قدم بڑھا دیے۔

وہ سب لڑکے کالج جانے والی عمر کے لگ رہے تھے ان سب لڑکوں کی توجہ آپس کی باتوں پہ تھی جو وہ بہت بلند آواز سے کر رہے تھے۔ اس میں بات کم اور فحش گالیاں زیادہ تھیں جو وہ مذاق میں ایک دوسرے کو دے رہے تھے۔ زیادہ تر کے ہاتھ میں سگریٹ بھی تھیں۔ بسمہ ان کی زبان سن کر اور خوفزدہ ہوگئی۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں وہ جتنا جلدی چل سکتی تھی چل رہی تھی مگر اسے لگ رہا تھا جیسے وقت رک گیا ہو۔ اس کے پاؤں من من بھر کے ہوگئے ہوں یا جیسے وہ خواب میں یہ سب دیکھ رہی ہو۔

اس کے جسم کا ہر روواں حساسیت کی حدوں پہ تھا۔ اسے اپنا دل سینے، کنپٹی ہتھیلیوں میں ایک ساتھ دھڑکتا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو خود میں چھپا لے۔ اس نے برقعے کا اسٹالر مزید کس کے اپنے گرد لپیٹ لیا اور دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ وہ چند قدم آگے گئی ہوگی کہ لڑکوں کو بھی احساس ہوگیا کہ کوئی لڑکی آ رہی ہے۔ وہ باتیں کرتے جا رہے تھے اور اسے دیکھتے جا رہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک بولا

”اتنی جلدی میں کہا جارہی ہو۔ دو منٹ ہم سے بھی بات کرلو“
اور پھر ایک کے بعد ایک سب ہی کچھ نا کچھ بولنے لگے ہر ایک بات کے بعد وہ مل کر قہقہہ لگاتے
”چہرہ تو دکھا دو۔ گورے گورے ہاتھ ہیں سب ہی گورا گورا ہوگا۔“
”ٹائم تو دے دو“

”اؤ کالے برقعے والی اپنا نام تو بتا“ ایک لڑکا آگے بڑھ کے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ مگر کچھ قدم چل کے رک گیا۔ بسمہ کی گھبراہٹ اتنی واضح تھی کہ ان سب لڑکوں کو اندازہ ہو رہی تھی وہ مزید اونچے قہقہے لگا رہے تھے۔

بسمہ کی رفتار اتنی تیز ہوگئی کہ اسے لگنے لگا کہ وہ بھاگ رہی ہے۔ چند لمحوں کا فاصلہ اس کے لیے صدیوں جیسا ہوگیا۔ وہ وین تک پہنچی تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔

وہ فوراً دروازہ کھول کے اندر بیٹھ گئی۔ بختاور نے اسے پانی کی چھوٹی بوتل پکڑا دی۔ نقاب ہٹا کے وہ آدھی بوتل ایک ہی سانس میں پی گئی۔ بختاور نے اس کا ہاتھ پکڑ کے تھپتھپایا۔ کچھ دیر بسمہ سیٹ کی بیک سے ٹیک لگا کر گہرے سانس لیتی رہی۔ اس کا دل ابھی تک کانپ رہا تھا۔

تقریباً 5 منٹ بعد جب اس کے حواس کچھ قابو میں آئے تو بختاور نے جو برقعہ خود پہنا ہوا تھا اس کا نقاب لگایا۔ پرس اٹھا کر کندھے پہ ڈالا۔ اپنا موبائل اٹھا کر ہاتھ میں پکڑا اور بسمہ کو مخاطب کیا

”اب غور سے دیکھنا“

بختاور کے کہنے پہ سہیل نے پہلے ہی وین کا مرر ایسے سیٹ کیا ہوا تھا کہ پوری گلی نظر آ رہی تھی۔ بسمہ کو بھی انہوں نے ایسے ہی دیکھا تھا۔

بختاور بالکل عام انداز میں درمیانی رفتار سے مضبوط قدم اٹھا رہی تھی۔ اس کی نظریں اپنے موبائل پہ تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا اسے پتا نہیں ہے کہ گلی میں کوئی اور بھی موجود ہے۔ وہ آگے گئی تو حسب عادت لڑکوں نے اس پہ بھی کوئی فقرہ کسا۔ بختاور نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے موبائل سے نظریں ہٹائیں اور لڑکوں کی طرف دیکھا اور بسمہ کو حیرت کا جھٹکا لگا جب وہ لڑکے ایک دم ہی ادھر ادھر دیکھنے لگے جیسے انہیں پتا ہی نہیں کہ جملہ کس نے بولا۔ بختاور نے ان میں سے ایک کو مخاطب کیا۔

”آپ نے کچھ کہا جناب“
” نہیں باجی“

” نہیں کسی نے کچھ کہا تھا۔ آواز آئی تھی۔ کوئی مسئلہ ہے تو میں حل کروں؟“ بختاور دو قدم اگے بڑھ کر کھڑی ہوگئی اور بازو لپیٹ لیے۔ لڑکے دو قدم پیچھے ہوگئے۔ بختاور ان میں سے ایک کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔

” نہیں میڈم کوئی مسئلہ نہیں آپ جائیں۔“

”ہمم۔ اصل میں یہاں کی کافی شکایتیں آ رہی ہیں شاید دوسرے کوئی لڑکے یہاں سے گزرنے والی لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں۔ تو ڈی سی صاحب نے کہا چیک کر کے آؤ۔ نام پتا معلوم ہو تو پکڑ کے اندر کریں۔ آپ بتائیں کتنی بری بات ہے ناں

برقعے میں تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ان لڑکوں کی ماں بہن بھی۔ ”

” باجی ہمیں نہیں پتا ہم تو ابھی آکے کھڑے ہوئے تھے۔ چل یار میرا تو انسٹیٹیوٹ کا ٹائم ہوگیا میں جا رہا ہوں۔“ یہ وہی تھا جس نے بسمہ کو چہرہ دکھانے کی فرمائش کافی فحش انداز میں کی تھی۔ اور اب اس کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ فوراً وہاں سے چل دیا۔ بختاور انہیں دیکھتی رہی اور ایک ایک دو دو کرکے وہ سب وہاں سے چلے گئے۔ آخری والے لڑکے کو بختاور نے آواز دے کے دوبارہ روکا۔

” بھائی آپ سب سے سمجھدار لگ رہے ہیں خیال رکھیے گا یہاں دوبارہ لڑکے جمع نہ ہوں آگے ہماری وین کھڑی ہے یہ روز چیک کرنے آئی گی۔“

بختاور نے مڑ کے سہیل کو اشارہ کیا۔ سہیل نے وین اسٹارٹ کر کے گلی میں موڑ لی۔ وین میں بسمہ کو دیکھ کر اس لڑکے کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔

” سمجھ تو آپ گئے ہوں گے ۔ پہلے جوکچھ ہوا اس کی وڈیو بھی ہے ہمارے پاس۔ اب ان میں سے کوئی بھی لڑکا دوبارہ یہاں نظر آیا تو نتیجے کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔“

دھیمی آواز میں بختاور کا لہجہ اتنا سخت اور مضبوط تھا کہ بسمہ کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی اور لڑکے کا جو حال تھا وہ اس کے چہرے سے ظاہر تھا۔

بختاور وین میں بیٹھ گئی اور سہیل نے وین آگے بڑھا دی پیچھے لڑکا بھاگتا ہوا اسنوکر کلب میں گھس گیا۔
******۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ *******

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےجرم کی سزا ہوتی ہے تو مجرم بنانے کی کیوں نہیں؟کیا آپ نے شادی کے وقت بیٹی کو اس کے قانونی حقوق بتائے تھے؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima