متحدہ عرب امارا ت اور اسرائیل میں معاہدہ


دنیا ایک اور بحران کی طرف بڑ ہ رہی ہے۔ پرانے اتحاد ٹوٹتے جا رہے ہیں جبکہ نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چین اور ایران کے درمیان اقتصادی اور سیکیورٹی معاہدے نے عالمی سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کیا تھا۔ چین اور ایران کے درمیان اس نئی قربت کی دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ دونوں فریقین کے درمیان اس اہم معاہدے کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا، جس سے ثابت ہوا کہ متحدہ عرب امارات کو اسرائیل کے قریب لانے میں بنیادی کردار واشنگٹن کا ہے۔

ایک موقف یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان اس تاریخی معاہدہ کے پس پردہ سعودی عرب کی مرضی اور کوششیں بھی شامل ہیں۔ عرب دنیا میں اس سے پہلے مصر اور اردن نے بھی اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ ترکی جو کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے کے خلاف ہے ان کے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی سے اب یہ بات الم نشرح ہو گئی ہے کہ پرانے بلاک ٹوٹ رہے ہیں جبکہ نئے بلاک تشکیل پا رہے ہیں۔ نئے اتحادوں میں ایک کا سرخیل چین ہے جبکہ دوسرے کا سرپنج امریکا ہے۔ یورپ اور برطانیہ امریکا کا پشتیبان ہے۔ مسلم دنیا تقسیم ہے۔ بعض امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ چند ایک چین کے ساتھ ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں کہ ابھی تک تذبذب کا شکار ہے، لیکن امریکا کا خیال ہے کہ متذبذب مسلم ممالک کا وزن چین کے پلڑے میں ہے۔

ترکی، ملائیشیا، ایران اور چند ایک اور مسلم ممالک کی کوشش ہے کہ ایک نیا اسلامی بلاک تشکیل دیں، لیکن اس کا امکان معدوم لگتا ہے۔ پاکستان بھی موجودہ صورت حال میں دو راہے نہیں بلکہ سہ راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف پرانا اتحادی امریکا۔ دوسری طرف عشروں کا دوست اور دکھ سکھ کا ساتھی سعودی عرب۔ تیسری طرف چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا معمار چین۔ اگر ایک اور سمت کا اضافہ کر لیں تو چوتھی طرف برادر پڑوسی ملک ایران بھی منتظر ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کی وجہ سے امریکا، پاکستان سے ناراض ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (اؤ آئی سی ) کو دھمکی اور سعودی عرب کے بغیر پرواز نے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اب یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان کس نئے بلاک کا حصہ ہو نگے؟ امریکی بلاک، جس میں ان کے ساتھ سعودی عرب بھی شامل ہے۔ وہ اتحاد جس کی سربراہی چین کرے گا، جس میں ایران اور قطر ان کے ساتھ دو اہم اتحادی ہوں گے یا وہ بلاک کہ جو مسلم دنیا میں نیا تشکیل پانے والا ہے۔

فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن اس وقت جو صورت حال ہے اس سے لگ رہا ہے کہ اسلام آباد نے واشنگٹن کی بجائے بیجنگ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اسلام آباد نے واشنگٹن سے راہیں جدا کر لیں ہیں تو مستقبل میں اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔ صرف نظر اس بات سے کہ وہاں کوں صدر منتخب ہوتا ہے۔ ایک بات جو حقیقت ہے کہ کوئی بھی وہاں صدر منتخب ہو وہ امریکا کی عالمی بالادستی پر کمپرومائیز نہیں کرے گا۔

اس وقت چین، امریکا کی عالمی بالادستی کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔ وائٹ ہاؤس کا نیا مکین جو بھی ہوگا وہ ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ عالمی بالادستی کا تاج ان کے سر سے چھین کر کوئی اور ریاست اپنے نام کر لے۔ پاکستان چونکہ چین کا پڑوسی اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) میں بنیادی فریق ہے، ضرور دو عالمی طاقتوں کے درمیان اس کشمکش میں متاثر ہو گا۔ چین کی عالمی سیاست میں بالادستی کو روکنے کے لئے جو بھی منصوبے بنائے جائیں گے اس کا مرکز کابل اور نئی دہلی ہو نگے۔

یہاں جو منصوبے بھی چین کو روکنے کے لئے بنائے جائیں گے اس میں اسلام آباد کو سبق سکھانے کا بھی خوب اہتمام کیا جائے گا۔ لیکن اس بات کا تعین ابھی باقی ہے کہ واشنگٹن، بیجنگ کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے سرد جنگ کا آغاز کر تی ہے یا گرم جنگ کا۔ امکان یہی ہے کہ چین کو روکنے کے لئے امریکا چند سالوں تک سرد جنگ پر ہی اکتفا کر لے۔ اگر واشنگٹن نے یہ مہلت دے دی تو پھر ممکن ہے کہ اسلام آباد کو سنبھلنے کا موقع ملے۔

اس کے بر عکس اگر امریکا نے چین کے ساتھ سرد جنگ اور ایران کے خلاف عملی جنگ شروع کردی تو پھر افغانستان کی طرح تہران ان کے لئے ایک اور ویت نام بن سکتا ہے۔ اسلام آباد کے پاس ابھی مہلت ہے۔ ان کو چاہیے کہ اپنے پتے سنبھال کر رکھیں، اس لئے کہ یہ دو ریاستوں کے درمیان عالمی بالادستی کی جنگ ہے۔ یہ دونوں ممالک اپنے پتے ہوشیاری سے کھیل رہے ہیں۔ ابھی تک جو حالات نظر آرہے ہیں، اس سے یہ اندازہ بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ چین اور امریکا کی کوشش ہے کہ جنگ ان کی سرحدوں سے دور ہو۔

اگر جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس کا مرکز عرب کے صحرا یا افغانستان کے پہاڑ ہوں گے ۔ تباہی اور بربادی مسلم دنیا کی ہو گی۔ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہے گا۔ لاکھوں مسلمان ہمیشہ کے لئے مفلوج ہو جائیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوجائیں گی، جبکہ امریکا، چین اور یورپ اسی طرح آباد ہوں گے ۔ سعودی عرب کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عرب کی صحراؤں کو جنگ کی شعلوں سے بچانے کی کوشش کریں ورنہ چنگاری کسی بھی وقت ان کو بھی راکھ کر سکتی ہے۔

جو بھی نئے اتحادی بننے جا رہے ہیں اس کے پیچھے امریکا اور چین کے اپنے مفادات ہیں۔ دونوں کی کوشش ہے کہ عالمی سیاست میں ان کی بالادستی ہو لیکن دونوں کی کوشش یہ بھی ہے کہ اس جنگ کا ایندھن ان کی قوم نہ بنیں بلکہ کوئی اور یہ قربانی دیں۔ دونوں نے مسلمانوں کا انتخاب کیا ہے۔ مسلم دنیا کے اہم ممالک سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ تدبر سے کام لیں اور امریکا اور چین کی اس کوشش کو ناکام بنا دیں۔

اگر مسلمان ممالک تقسیم رہے تو چین اور امریکا کی معیشت، ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیار انہی کے خلاف انہی کے سرزمین پر استعمال ہوں گے ۔ سعودی عرب جو پوری مسلم دنیا کی عقیدتوں کا مرکز ہے ان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی سطح پر اس توڑ پھوڑ سے خود بھی الگ رہے اور پوری مسلم دنیا کو بھی اس سے دور رکھیں۔ پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں عالم اسلام کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).