اسرائیل، فلسطین اور کشمیر: تنازعات کے حل کی کلید


مشرق وسطیٰ کے بحران کے بنیادی فریقین اسرائیل (یہودی) اور فلسطینی عوام تھے فلسطینیوں کی اکثریت مسلمان اور عربی بولتی ہے لہٰذا تنازعے کے متحاربین عرب اسرائیل بن گئے۔ 1967ء کی جنگ کے بعد یہ تنازعہ اسرائیل اور مسلم ممالک کی کشمکش بن گیا۔ فلسطینی عوام یہودی ریاست کے جبر و استحصال اور بے دخلیوں کے نتیجے میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور اردن کے کچھ حصوں میں آن بسے۔ مسلم ممالک نے 80 کی دہائی تک فلسطینیوں کی دل کھول کر مالی مادی اور سیاسی حمایت کی 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں عربوں میں پائے جانے عدم تحفظ کے خوف اور شکست کے احساس کم تری میں تبدیلی آئی۔ بعدازاں مصر کے صدر انوار سادات نے کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر کارٹر کی چھپر چھایا تلے دو طرفہ معاہدہ کر کے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں البتہ مصر کو اپنے کھوئے ہوئے علاقے صحرائے سینا واپس مل گئے لیکن عرب یا مسلم اتحاد تقسیم ہو گیا۔ مراکش کے شہر میں فوری طورپر او آئی سی کا اجلاس ہوا جس میں مصر کے اقدام پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے او آئی سی میں مصر کی رکنیت معطل کی گئی۔

مصر کی سرحد پر فوجی دباؤ کم ہونے کے بعد اسرائیل نے مشرقی کنارے میں موجود فلسطینی تحریک آزادی کو کچلنے کاآغاز کیا۔ وحشیانہ بمباری میں۔ صابرہ و شتیلہ کے مہاجر کیمپ قبرستان بن گئے۔ جنگ بندی کی شرط پر پی ایل او نے اپنے مراکز لبنان منتقل کئے یہاں پر بھی اسرائیل اور فلسطینی مجاہدین برسرپیکار رہے۔ اس عمل میں لبنان کی سیاسی مذہبی وحدت متنازع ہو گئی یا کرا دی گئی۔ یوں بیروت میں عیسائی ملیشیا اور مسلم لبنانیوں کے بیچ جنگ چھڑ گئی۔ فلسطینی مجاہدین فطری طور پر لبنانی مسلمانوں کے ہمدرد تھے۔ اسرائیل کی لبنان پر آئے روز بمباری نے بیروت کو مجبور کر دیا کہ وہ پی ایل او سے لبنان خالی کرائے۔ فلسطینی اپنی آبائی سرزمین سے نکلنے کے بعد اردن جو تاریخی طور پر فلسطین کا ہی حصہ رہا تھا سے شاہ اردن کےحکم پر بریگیڈیئر ضیاء الحق (بعدازاں پاکستان کے مارشل لاء ڈکٹیٹر بنے) کے ہاتھوں قتل عام کے بعد نکل گئے۔

لبنان سے انہیں صدر عدی امین نے اپنے ملک یوگنڈا میں قیام کی اجازت دی تو اس طرح اسرائیل کی بیشتر سرحدوں پر موجود مزاحمتی دباؤ ختم ہوگیا۔ گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ سے تاحال شام کے ساتھ سرائیلی کشیدگی موجود ہے لیکن عرب امریکہ اتحاد نے شام پر فرقہ وارانہ جنگ مسلط کر کے شام کی عسکری ومعاشی اور معاشرتی قوت تحلیل کردی ہے۔ چنانچہ شام میں خانہ جنگی کے دوران گولان کی پہاڑیوں کو باضابطہ طورپر اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جس کی سرحدیں دکھائی تو دیتی ہیں لیکن نظری اعتبار سے لامحدود ہیں اور اقوام متحدہ نے اس توسیع پسند ملک کو ممتاز حیثیت اور رکنیت دے رکھی ہے۔ 2015ء یکم جنوری کو سعودی وزیر دفاع نے بیان دیا تھا جو روزنامہ ایکسپریس میں نمایاں طورپر شائع ہواتھا بیان میں واشگاف الفاظ میں اس عزم کااظہارکیا گیا تھا کہ اب اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہوئی تو سعودی عرب اسرائیل کا ساتھ دے گا۔

13 آگست 2020 کو امریکہ میں صدر ٹرمپ کے سایہ عاطفت میں عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ سفارتی اور کثیر الجہتی باہمی تعلقات کے قیام کا معاہدہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ معاہدہ سعودی وزیر دفاع کے محولا بالا بیان کی ہی توسیع شدہ عملی صورت ہے۔ یو اے ای اسرائیل سفارتی تعلقات کے قیام کے فیصلے کو کسی بھی طورپر ریاض کی آشرباد کے بغیر وقوع پذیر ہونا قابل تسلیم نہیں بلک یہ پہل کاری سعودیہ اسرائیل باقاعدہ تعلقات کے قیام کی خشت اول ہے اور عنقریب خلیج تعاون کونسل کے ممالک بھی اس نوعیت کے تعلقات قائم کر سکتے ہیں جن پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

مصر کے علاوہ اردن، ترکی، اومان اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے قائم کر چکے ہیں اگر میں غلطی پر نہیں تو مشرق بعید کے مسلم ممالک میں سے بھی بعض کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ دلچسپ نقطہ یہ ہے کہ ترکی نے عرب امارات و اسرائیل کے پیج تعلقات کے قیام پر ناگواری ظاہر کی ہے حالانکہ ترکی بہت پہلے سے اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تجارتی سفارتی تعلقات بحال کر چکا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اسرائیل کی کل برآمدات کا تیس فیصد ترکی کو جاتا ہے۔ البتہ ایران کی جانب اس معاہدے کو مسترد کرنا قابل فہم ہے۔ تاہم یاد رہے کہ شاہ کے دور میں ایران اسرائیل تعلقات بہت قریبی تھے۔ عراق سے جنگ کے دوران ایران نے اسرائیل سے میزائل خریدے تھے

اسلام آباد وزارت خارجہ نے جمعہ کی شام اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ “اس معاہدے کے دوررس مضمرات مرتب ہونگے“ شاید اسلام آباد نے عجلت میں یہ رد عمل دے دیا تھا لہذا شام کو ایک نرم خو تبصرہ بھی جاری ہوا کہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس معاھدے سے فلسطین کے کاز پر کیا اثر پڑتا ہے۔

حالیہ دنوں میں پاک سعودیہ تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو گئی ہے جس کے خاتمے کیلئے عسکری قیادت سرگرم عمل ہے ان کوششوں کے مثبت نتائج کیلئے حالیہ بیان ضرر رساں ہوسکتا ہے۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ عرب امارات اور سعودی عرب انتہائی قابل اعتماد ہمسائے ہیں جو باہمی تزویراتی تعلقات میں بھی گہری پیوستگی رکھتے ہیں

لہٰذا یہ سمجھنا سراسر غلط ہے کہ عرب امارات کا فیصلہ سعودی حمایت کے بغیر ممکن ہوا ہوگا۔ امریکہ، سعودی اور امارات باہمی تعلقات کی ایسی تثلیث ہے جس میں اسرائیل اب علی الاعلان چوتھے ستون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد فلسطینی کاز کا کیا بنے گا؟ اس پر بات کرنے سے قبل طے پانے والے معاہدے کی دستیاب تفصیلات اور اس کے امکانی اثرات پر گفتگو مناسب ہو گی۔

اطلاعات کے مطابق عرب امارات اور اسرائیل 20 اگست کے بعد ایک دوسرے کے ملک میں اپنے اپنے سفارت خانے قائم کریں گے جبکہ باہمی سرمایہ کاری سیاحت براہ راست پروازوں سیکورٹی ٹیکنالوجی توانائی اور ثقافتی شعبے میں دوطرفہ تعاون کیلئے مزید معاہدے کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ امریکہ عرب امارات اور اسرائیل کے مشترکہ بیان میں مشرق وسطیٰ میں ایک مشترکہ اسٹریٹیجک ایجنڈا تشکیل دینے پر اتفاق ہوا ہے معاہدے کی شق کے مطابق اسرائیل سے امن قائم کرنے والے ممالک کے مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں “نماز پڑھنے کا حق دبا جائے گا “

اس نوعیت کے مزید اقدامات یا کامیابیوں کی توقع بھی ظاہر کی گئی ہے عرب امارات کے دعویٰ کے مطابق اس معاہدے اور تعلقات کے قیام کے ذریعے اسرائیل کو فلسطین کے مزید علاقے مدغم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس شرط سے مترشح ہے کہ عربوں نے بلاتفاق فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر اسرائیلی تسلط تسلیم کر لیا ہے اور اس سے مزید توسیعی عزائم سے احتراز کی اپیل کی گئی تھی جیسے اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو نے یہ کہہ کر فوراً رد بھی کر دیا کہ “زمین کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے”

تعلقات کے قیام کے ساتھ خطے میں نئے تزویراتی ایجنڈے کی جزیات طے ہونا ابھی باقی ہے۔ البتہ امکانی طور پر اسرائیل کے ساتھ عربوں کا تنازعہ ختم ہو گیا ہے بلکہ باہمی دوستی وتعاون کا دورشروع ہونے جا رہا ہے۔ فلسطینی عوام کی کمزورحکومت نئی تزویراتی صورتحال میں اپنے وجود اور سیاسی مقاصد واہداف کیلئے اگر کچھ کرسکتی ہے تو محض یہ کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیں اور جو رعایات مل سکیں ان پر اکتفا کریں اور خود مختار فلسطینی ریاست کے خواب کو بھول جائیں۔ فلسطینی تناظر میں اسرائیل کو ایک ملک دو اقوام کے اصول تحت قبول کر لیں، یہی ان کے لئے واحد آپشن باقی رہ گیا ہے

 صدر ٹرمپ اس معاہدے اور افغانستان سے اپنی فوج کے انخلاء کے معاہدوں کو اپنی حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی قرار دیے کر نومبر کے صدارتی انتخاب میں اپنی کامیابی یقینی بنا رہے ہیں۔

یو اے ای اور اسرائیل باہمی سرمایہ کاری کے ذریعے جس سمت بڑھیں گے وہ بہت واضح ہے عرب امارات مالی طور پر مستحکم ہے تو اسرائیل کے پاس بھی سرمائے کی قلت نہیں اسے عالمی مالیاتی اداروں اور یہودی ایم این سی کی معاونت حاصل ہے اسرائیلی سرمایہ کار دبئی میں جدید ٹیکنالوجی کی حامل صنعتکاری و پیداواری عمل شروع کر سکتے ہیں۔ ایک غاصب مگر جمہوری اسرائیلی حکومت جو اپنے عوام کے انسانی حقوق کو بہت حد تک ملحوظ رکھتی ہے اپنی تکنیکی مہارت بالادستی و سرمایے کے ذریعے عرب امارات جیسے مستبد مگر سخت گیر قوانین پہ عامل ملک میں جہاں لیبر قوانین سرمایہ کار دوست ہیں نیز پسماندہ ممالک سے آئی سستی لیبر فورس موجود ہے ۔ صنعتکاری سرمایہ کاری کو ترجیح دے گی تاھم اگےچل کر یہی اقدام سعودی ولی عہد کے اس پروگرام کیلئے منفی اثرات لائے گا جو وہ اپنے ملک کے ایک نئے شہر میں 400 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کیلئے مرتب کر چکے ہیں ایک ہی منطقے میں ایک ہی طرز کی سرمایہ کاری و پیداواری سرگرمی سرمایہ کاروں کے منافع میں کمی لا سکتی ہے مقابلے کی تجارت کساد بازاری پیدا کر دے گی اس لئے امکان یہ ہے کہ عرب امارات اور اسرائیل دبئی یا اسرائیل میں جدید ہائی برڈ ٹیکنالوجی پر مشتمل دفاعی ساز و سامان پر مشتمل صنعتکاری کریں گے یوں خطے کے ممالک کو عرب امارات ساختہ اسلحہ و دیگر اشیا فروخت کر سکیں گے۔ دبئی میں نئی سرمایہ کاری گوادر بندرگاہ کیلئے دوررس اثرات کی حامل ہوگی جس کا انحصار وہاں پیدا ہونے والی اشیاء اور اس کے صارفین کی نوعیت پر ہوگا۔

یہ معاہدہ ریاض کی حکمت عملیوں کا تسلسل ہے اور حالیہ مہینوں میں اسلام آباد کے ریاض سے تعلقات میں شدید اضطراب‘ سرد مہری سامنے آئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود نے او آئی سی کے کردار اور کشمیر کے سوال پر عربوں کے سکوت پر قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا وہ درست ہوگا لیکن پاکستان کی مشکلات اور انحصار پسند معاشی و خارجہ پالیسی کا تقاضا تھا کہ جناب مودی ملتانی اسمبلی میں تقریر کرنے کی بجائے سعودی سفیر کو فون کر کے چائے پر مدعو کرتے اس موقع پر شائستگی کے ساتھ اپنے تحفظات بیان کر دیتے تو سفارتی آداب کے تقاضے مجروح ہوتے نہ ہی ریاض کی جانب سے جوابی رد عمل سامنے آتا حکومت کی عاقبت نااندیشی سے پاکستان کو عین اس وقت دوستوں سے محروم و تنہا دنیا بالخصوص بھارت کے سامنے پیش کیا گیا جب کشمیر پر بھارت کے جارحانہ اقدام کا سال مکمل ہوا تھا

خارجہ حکمت عملی اور ملکی سلامتی و عالمی تعلقات کے خدوخال مرتب کرنے میں اسلام آباد کا کردار پہلے ہی صفر کو چھو رہا ہے وزیرخارجہ اور حکومت کی کاوش سے اس میں مزید کمی آ گئی ہے۔ اسی لیے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ریاض گئے ہیں تاکہ سعودی حکمرانوں کی ناراضی دور کر سکیں جس کا ایک شائستہ اظہار 14اگست کے موقع پر سعودی ولی عہد کی جانب سے مبارکباد کیلئے صدر پاکستان کو کئے گئے فون سے بھی ہوتا ہے۔ یہ فون کال عمران حکومت سے خفگی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

ریاض کے دورے کے دوران ہماری عسکری قیادت کو جو ہپلے ہی دباؤ کی زد میں ہے اگر مشروط تعاون کی پیشکش کے ساتھ تعلقات کے احیا کی بات ہوئی تو اس کے کیا نتائج و اثرات ہونگے؟ یہ ذہن نشین رہے کہ اسرائیل عرب امارات تعلقات ریاض کی آشیر باد کا عملی نتیجہ ہیں اور معاہدے میں برملا امید ظاہر کی گئی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ. مزید مسلم ممالک کے تعلقات قائم ہونگے اگر ریاض‘ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی شرط یا خواہش پیش،کرے جس کا امکان رد نہیں کیا جانا چاہئے تو پاکستان کو ریاض کو تسلی بخش جواب دے کر اسرائیکل کے ساتھ براہ راست بات چیت کر کے تعلقات قائم کرنے چاہیں۔ اس طرح شاید ہم اسرائیل کو اپنی چند شرائط قبول کرنے پر آمادہ کر سکیں۔ براستہ ریاض اسرائیل کے ساتھ بات چیت “جمعہ جنج نال ” کے مترادف ہو گا۔

اسرائیل تو عرب امارات میں اپنا سفارتخانہ اس کے دارالحکومت میں قائم کرے گا۔ کیا عرب امارات بھی تل ابیب کی بجائے یروشلم میں جواب اسرائیلی دارالحکومت ہے اپنا سفارتخانہ قائم کرے گا؟ خیر یہ سوال بھی اب اتنا اہم نہیں رہا جب رسی ہی جل گئی ہے تو پھر بل کس کام کا۔

اسرائیل اور امارات کے بحالی تعلقات یا عرب اسرائیل تنازعے کی پیش رفت کو اصولی موقف کے تنگ دائرے میں سمجھنے کی بجائے سفارتی تعلقات کی کیمسٹری کے اصول کے تناظر میں دیکھنا چاہئے بالخصوص بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کیلئے اپنی حکمت عملی کے ساتھ۔  اگر پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی سنجیدہ اور قابل قدر خواہش رکھتا ہے اور بھارت سے مثبت جواب کا متمنی بھی ہے تو پھر عرب اسرائیل تنازعہ کے دیرپا حل کیلئے دو طرفہ تعلقات کی بحالی پر سخت گیری موقف کا اظہار کیوں کیا جائے؟

جنگوں سے مسائل حل نہیں ہو سکے بدلی ہوئی دنیا میں باہمی گفت و شنید ہی مسائل کے حل کی کلید ہے چاہے فلسطینی عوام کے مستقبل کا سوال ہو یا کشمیر کے مستقبل کا! اصولی موقف کا تقاضا متاثرہ فریقین کی آسودگی پر مبنی اقدام میں مضمر ہے جذباتی نعرے بازی میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).