کیا آزادی رائے قومی مفاد کے لئے مہلک ہے؟


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2013 میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہتھکنڈوں اور غیر قانونی طریقوں کا انکشاف کرنے والے سابق انٹیلی جنس سیکورٹی ماہر ایڈورڈ سنو ڈن کو معاف کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدر سنوڈن کو جاسوس قرار دیتے ہوئے پھانسی دینے کی بات کرتے رہے ہیں۔ ٹرمپ کی اس تبدیلی قلب سے واضح ہوتا ہے کہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قومی مفاد اور اس کے نام پر عوام کے خلاف جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ایڈورڈ سنوڈن ماضی میں سی آئی اے کے لئے کام کرتے رہے ہیں اور بعد میں امریکی انٹیلی جنس نے انٹیلی جنس سیکورٹی کے لئے کنٹریکٹ پر ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔ کام کے دوران انہیں ایجنسیوں کے ہتھکنڈو ں اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی طریقوں کے بارے میں پتہ چلا لیکن کسی نے ان کی شکایات پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اپنے ضمیر سے مجبور ہوکر سنوڈن مئی 2013 میں ہانگ کانگ روانہ ہوئے اور امریکی انٹیلی جنس ہتھکنڈوں اور مغربی ایجنسیوں کے ساتھ اشتراک کے طریقہ کار کے بارے میں لاکھوں دستاویز جاری کیں۔ امریکہ نے انہیں فوری طور سے غدار قرار دیا اور ان کی حراست کی کوششیں شروع کی گئیں لیکن امریکی حکام کے چنگل میں پھنسنے سے پہلے ہی سنوڈن ماسکو کے لئے طیارے میں سوار ہوگئے۔ اس دوران امریکہ نے ان کا امریکی پاسپورٹ منسوخ کردیا۔ انہیں ایک ماہ تک ماسکو ائیرپورٹ پر محصور رہنا پڑا تاہم بعد میں روسی حکام نے انہیں ضمیر کی آواز کے مطابق کام کرنے پر سیاسی پناہ دے دی۔ وہ اس وقت سے روس میں ہی مقیم ہیں۔

امریکی حکومت نے پہلے سو سال پرانے ایک قانون کے تحت ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ قائم کیا اور 2017 میں جب ان کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب شائع ہوئی تو امریکی ایجنسیوں نے ان کے خلاف اخفائے راز کا عہد توڑنے کے الزام میں دو مقدمات قائم کئے۔ البتہ ان کی کتاب پر پابندی نہیں لگائی جاسکی جو اشاعت کے ساتھ ہی ایمازون پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔ سنوڈن کے بارے میں امریکہ میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ انہیں غدار اور جاسوس سمجھتے ہیں جبکہ بعض انہیں خفیہ ہتھکنڈوں کے بارے میں متنبہ کرنے والا ہیرو مانتے ہیں۔ سنوڈن خود اپنے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ جاسوس یا راز فاش کرنے والا وہ ہوتا ہے جو مالی منفعت کے لئے ایسا کوئی کام کرے۔ ’میں نے امریکی رازوں کو ضمیر کی آواز پر فاش کیا اور میں جاسوس نہیں ہوں‘۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں سنوڈن کے مؤقف سے متفق ہیں۔ ان کی ہمت و حوصلہ اور راز فاش کرنے کی وجہ سے امریکی ایجنسیوں کے طریقہ کار کے بعض ایسے پہلو سامنے آئے تھے جو ناقابل یقین تھے۔ سنوڈن اس وقت امریکی تنظیم ’فریڈم آف پریس‘ کے صدر ہیں۔ یہ تنظیم سرکاری نگرانی کے خلاف صحافیوں کو امداد فراہم کرتی ہے۔

امریکی انٹیلی جنس اداروں کا کہنا ہے کہ سنوڈن کے انکشافات کی وجہ سے ان کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی اور اس طرح قومی مفادات کو نقصان پہنچا۔ البتہ صدر ڈونلڈٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ صدارتی اختیار کے تحت سنوڈن کو معاف کرسکتے ہیں ، امریکہ میں ایک نئی بحث شروع ہوسکتی ہے۔ انتخابات سے عین پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان معنی خیز ہے۔ ٹرمپ اس وقت نومبر میں ہونے والا صدارتی انتخاب جیتنے کی تگ و دو کررہے ہیں اور  ان کے تمام اقدامات یہی مقصد حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ ٹرمپ جیسا صدر جب سنوڈن کو ملک کے غدار سے قابل معافی شخص سمجھنے پر مجبور ہوجائے تو اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ عوام تمام تر سرکاری پروپیگنڈے کے باوجود قومی مفاد پر سرکاری اجارہ داری کے تصور سے متفق نہیں ہیں۔ وہ اپنے اداروں کو ایسے اختیارات دینے کے روادار بھی نہیں ہیں جو شخصی آزادیوں پر حملہ آور ہوں یا انہیں محدود کریں۔

سنوڈن کا معاملہ اگرچہ امریکہ سے تعلق رکھتا ہے یا اس میں بعض یورپی ممالک ملوث رہے ہیں لیکن سنوڈن کے اقدام اور اس سے ابھرنے والی بحث سے پاکستان جیسے ممالک میں بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بحث خاص طور سے یوں بھی اہم ہوجاتی ہے کہ اس وقت ملک میں اگر آزادی رائے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اسے دبانے کے حق میں دلائل دینے والے عناصر بھی موجود ہیں۔ ملک پر اس وقت خفیہ اداروں کی حمایت یافتہ حکومت مسلط ہے اور قومی مفاد کو سرکاری توجیہ کا پابند کرتے ہوئے قومی میڈیا کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ قومی مفاد کی اسی تشریح و تفہیم کو عام کریں اور انہی خطوط پر کام کریں جو سرکار دربار میں طے کئے جاتے ہیں۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ مین اسٹریم میڈیا کو پابند کرنے کے علاوہ خوف زدہ کرنے کے لئے بھی مختلف ہتھکنڈے اختیا رکئے گئے ہیں۔ ان میں جنگ و جیو کے مالک و مدیر میر شکیل الرحمان کی حراست اور اسلام آباد کے صحافی مطیع الرحمان جان کا اغوا اور رہائی کا معاملہ شامل ہے۔

میر شکیل الرحمان گزشتہ چھ ماہ سے 34 سال پرانے ایک کیس میں نیب کی حراست میں ہیں اور ہائی کورٹ سے بھی ان کی ضمانت نہیں ہوسکی۔ یہ تاثر عام طور سے موجود ہے کہ ملک کی مقتدرہ میر شکیل الرحمان کی حراست سے یہ واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ جب جنگ و جیو جیسے بڑے میڈیا گروپس کے مالک و مدیر کو قید رکھا جا سکتا ہے تو چھوٹے موٹے میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی کیا حیثیت ہے۔ اسی طرح مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اغوا کرنے کا طریقہ اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ذمہ داروں کے بارے میں معلومات سامنے لانے سے گریز بھی یہی واضح کرتا ہے کہ ملک میں صرف وہی طریقہ قومی مفاد اور بہتری کا ہے جسے اداروں میں بیٹھے بعض عناصر طے کر دیں۔

گزشتہ دنوں سندھ کے ممتاز ادیب تاج جویو نے حکومت کی طرف سے عطا کردہ پرائیڈ آف پرفارمنس لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا پس منظر ان کے چھوٹے بیٹے اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے سارنگ جویو کا پراسرار طور سے لاپتہ ہونا تھا۔ سارنگ اگرچہ محقق کے طور کام کرتے ہیں لیکن وہ لاپتہ افراد کے معاملہ میں سرگرم رہے ہیں۔ سرکاری اداروں کو انسانی حقوق کے لئے ان کی یہ جد و جہد پسند نہیں آئی۔

آخری اطلاعات کے مطابق سارنگ گھر واپس آچکے ہیں لیکن ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ ہونے والے افراد کا کچھ پتہ نہیں ہے حالانکہ ان کی بازیابی کے لئے تندہی سے تحریک چلائی جا رہی ہے۔ پشتون نوجوانوں کی تنظیم ’ پشتون تحفظ موومنٹ‘ کا بھی یہی مطالبہ رہا ہے کہ نوجوانوں کو اچانک غائب کرنے اور کسی قانونی کارروائی کے بغیر تشدد کا نشانہ بنانے کی بجائے، ایسے تمام عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں اور عوام کو بھی پتہ چلے کہ ریاستی ادارے کیوں بعض لوگوں کو ملکی مفاد کے خلاف سمجھتے ہوئے قید کر لیتے ہیں۔ لیکن اس طریقہ کو ختم کرنے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی براہ راست آزادی رائے کے حق اور قومی مفاد کی ایک مخصوص تشریح سے جڑا ہؤا ہے۔

پاکستان میں اس وقت مین اسٹریم میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا کو ایک خاص طرح کی رائے سازی کے لئے استعمال کرنے کا چلن عام ہے۔ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ نغموں، فلموں اور دیگر طریقوں سے قومی سلامتی کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حکمران سیاسی جماعت یا سرکاری اداروں کی نگرانی میں ایسے سینکڑوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس متحرک ہیں جو ایک خاص مزاج کی ترویج کے علاوہ مختلف رائے رکھنے والے عناصر کی کردار کشی کرتے ہیں۔ معاملہ صرف سیاسی اختلاف تک محدود نہیں بلکہ قومی مفاد کی ایک خاص تشریح تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ملک کے عوام کو ایک خاص پیغام اور پالیسی کو بلا تردد تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اختلاف رائے کی صورت میں توہین مذہب سے لے کر ملکی مفاد سے غداری تک کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔

ایسے ماحول میں آزادی رائے کی حفاظت میں اٹھنے والی آوازیں کم ہو رہی ہیں۔ تحریص کے علاوہ خوفزدہ کرنے کے ہتھکنڈے کسی رکاوٹ کے بغیر استعمال ہو رہے ہیں۔ ملک میں ایسے نامور صحافیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جنہیں ملک کا کوئی میڈیا ہاؤس کام دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس صورت حال سے خوفزدہ ہوکر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے پر مجبور صحافی وہی کہنے اور لکھنے پر مجبور ہیں جس کی ہدایت انہیں مالکان کے توسط سے دی جاتی ہے۔ اس ماحول میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے آزادی رائے کے ’ناجائز استعمال‘ کے خلاف باقاعدہ مہم سازی بھی ہو رہی ہے اور یہ تصور عام کیا جا رہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا ممتاز اخبارات وہ یا تو مالی منفعت کے لئے کام کرتے ہیں یا ان میں دشمنوں کے ’ایجنٹ‘ چھپے ہوئے ہیں جن سے بچنے کے لئے آزادی رائے کو ’مادر پدر آزاد ‘ نہیں کیا جا سکتا۔

اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ آزادی رائے اگر حق ہے تو یہ ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ لیکن کسی سرکاری ادارے کو کسی نام نہاد قومی مفاد و سلامتی کے نام پر ملک میں لکھنے اور بولنے والوں پر پابندیاں عائد کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ ہر لکھنے والا اپنے کہے اور لکھے کا ذمہ دار ہے جس کی پرکھ ملکی قوانین کے تحت کی جا سکتی ہے۔ یا خود احتسابی کا میکنزم متوازن رویہ سامنے لا سکتا ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب قومی مفاد پر اجارہ داری کے تصور کو ناجائز قرار دیا جائے۔ حکومت یا ریاست کے ادارے ان معنوں میں قومی مفاد کے ’محافظ‘ قرار نہیں دیے جا سکتے کہ وہ مختلف رائے اور توجیہ کرنے والوں کو غدار تصور کرتے ہوئے ان کے خلاف انتقامی کارروائی جائز سمجھیں۔

سنوڈ ن کیس سے یہی بات واضح ہوئی ہے کہ ملک کا ہر شہری ادارہ جاتی قوانین کے علاوہ اپنے ضمیر کی عدالت میں بھی جواب دہ ہے۔ ضمیر کی آواز سننے والوں کو غدار یا جاسوس قرار دینا غلط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali