آن لائن تعلیم اور بڑھتے مسائل


آن لائن تعلیم کے مسائل دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اساتذہ اور شاگرد دونوں اپنی اپنی جگہ پس رہے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں آن لائن تعلیم کا وہ معیار ابھی تک نہیں بن سکا جو دوسرے ترقی پذیر ممالک میں ہے۔

اسکی وجہ ناخواندگی ہے اور ہمارا رہن سہن بھی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ابھی تک اس کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر سکے اور مشکلات کا شکار ہیں۔ کچھ ہمارے اسکولوں کی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جس میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا سب سے آخر میں آتا ہے جب کہ سب سے اہم مقصد پیسہ کمانا ہے۔ اب اسکول ایسی پالیسیاں بنا رہے ہیں تاکہ والدین کو فیس کا جواز پیش کر سکیں۔ بچے کچھ سیکھ رہے ہیں یا نہیں اس سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔

والدین جس مشکل سے دوچار ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو آن لائن تعلیم کے کرب سے گزر رہے ہیں۔

جو اسکول آن لائن تعلیم کو لے کر چل رہے ہیں وہ صبح 9 بجے حاضری لینے کے ساتھ ہی ہوم روم کے نام پر ہر مضمون کا کام اپلوڈ کر دیتے ہیں ساتھ ہی کلاسز کا لنک۔ اب کسی مضمون کا لنک ہے کسی کا نہیں اور کبھی مہیا کیے گئے لنک پر کلاس جوائن نہیں ہوتی وہ الگ سے پریشانی ہے جس سے والدین کو گزرنا پڑتا ہے۔

آن لائن کلاسز کا سب سے بڑا مسئلہ چھوٹے بچوں لوئر پرائمری اور کنڈرگارٹن کے بچوں کو آ رہا ہے جن کو ابھی سسٹم استعمال نہیں کرنا آتا اپنی عمر کے لحاظ سے یہ ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ دوسری طرف والدین کے لئے بچوں کو بٹھانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کی دلچسپی نہیں بنتی چھوٹے بچے اپنے استاد کی توجہ چاہتے ہیں جو ان کو آن لائن میں مل نہیں پاتی کبھی انٹرنیٹ کا مسئلہ ہو جاتا ہے استاد کی آواز غائب ہو جاتی ہے کبھی تصویر جو کہ اس عمر کے بچوں کے لئے عدم توجہی کا باعث بنتا ہے پڑھائی کا وہ ماحول بھی نہیں بن پاتا جس کے وہ عادی ہیں۔

کچھ اسکول میوزک اور گیمز کی کلاسز بھی آن لائن کروا رہے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں اس کی جگہ اسکول کے وقت کو کم کر دینا چاہیے تاکہ والدین اور بچوں دونوں کے لئے آسانی ہو کیونکہ ایک بچے کو صبح 9 بجے سے 1 : 30 بجے تک نہیں بٹھایا جا سکتا وہ بھی آن لائن کلاس کے لئے۔

آن لائن کے بعد ایک آف لائن کلاس بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ ٹیچر میسج کے ذریعے سوالات کرتی ہیں اب لوئر پرائمری کا بچہ کیسے لکھ کر ایک مخصوص وقت میں جواب دے سکتا ہے انگریزی میں پھر بھی فرض کر لیتے ہیں کہ شاید بچہ لکھ سکے لیکن کیا اردو اور اسلامیات کے سوالات کے جوابات دے سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں اب وہاں بھی والدین جواب دے رہے ہیں۔ یہاں بے چاری عوام کا اک معصوم سا سوال ہے اسکول والوں سے کہ کیا والدین کو پڑھایا جا رہا ہے یا ان کا امتحان لیا جا رہا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ اسکولوں کو اپنی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بچے کی عمر اور ذہنی صلاحیت کا خیال کرنا چاہیے۔ صرف فیسیں لینے کا نہ سوچیں بلکہ والدین کا اور بچوں کا بھی سوچیں کہ وہ کیسے گھر پر 2 یا تین بچوں کے ساتھ انتظام کریں گے۔

یہاں ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک موضوع کو پڑھایا جائے پھر سارے بچوں کو اس موضوع پر بحث میں شامل کیا جائے۔ پھر سوالات و جوابات کا سلسلہ ہو جس میں بچے کی تربیت ہو اس کو سکھایا جائے لیکن اسکول والوں نے آسان رستہ نکالا اور والدین کا امتحان لینا شروع کر دیا۔

آن لائن کلاسز کا وقت صبح 9 بجے سے 1 : 30 بجے تک ہے تو ایک خاتون گھر کے کام کیسے اور کس وقت کرے گی باقی چھوٹے بچوں کو کیسے سنبھالے گی ’اور ایک ورکنگ خاتون کیسے اپنے بچوں کو کلاسز دلوائے گی؟ ان آن لائن کلاسز سے سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے سارے گھر والے پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور تو اور کبھی کوئی دن منایا جا رہا ہے کبھی کوئی‘ والدین گھر کو سجائیں اور آن لائن اسکول والوں کو دکھائیں تاکہ وہ سوشل میڈیا پر ڈال سکیں کہ ہم بہت کام کر رہے ہیں۔ آرٹ کی کلاسز بھی آن لائن لی جا رہی ہیں لوئر پرائمری ’کنڈرگارٹن کا بچہ کلاس لے یا آرٹ ورک کرے ظاہر ہے وہ کام بھی والدین کرتے ہیں یہ ایک اضافی ذمہ داری ہے جو والدین کے کندھوں پر زبردستی ڈال دی گئی ہے جس کو برحال والدین لے کر چلنے پر مجبور ہیں۔

اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جب تک اسکول نہیں کھلتے تب تک لوئر پرائمری تک کلاسز کا کام والدین کو دے دیا جائے والدین گھر پر بچوں کو پڑھائیں اور کام کو اسکول میں مقررہ وقت پر جمع بھی کروایا جا سکتا ہے اور پھر جب اسکول کھلیں تو اس کام کی دہرائی کروا دی جائے۔ تاکہ نصاب پورا کرنے والا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور والدین بھی سکون میں آجائیں۔ آن لائن تعلیم کے نام پر والدین اور بچوں کو ذہنی اذیت دی جا رہی ہے ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں جو صرف ایک مجبوری بن جائے۔ اور تعلیم و تربیت کا مقصد فوت ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).