مولانا سے وعدہ کس نے کیا؟


مولانا فضل الرحمان فرماتے ہیں مارچ تک حکومت ختم ہونے کا وعدہ کیا گیا۔ کس نے وعدہ کیا، کب کیا اور کس بنا پر کیا؟ مولانا ابھی اپنی پٹاری سے یہ سانپ نہیں نکالیں گے کیونکہ وہ پہلے مجمع اکٹھا کرنا چاہتے ہیں، وہ دراصل کہہ رہے ہیں کہ لکڑی کا بڈاوا بات کرے گا، اور مٹی کا ڈھیلا برفی بن جائے گا۔ اس بیان کو مولانا کی شناخت کے دائرے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا کی شناخت یہ ہے کہ وہ ایک مذہبی سیاستدان ہیں۔ مذہب کا معیار یہ ہے کہ فتنہ پیدا نہ کرو۔

مذہب یہ کہتا ہے کہ سچ بولو۔ سیاستدان کی مخصوص حالات میں اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ مولانا اور ان کی جماعت اپنا عروج دیکھ چکی۔ وہ مخصوص حالات ختم ہو چکے جب کھیر پکا کر مولانا کو اس کا سیکرٹری جنرل بنا دیا جاتا تھا۔ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا اس لئے عین ممکن ہے یہ بے اصولی انہیں پھر کسی وقت اہم بنا دے، سردست انہیں کسی ادارے یا حلقے کی حمایت حاصل نہیں۔ مولانا کی جماعت پارلیمنٹ میں نمائندگی کے اعتبار سے پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے نمبر پر بھی نہیں۔

تین چار اراکین ہیں جن میں سے بعض مارچ 2021ء کے سینٹ الیکشن میں فارغ ہو جائیں گے۔ مولانا نے دھرنا دیا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود۔ ان حالات میں بھلا کون ہے جو مولانا سے وعدہ کرے کہ صرف ان کی آتشں انتقام سرد کرنے کے لئے حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کے درمیان شناخت کا فرق ہے لیکن نظریات کا سرچشمہ ایک ہی رہا ہے۔

 یوم آزادی کے موقع پر ایمل ولی خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پاکستان کے رنگوں والی ڈی پی لگا کر تبدیلی کا خوشگوار اشارہ دیا۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ مولانا یا ان کی جماعت بھی اب قائد اعظم کا نام لے گی، یوم آزادی پر بانیان پاکستان کے لئے قرآن خوانی کروائے گی اور اپنی سیاست پر سبز رنگ سجائے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، وہ تو کئی سال کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے باوجود تنازع کشمیر کی تفصیلات سے واقف نہیں، کوئی نہ مانے تو مولانا سے پوچھ لے۔

پندرہ اگست کو مولانا فضل الرحمن پشاور میں اے این پی کے مرکزی دفتر تشریف لے گئے اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ فرماتے ہیں :اپوزیشن جماعتیں ابہام کا شکار ہیں۔ وہ ہچکچاہٹ میں مبتلا ہیں کہ مستقبل کے لئے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کریں۔ یہ بھی فرمایا: دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کو واضح کرنا ہو گا کہ کیا وہ اپوزیشن کا حصہ ہیں کیونکہ وہ پارلیمنٹ میں ہونے والی عوام دشمن قانون سازی میں حکومت کی مدد کر رہی ہیں۔

معلوم ہوتا ہے آسمان مولانا کا مخالف ہو گیا ہے۔ کراچی کے کئی دورے، آصف علی زرداری سے ملاقات۔ بلاول بھٹو سے مسلسل ملاقاتیں اور ٹیلی فونک رابطے کسی کام نہ آئے۔ وٹے مارنے پر مریم نواز کی حوصلہ افزائی کے بعد مولانا کراچی میں مرکز کی ممکنہ مداخلت پر کوئی بیان سوچ رہے تھے کہ صورت حال تبدیل ہو گئی۔ امپائر نے سب کھلاڑیوں کو بلا لیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سعید غنی اور ناصر شاہ کے ساتھ وفاقی وزیر اسد عمر، علی زیدی اور میئر کراچی وسیم اختر کی طویل ملاقات ہوئی۔

یہ ملاقات اس واسطے الگ اہمیت رکھتی ہے کہ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ سیاسی جماعتیں اس وقت تک جمہوری رواداری کا مظاہرہ نہیں کرتیں جب تک ادارے ان سے گزارش نہ کریں۔ فوج کے سینئر افسروں کی موجودگی میں تینوں جماعتوں نے وعدہ کیا کہ کراچی کے مسائل حل کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے وہ مل کر کام کریں گی۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نییہ بھی فیصلہ کیا کہ شہری حکومتوں کو مضبوط بنایا جائے گا، اس خبر کے بعد معلوم نہیں سیاسی تصادم کے آرزو مندوں کا بلڈ پریشر کس سطح پر ہے۔

پاکستان کی ترقی میں وہ گروہ رکاوٹ رہے ہیں جو انتشار کی سیاست کرتے ہیں۔ یہ گروہ کے پی کے میں ہو تو کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیتا، اندرون سندھ ہو تو ورغلاتا ہے کہ پنجاب بجلی نکال کر دریا کا پانی پھوکا کر دیتا ہے، یہ عناصر کراچی میں آ جائیں تو تیزی سے ترقی کرتا شہر کوڑے کا ڈھیر اور کچی بستی بن جاتا ہے۔ ایسے کچھ لوگوں نے بلوچستان میں ایک دوسری قسم کا فساد برپا کر رکھا ہے۔ وفاقی سیاست پر یقین رکھنے والی دونوں سابق حکمران جماعتوں نے جس طرح میثاق جمہوریت میں یہ طے کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کے لیے غیر منتخب طاقتوں سے مدد نہیں لیں گے۔ ایسا ہی ایک عہد یہ بھی کر لینا چاہیے کہ علاقائی سیاست کرنے والی جماعتوں سے اتحاد کرتے وقت ان کی غیر جمہوری سوچ اور خواہشات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

 ہم نہیں جانتے مولانا سے کس نے غلط بیانی کی اور انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا مگر مولانا خود جہاندیدہ آدمی ہیں، وہ غیر منتخب طاقتوں کے اتحادی رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ تحمل کے ساتھ 2023 ء تک کا انتظار کریں۔ ضروری تو نہیں کہ ہر بار خود ہی اقتدار کا لطف اٹھایا جائے۔ آخر چودھری پرویز الٰہی، آصف علی زرداری اور نواز شریف نے بھی تو اپنی اگلی نسل پر بھروسہ کیا ہے آپ بھی برخوردار اسد محمود کی قابلیت پر بھروسہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).