شمالی علاقوں میں پولو کا کھیل


پولو، بہادر گھڑ سواروں، مشاق نشانہ بازوں ( پولو کی چھڑی سے گیند کو ہٹ کرنا ) اور خطرات میں گھر کر یکسوئی قائم رکھنے والوں کا کھیل ہے۔ تئیس گھنٹے کی تیاری ایک گھنٹہ دورانیہ کا کھیل۔ گھوڑے میں بہت صبر، چابک دستی اور فرمانبرداری ہونی چاہیے ورنہ گھڑ سوار کی عزت کا جنازہ بھرے میدان میں نکل جاتا ہے۔ اطاعت پیدا کرنے کے لئے پورا گھر اس گھوڑے کے لاڈ اٹھاتا ہے۔ چارہ کھانے سے لے کر کنگھی پٹی تک کہ جاتی ہے اور کھلاڑی کے سوا سب گھر والے گھوڑے کی خاطر مدارات کرتے ہیں۔

کھاڑی بھی خاطر کرتا ہے لیکن گھوڑے کو یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ جب مالک سوار ہو گا تو یقیناً کوئی معرکہ مارنے جائے گا۔ عموماً میچ سے پہلے جب گھوڑا مالک کو دیکھتا ہے تو بھاگنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور گھر والے اسے پکڑ کر لاتے ہیں تا کہ مالک سواری کر سکے۔ فرمانبرداری سکھانے کے لئے مالک لگام پکڑ کر صبح صبح گھوڑے کو دور تک پیدل چلاتا ہے اور اشارے سے لمبے سانس دلواتا ہے۔ یوں گھوڑا فاضل مادوں سے بھی پاک ہو جاتا ہے اور مالک کے اشاروں کو بھی سمجھتا ہے۔

کھیل کے دوران غور کرنے پر علم ہوتا ہے کہ گھوڑے کی پیٹھ پر دائیں ٹانگ سے ٹہوکا دینے، گردن پر ہاتھ مارنے، گال پر چپت لگانے سے گھوڑا کھلاڑی کے اشارے سمجھ جاتا ہے۔ گیند پر جھپٹتے کے لئے جب بہت سے گھوڑے ایک ہی جگہ اکٹھے ہوتے ہیں تو بڑی شان بے نیازی سے سب گھوڑے کھلاڑیوں کی چھڑی سے بچنے کے لئے گردن دائیں جانب موڑ لیتے ہیں۔ جوش اور ہوش کا ایک شاندار امتزاج ملتا ہے اور خاص طور پر جب گھڑسوار سروس کے لئے گول پوسٹ کی طرف گھوڑا دوڑاتا ہے تو کسی جنگ کا سماں پیدا ہوتا ہے۔

بہرحال لمبے سانس دلانے کی مشق سے گھوڑے میں فرمانبرداری پیدا ہوتی ہے۔ میچ سے چار گھنٹے پہلے تک گھوڑے کو بھوکا رکھا جاتا ہے اور اس کے پیروں کو نمک والے پانی سے دھوتے ہیں تاکہ زخم کی صورت میں تکلیف نہ ہو۔ یہ ایک مہنگا شوق ہے جو پولو کے کھلاڑی سے ہمہ وقت توجہ مانگتا ہے۔

نصر اللہ نوجوان سیاستدان ہیں اور استور کے حلقہ نمبر دو سے آزاد امیدوار کے طور پر برکت جمیل جو کہ سابق ممبر گلگت بلتستان اسمبلی ہیں کے خلاف الیکشن کر رہے ہیں۔ انہیں تئیس سو گھرانوں کی حمایت حاصل ہے۔ بہرحال نصراللہ صاحب کے تین گھوڑے جو ڈھائی سے تین لاکھ روپے کے عوض خریدے گئے تھے یکے بعد دیگرے معمولی بیماریوں سے مر گئے۔ کچھ گھوڑے میدان میں اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھتے ہیں اور کچھ دل کی حرکت بند ہونے سے مر جاتے ہیں۔

پولو آپ سے بھرپور کمٹمنٹ کا مطالبہ کرتا ہے یعنی میچ کے بعد بھی آپ پر لازم ہے کہ ایک صاف تولیا اور گرم پانی لے کر گھوڑے کو اچھی طرح صاف کریں تاکہ مٹی میں آٹے ہونے کی وجہ سے اسے چبھن نہ ہو۔ فوراً پانی پینے کے لئے نہ دیں۔ پولو کے کھلاڑی گھوڑے کو لاڈلے بچے کی طرح رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس گھوڑے کا خیال نہیں رکھا جاتا وہ مالک کو بھرے میدان میں رسوا کروا سکتا ہے۔

گلگت بلتستان میں سب سے اچھی پولو چلاس میں کھیلی جاتی ہے لیکن چلاس اپنی گرمی کی وجہ سے مشہور ہے لہذا سیاحوں میں عام طور پر چلاس کے لئے کوئی کشش نہیں پائی جاتی حالانکہ داریل، گوہر آباد اور تانگیر دیکھنے کے لائق ہیں۔ وہاں چلغوزے جیسا نایاب میوہ اگتا ہے۔ مہمان نوازی میں ان کا کوئی ثانی نہیں لیکن جرائم بھی بہت ہیں۔ پچھلے دنوں نصراللہ کو تاوان کے لئے اغوا کر لیا گیا تھا اور اس بے چارے نے بڑی مشکل اپنے چند صحافی کزنز کی مدد سے جان بچائی۔

استور میں صحافی بہت فعال ہیں، خاص طور پر استور پریس کلب کے صدر رفیع الدین آ فریدی اور شمس جیسے صحافیوں نے تو استور کو پوری دنیا میں متعارف کروانے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔

استور کا فری سٹائل پولو خوبصورت موسم اور راما یا سکامل جیسے خوبصورت مقامات پر کھیلے جانے کی وجہ سے زیادہ پر کشش ہے۔ یہاں پولو ایک مذہب کا درجہ رکھتا ہے اور ”جنگجوانہ“ مزاج کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ عام طور پر گھوڑے پنجاب سے منگوائے جاتے ہیں لیکن مقامی گھوڑوں پر بھی بہت انحصار کیا جاتا ہے گو کہ مقامی گھوڑے قد میں چھوٹے اور کچھ موٹے موٹے ہوتے ہیں۔ میچ کا انعقاد دور دراز علاقوں میں ہونے کی وجہ سے گھوڑوں کو بڑی گاڑیوں میں لاد کر پہنچایا جاتا ہے تاکہ وہاں کی آب و ہوا سے مطابقت رکھ سکیں۔

زیر نظر وڈیو میں جو پولو میچ دکھایا گیا ہے وہ عید گاہ استور سے بہت دور کالا پانی کے قریب سکامل ( ضلع بالا) کے مقام پر اگست 2020 میں منعقد ہوا اور موبائل فون سے اس کی لائیو کوریج کی گئی۔ ڈاکیومنٹری کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ اگر کچھ حفاظتی اقدامات کیے جائیں تو کھلاڑی بہت سی تکلف دہ چوٹوں سے بچ سکتے ہیں۔

https://youtu.be/p_EOk18iNoo

منیر صاحب پولو کے ایک شاندار کھلاڑی تھے لیکن 2017 میں گھوڑے سے گرے اور سر پر چوٹ کے باعث کوما میں چلے گئے۔ سات دن بے ہوش رہے اور جب ہوش میں آئے تو مزاج ہی بدل چکے تھے۔ اچانک غصہ میں آ جاتے اور بہکی بہکی باتیں کرتے حتیٰ کہ کسی کے چائے پینے کی آفر پر بھی برانگیختہ ہو جاتے۔ ان کی پولو سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر گدھوں پر بیٹھ کر جزائر غرب الہند میں بھی پولو میچ ہو تو منیر صاحب ضرور دیکھیں گے۔ ان کے بچے اور بھائی پولو کھیلتے ہیں لیکن منیر صاحب اس حادثے کے بعد کبھی پولو نہیں کھیل سکے۔ کہتے ہیں کہ جب دوسروں کو کھیلتے دیکھتا ہوں تو رونا آ تا ہے کہ وہ کیوں نہیں کھیل سکتے۔

اسی طرح فاروق صاحب جو کہ پولو ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اس سال کھیل کے دوران گھوڑے سے گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھے اور گریکوٹ سے سکامل میچ دیکھنے آ گئے۔ شوق کا امتحاں جو ہوا سو ہوا۔ پاؤں سوج گئے اور بخار نے آ لیا۔ شاید لمبے عرصے تک پولو نہ کھیل سکیں۔ جس گھوڑے سے گرے وہ اپاہج ہو گیا اور اتفاق دیکھیے اس کے مالک نے ایک دن پہلے ہی اس کی قیمت ( تین لاکھ روپے ) چکائی تھی۔ اگر آپ ڈاکیومنٹری دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ سکامل پولو ٹورنامنٹ کے فائنل میں گوری کوٹ کے کپتان محمد شمس گھوڑے سے گرے اور ان کے بازو پر شدید چوٹ آئی گو کہ اللہ کا شکر ہے کہ ان کا سر بچ گیا کیونکہ ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ ایک دن پہلے ایک بزرگ پولو پلیئر جان محمد گھوڑے سے گر گئے تھے اور میں نے انہیں اس عمر میں پولو سے محبت اور بہادری کے اعزاز میں انعام بھی دیا۔

استور پولو میں کوئی ریفری نہیں ہوتا کیونکہ سیٹی بجا کر بار بار کھیل کو روکنا اس کے حسن کو برباد کرنے کے مترادف ہے اور پھر اسے جتنا نیچرل ( فطری) رکھا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ استوری کہتے ہیں کہ یہ کھیل جنگ لڑنے کی مشق ہوا کرتی تھی اور جنگوں میں قواعد و ضوابط کمزور لوگ اپناتے ہیں۔ ظاہر ہے قواعد و ضوابط کا بے محابا استعمال پولو جیسے کھیل کے حسن کو گہنا سکتا ہے لیکن ہیلمٹ کا استعمال، گھٹنوں اور کہنیوں کے حفاظتی پیڈز، ٹخنوں اور گردن کے حفاظتی انتظامات اپاہج ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

اگر پولو کو فیڈریشن بنایا جائے اور اس کے لئے فنڈ مختص کیا جائے تو اس کھیل سے نہ صرف شاندار کھلاڑی پیدا کیے جا سکتے ہیں بلکہ اس سے سیاحت اور سپورٹس کو بھی پروموٹ کیا جا سکتا ہے۔ راما پولو گراؤنڈ کے خلاف ایک گہری سازش بھی ہو رہی ہے کہ اسے ختم کر کے راما کو نیشنل پارک بنایا جائے۔ پورے استور میں ایسی سیکڑوں جگہیں ہوں گی جہاں شاندار پولو گراؤنڈ بنائے جا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوائے راما پولو گراؤنڈ کے ایک بھی قابل ذکر پولو گراؤنڈ نہیں ہے۔

کھیلنے کے جذبے سے سرشار بہت سے نوجوان گھوڑا نہیں رکھ سکتے اور دوسروں کے گھوڑے استعمال کرتے ہیں۔ پولو ایسوسی ایشن کے صدر فاروق صاحب اپنا گھوڑا ان لوگوں کو دیتے رہتے ہیں جو پولو کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی اپنا گھوڑا شیئر کرتے رہتے ہیں بالکل بعض اوقات تو گھوڑا دینے کے پیچھے چالاکی بھی کارفرما ہوتی ہے یعنی تھکے ماندے گھوڑے مخالفین کو دے کر انہیں شکست دلائی جاتی ہے۔ استوری ویسے تو کوئی چالاکی نہیں کرتے بلکہ آپ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن کھیل کی اپنی ہی روایات ہوتی ہیں۔

سکامل میچ کے لئے میں نے خود ایک گھوڑے پر سواری کی اور اس گھوڑے کو دور دراز ایک حسین وادی منی مرگ سے دوڑا کر لایا گیا تھا۔ ایک رات چلم چوکی میں آرام کے بعد یہ گھوڑا شنے گئی، جوتے، گومئے اور مرمئی ( شنکر گڑھ) عبور کر کے سکامل پہنچا تھا۔ ایک سفیدی مائل سرمئی اور خوبصورت گھوڑا بہت منہ زور اور نک چڑھا تھا۔ کس کے قابو نہیں آ رہا تھا۔ شاید گھوڑے بھی اپنی وجاہت اور ہینڈسم ہونے پر نازاں ہیں۔ میچ میں تو کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا لیکن نخرے اور مزاج کی برہمی بتاتی تھی کہ موصوف اپنے حسن سے آگاہ ہیں۔

پولو کھیلنے میں گھوڑی زیادہ سبک رفتار ثابت ہوتی ہے لیکن گھوڑی کو زیادہ عرصہ کھلانا ممکن نہیں ہوتا لہذا نر گھوڑوں کو رکھا جاتا ہے۔ فاروق صاحب کی ایک تجویز ہی بھی تھی کہ گھوڑوں اور کھلاڑیوں کی انشورنس ہونی چاہیے تاکہ کھلاڑی زخمی ہونے کی صورت میں اپنے گھر والوں پر بوجھ نہ بنے اور گھوڑا بھی اگر زخمی ہونے کے بعد پولو نہ کھیل سکے تو علاج کے بعد کسی اور کام میں استعمال ہو سکے۔ ویٹرنری ہسپتال ہے تو ضرور لیکن جہاں انسانوں کو دوائیں نہ ملتی ہوں وہاں گھوڑوں کو کون پوچھے گا۔

پولو کے کھیل میں ایسا جوہر اور امکانات چھپے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان کی ٹیموں کو فیڈریشن میں شامل کر کے منیر صاحب اور فاروق صاحب جیسے لوگوں کے ہاتھ میں باگ ڈور تھمائی جائے تو وہ دن دور نہیں جب لوگ پولو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے جوق در جوق آئیں گے لیکن اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ اس فیڈریشن میں کوئی بیوروکریٹ سر پر بیٹھ کر فیصلے نہ کرے بلکہ پولو سے وابستہ ان لوگوں کو جو آج جائیدادیں بنانے کی بجائے کھیل اور کھیلنے کے جذبہ کو اجاگر کر رہے ہیں آگے لانا چاہیے۔

درلے بالا، مرمئی، گومئی، میر ملک، ترشنگ، پرشنگ ( اوپر اللہ والی جھیل) ، ممبوداس سمیت ایسی ان گنت جگہیں ہیں جہاں پولو گراؤنڈ بنائے جا سکتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ استور میں لوگوں کے پاس بہت زمین ہے لیکن مسئلہ انہیں اعتماد دینے کا ہے۔ سال بھر میں پانچ ماہ ایسے ہوتے ہیں کہ سیاح اور مقامی لوگ استور کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہی۔ سطح سمندر سے چار ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے استور میں موسم گلگت بلتستان کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ٹھنڈا رہتا ہے لیکن اچھے ہوٹلز نہ ہونے کے باعث سیاحوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

استور جانے والے سیاحوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ ایک بہت بڑا ضلع ہے جہاں فطرت کا حسن جوان ہے لیکن سیاحوں کو منظر اپنے اندر اتارے کے لئے جوکھم کرنا پڑتا ہے۔ اگر سبزہ اور ٹھنڈک ہی سے لطف اندوز ہونا ہے تو مری اور ناران بھی بری جگہیں نہیں ہیں لیکن اگر آپ چٹیل پہاڑوں میں نخلستان اور سنگلاخ زمین سے چشمے پھوٹتے دیکھنا چاہتے ہیں، اگر آپ حسیں مناظر میں گندھی ہوئی میزبانی اور محبت کی چاشنی محسوس کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ تاریخ اور تہذیب کو سبزے کے طرح خود رو دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر اپ سفر کی صعوبت اٹھا کر فطرت کی کاری گری دیکھنا چاہتے ہیں تو استور ضرور جائیں۔

مقامی لوگوں سے تعلق بنے تو خود بھوکے رہ کر آپ کو ٹراؤٹ ضرور کھلائیں گے۔ مہمان نوازی اور شائستگی ان لوگوں کا خاصہ ہے۔ شندور، استور، لاہور، چلاس، سکردو، نگر، ہنزہ، گلگت، چترال اور غذر کی پولو ٹیموں کا ملا کر ایک فیڈریشن قائم کرنا ہمارا خواب ہے اور اس کی داغ بیل اس ڈاکیومنٹری کے ذریعے ڈال دی گئی ہے۔ امید ہے پولو کو قومی سطح پر ایک ایسے کھیل کا درجہ مل جائے گا جس میں کھاڑیوں کو معاش کا مسئلہ نہیں رہے گا، انہیں گھوڑے کرائے پر دستیاب ہوں گے، حفاظتی انتظامات یقینی بنائے جائیں گے اور موسم کے اعتبار سے پورے ملک میں پولو میچز کا انعقاد ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).