حسینؑ کا ترک حج۔ مسلمانوں کا طواف کعبہ


محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا ماہ ہے۔ مسلم امہ میں اس ماہ کی تعظیم و تکریم کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو یہ ماہ حرمت کے 4 ماہ میں شامل ہے جس میں جنگ و جدال کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود 61 ہجری کے اسی ماہ میں واقعہ کربلا رونما ہوا اور خانوادہ خاتم النبین کو نینوا کے صحرا میں تہہ تیغ کر دیا گیا۔ ۔ ۔ اس واقعہ کو سینکڑوں سال گزر چکے ہیں۔ دنیا بھر میں آج بھی اس واقعہ کی یاد کو مناتے ہیں اور محرم کے پہلے 10 دن بالخصوص ایام غم کے طور پر منائے جاتے ہیں۔

حسین ابن علی سے مدینہ میں بیعت طلب کی گئی، انکار پر مدینہ میں حسین کے لئے رہنا تنگ کر دیا گیا، قافلہ حسینی نے 28 رجب کو مدینہ چھوڑ کر مکہ میں آ کر قیام پذیر ہوا، حسین ابن علی فرمایا ”میں سرکشی اور جدال و قتال کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے بلکہ میں تو اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میری غرض فقط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اپنے نانا اور بابا کی پیروی ہے۔ پس جو کوئی اللہ کی خاطر میری دعوت قبول کرتا ہے تو اللہ کا حق سب پر فائق ہے اور جو میری دعوت کو قبول نہیں کرے گا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کرے اور اللہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے“ ۔

چونکہ بیعت کے انکار کے بعد یزید کو حسین ابن علی کھٹک رہے تھے اور ڈر بھی تھا کہ حسین قیام کے لئے ہی نہ اٹھ کھڑے ہوں اس لیے اقتدار کے ایوانوں میں فیصلہ ہوا کہ حرم خدا میں ابن رسول اللہ کو قتل کر دیا جائے۔

حاکم وقت کے گماشتے امن کے لباس میں تلواریں اور خنجر چھپائے بیت اللہ میں ایام حج کے موقع پر وارد ہوتے ہیں، حسین علیہ السلام نے 8 ذوالحج کو احرام کھول دیا، حج کو موقوف کیا اور حرم خدا کی حرمت کی خاطر مکہ سے روانہ ہو گئے۔ حرم خدا کی عزت بچ گئی، لیکن مکہ میں موجود مسلمانوں نے یہ تک نہ پوچھا کہہ کیوں حسین حج کو ترک کر کے اتنی عظیم عبادت کو چھوڑ کر خدا کے گھر سے منہ موڑ کر جا رہے ہیں؟

عجیب بات ہے کہ نواسہ رسول اپنے خانوادہ کے ساتھ حج ترک رہے تھے اور مسلمان چپ چاپ کعبہ کے گرد چکر لگانے میں مصروف رہے۔

مولانا مودودی سے سوال کیا گیا کہ جب صحابہؓ کی اکثریت نے یزید کی بیعت کرلی تھی۔ پھر امام حسینؑ نے یہ راستہ کیوں اختیار نہ کیا۔ مولانا مودودی نے اس سوال کا جواب بہت عمدگی سے اور فکر کشا پیرائے میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ”بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسینؓ نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون (طعنہ دیتے ہیں) کرتے ہیں، حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما ( ایرے غیرے ) کا کام نہیں۔ صرف وہ اٹھ سکتا ہے جو فیصلہ کرچکا ہو کہ وہ اٹھے گا خواہ کچھ ہو جائے، جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں، ان کو صحابہؓ کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسینؓ کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرامؓ کی پوزیشن صاف کی جا سکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔“

سادے الفاظ میں مودودی صاحب کہ رہے تھے جب حسین علیہ السلام نے بیعت سے انکار کیا تھا تو صحابہ کرام کس بنا پر حسین کے ساتھ اس انکار میں شامل نہیں ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی توجیہہ پیش کر دی کہ یہ کام ہر کسی کا نہیں ہے۔

جے کر دین علم وچ ہوندا سر نیزے کیوں چڑھدے ہو
اٹھارہ ہزار جو عالم باہو اگے حسین دے مردے ہو

اس ساری صورتحال کے پیش نظر سوال اٹھتا ہے کہ دینداری کیا ہے؟ حج ترک کے احرام کھول دینا، یا حج جاری رکھنا؟ یزید کی بیعت کا انکار کرنا یا خاموشی اختیار کرنا؟ مسند دین پر بیٹھے دین کے باغی کا ساتھ دینا یا اس کے خلاف قیام کرنا؟ ہر برسراقتدار کو ولی الامر مان لینا یا حقیقی ولی الامر کو تلاش اور اس کی پیروی کرنا؟

یقیناً ان سوالات کے جواب آپ کے سامنے یزیدیت اور حسینیت کے درمیان فرق کو واضح کر دیں گے، صراط مستقیم بھی نظر آئے گی اور حق بھی آشکار ہو جائے گا۔ اور اس سے بڑھ حسین ابن علی علیہ السلام کا قیام سمجھ آ جائے گا۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider