سر باری اور کنٹین کے عقب میں سایہ


کمرہ امتحان میں اگر مکمل نہیں تو کسی حد تک خاموشی ضرور تھی۔ سر باری گاہے بگاہے طلباء کے پرچوں پر نگاہ ڈالتے جا رہے تھے۔ ویسے بھی یہ کوئی بہت بڑے بچے نہیں تھے۔ یہ دوسری جماعت کے ننھے فرشتے تھے۔ جن کا اس روز حساب کا پرچہ تھا۔ حساب میں یا تو بچے بہت کمزور ہوتے ہیں یا پھر ان کی دلچسپی کا محور صرف حساب ہی ہوتا ہے۔ اس جماعت کے بچوں کی اکثریت حساب سے سخت بیزار تھی۔ بچے اپنے حساب سے نقل کا انتظام کرکے آئے تھے لیکن سر باری کی سخت نظروں کے حصار میں انہیں ایسا کرنا ناممکن لگ رہا تھا۔

جماعت میں راونڈ لیتے لیتے سر باری کی نظر موبی پر پڑی جو نہایت مہارت سے تمام سوالات حل کرنے میں مصروف تھا۔ اس کے پرچے کی خاص بات نفاست اور خوبصورتی تھی۔ سر باری موبی کی ذہانت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ حساب میں موبی سے آگے کوئی نہیں نکل سکتا۔ موبی کے قریب کھڑے ان کی نظر اس کے ہاتھوں کی نرم و نازک انگلیوں پر پڑی۔ سر باری نوجوان استاد تھے۔ شادی کو بھی ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ خوش مزاج تو نہیں خاصے سڑیل مشہور تھے۔

بچے تو ان سے بہت خوف کھاتے تھے۔ حلقہ احباب بھی خاصا محدود تھا۔ پہلے بھی بہت سے اداروں میں پڑھانے کا تجربہ رہا تھا۔ کسی بھی ادارے میں چند ماہ نوکری سے زیادہ نوکری کا تجربہ نہیں رہا تھا۔ ایسا کیوں تھا اس بارے میں زیادہ جاننے کی کسی نے جستجو نہیں کی تھی۔ یہ ایک بورڈنگ سکول تھا جہاں پرائمری سطح پر بھی مرد اساتذہ ہی تعلیم دیتے تھے۔ سکول انتظامیہ نے چند ایک بار خواتین اساتذہ کو پرائمری کے بچوں کی ذمہ داریاں سونپ کر دیکھی تھیں لیکن خواتین اساتذہ چند ماہ کے اندر اندر یہ ادارہ چھوڑ جاتی تھیں ایسا کیوں تھا یہ جاننے کی جستجو کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔

سر باری کچھ دیر تو ٹکٹکی باندھ کر موبی کے نرم و نازک ہاتھوں کو دیکھتے رہے اور پھر انہوں نے اس کے ہاتھوں کو تھام لیا۔ موبی جو نہایت انہماک سے پرچہ حل کرنے میں مصروف تھا۔ سر باری کی اس عجیب سی حرکت پر تھوڑا گھبرا گیا۔ کچھ دیر اس کے ہاتھوں کو سہلانے کے بعد انہوں نے اس کے ہاتھوں کو چھوڑ دیا اور دوسرے بچے کے پرچے کی طرف دیکھنے لگے۔ موبی نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنا پرچہ سلیقے سے مکمل کرنے کے بعد اس نے سر باری کے حوالے کیا۔

اس بار بھی باری نے سر دوسرے بچوں سے نظر بچا کر اس کے گالوں کو چوم لیا۔ موبی کے لئے یہ نئی بات نہیں تھی اکثر اس کے خاندان میں لوگ اس کو محبت سے چوم لیا کرتے تھے۔ وہ مسکراتا ہوا اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ امتحان کا وقت ختم ہوتے ساتھ ہی سر باری نے تمام بچوں کے پرچے اکٹھے کیے اور موبی کو اپنے ساتھ نیچے کینٹین کی پچھلی طرف آنے کو کہا۔ موبی کا وین والا اس روز ذرا لیٹ تھا۔ وہ چپ چاپ باری سر کے کہنے پر اسی جگہ پہنچ گیا۔

چھٹی ہوئے ایک گھنٹے سے اوپر ہو چکا تھا لیکن موبی کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ وین والا موبی کا انتظار کرکے جا چکا تھا۔ اب اس کے والدین پریشانی کے عالم میں پرنسپل صاحب کے آفس میں بیٹھے تھے۔ پولیس کو اطلاع کر دی گئی تھی۔ سر باری بھی پرنسپل صاحب کے آفس میں پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ ان کے گاؤں میں ان کی والدہ بیمار تھیں۔ انہیں فوری گھر جانا تھا لیکن انہوں نے یہی کہا تھا کہ جب تک موبی کا پتا نہیں چل جاتا وہ نہیں جا سکتے۔

سر باری کے اس خلوص اور اپنائیت نے موبی کے والدین کو ان کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ یہ سب لوگ جب موبی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے تو اچانک سے سکول کے چوکیدار نے کینٹین کے پچھلے حصے میں موجود ساے کی طرف سب کی توجہ دلائی۔ چوکیدار کے کہنے پر جب سب کنٹین کے پچھلے حصے کی طرف گئے تو وہاں موبی کی نیم برہنہ لاش پڑی تھی بقول سکول انتظامیہ کینٹین کے پچھلے حصے میں موجود سائے نے موبی کی جان لے لی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).