بھارتی اداکارعامر خان کو دیش دروہی بنا دیا گیا


گزشتہ کالم میں قارئین کوبتایا تھا کہ بھارت میں جب سے نئے دور کے ہٹلر مودی نے مسلمان سمیت دیگر اقلیتوں کی بھارتی شہریت کے قانون کو متنازعہ بنایا ہے تب سے نہ صرف اقلیتیں بلکہ اس متنازعہ قانون پرجس کسی نے بھی بات کی، اسے بی جے پی کی جانب سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کالے قانون کے خلاف جس کسی نے بھی احتجاج کیا اس کی آواز کو دبا دیا گیا چاہے وہ سیاست دان، اداکار یادانشور ہی کیوں نہ ہو۔ اسی قانون کے خلاف بھارتی اداکار سوشانت سنگھ نے مظاہروں میں حصہ لیا تھا جس پر اسے ٹی وی شو ”ساودھان انڈیا“ سے نکال دیا گیا تھا صرف یہی نہیں سوشانت کو فلموں سے بھی باہر کرنے اور موت کے منہ تک پہنچانے کی سازش بھی انہی شدت پسندھندوؤں نے رچائی تھی۔

آج کل ان شدت پسند ہندوؤں کا فسٹ ٹارگٹ بھارت کا معروف اداکار عامر خان بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر جب عامر خان اور ترکی کے صدر کی اہلیہ یمن اردوان کی ملاقات کی تصویر وائرل ہوئی تو بی جے پی نے اس تصویر کو لے کر اس طرح کا وبال کھڑا کر دیا ہے جیسے عامر خان بھارت کا سب سے بڑا مجرم ہو۔ بی جے پی کی جانب سے عامر خان پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ترکی کے صدر کی اہلیہ سے ملاقات کرکے عامر خان ”دیش دروہی“ بن گیا ہے کیونکہ ترکی نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پرزور انداز میں اٹھایا تھا۔ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے پر بی جے پی کی حکومت ترکی کو بھی اپنا دشمن مانتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرنے والا ہر ملک بھارت کی لسٹ میں اس کا دشمن ہے۔

بی جے پی نے عامر خان پر الزام لگایا ہے کہ اس نے مودی کے دوست اسرائیل کے وزیر اعظم سے ملنے سے انکار کر دیا تھا لیکن کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کرنے والے ملک ترکی کا وہ مہمان بن گیا ہے۔ عامر خان اپنی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں ترکی میں موجود ہے جس کی اجازت خود مودی حکومت نے اسے دی ہے، شوٹنگ کے سلسلے میں ترکی گئے عامر خان کی یمن اردوان سے ملاقات کو سیاست کی نظر سے دیکھتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

عامر خان اس سے قبل بھی بی جے پی کی تنقید کا نشانہ بن چکا ہے جب مودی حکومت بننے کے بعد عامر خان نے بھارت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تو میری بیوی کو بھی انڈیا میں رہنے میں ڈر لگتا ہے۔ اس بات کو لے کر بی جے پی کے شدت پسندوں نے کافی شوروغل مچایا اور عامر خان کوانڈیا چھوڑ کر پاکستان میں رہنے کامشورہ بھی دیا تھا۔ عامر خان کو پاکستان نواز ثابت کرکے بی جے پی نے سیاست کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

عامر خان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ اگر عامر خان کی جگہ اکشے کمار ہوتا تو شاید یہ واویلا نہ مچایا جاتا، عامر خان چونکہ ایک مسلمان کا نام ہے اس لئے اس نام پرجو بھی سیاست ہو جائے وہ کم ہے۔ بھارت کی ایک صحافی خاتون صبا نقوی کا کہنا ہے کہ اداکار اکشے کمار، ترکی یا دوسری جگہ شوٹنگ کر رہے ہوتے اور وہاں کے صدر سے ملاقات کرتے تو کیا تب بھی یہ بحث چھڑتی؟ بھارت کے ایک اور مسلمان اداکار اعجاز خان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اگر ایک چیونٹی بھی مر جائے تو اس کا ذمہ دار مسلمان ہے اور اگر ایک ہاتھی بھی مرے تو اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ہی عائد کی جاتی ہے، اگر دلی میں زلزلہ آ جائے تو اس کا الزام بھی مسلمانوں پر دھر دیا جاتا ہے، اعجاز خان نے اپنے مداحوں کے سامنے سوال اٹھایاتھا کہ ”کیاآپ نے کبھی غور کیا ہے کہ مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کی سازش کے پیچھے کون ہے؟

“ ۔ سوشل میڈیاپر اعجاز خان کی ویڈیوآنے پر بھارتی ریاست مہاراشٹر کی ممبئی پویس نے اداکار اعجاز خان کو مسلمانوں کے حق میں بولنے پر گرفتار کر لیا تھا جبکہ اس سے قبل اداکار جاوید جعفری، دنگل فلم کی اداکارہ زائرہ وسیم سمیت کئی مسلمان اداکاروں، سیاست دانوں اور دانشوروں کی آواز کواس لئے خاموش کرادیا گیا کہ وہ مودی کے غیر آئینی و غیر اخلاقی اقدامات کی مذمت کر رہے تھے۔ مشہور بھارتی فلمی شاعرجاوید اختر کی اہلیہ شبانہ عظمی کا کہنا تھا کہ اگر شبانہ عظمی بھی شہری حقوق سے محروم ہے تو ایک عام بھارتی مسلمان کیا کرے گا؟

موجودہ صورتحال میں بھارت کے مشہور فلمی اداکاروں کو بھارت کے کسی بھی شہر میں فلیٹ یا مکان لینے میں جتنی مشکل پیش آ رہی ہے اتنی بھارتی تاریخ میں کبھی نہیں آئی کیونکہ اب بھارت تیزی سے ہندو ریاست میں تبدیل کیا جا رہا ہے، بھارتی مسلمان شدت پسندوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بی جے پی ہٹلر مودی کی قیادت میں مسلمانوں کو تیسرے درجے کا شہری بنانے کے درپے ہے جبکہ بھارت کی اپوزیشن پارٹی کانگریس برائے نام پارٹی بن چکی ہے جو نہ تو بھارتی آئین کا تحفظ کرسکی اور نہ ہی اپنی پارٹی کے رہنماؤں گاندھی اور نہروکی بھارت سیکولرازم سے متعلق کہی ہوئی باتوں کا تحفظ کرسکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).