میرحاصل خان بزنجو ۔ ایک عہد کاخاتمہ


میرحاصل خان کے بارے میں قلم اٹھانا اور اس موضوع سے انصاف کرنا میرے لئے اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ میڈیا پرسن کی حیثیت سے ہمارے تعلقات انکے والد محترم میرغوث بخش بزنجو اور ان کے بڑے صاحبزادہ میر بیزن سے زیادہ تھے میرصاحب کی رحلت کے بعد1990ء میں جب میرحاصل خان قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اسکے بعد ہی آشنائی کا آغاز ہوا میں نے پہلی مرتبہ انہیں کراچی میں میرصاحب کی علالت کے دوران دیکھا تھا اگرچہ میر بیزن بھی 1990ء میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے لیکن رفتہ رفتہ میرحاصل خان آگے بڑھتے گئے اور کافی مدوجذردیکھنے کے بعد وہ میرصاحب کی سیاست کے وارث اور ان کے جانشین بن گئے ایک مرتبہ عام انتخابات کے بعد میرحاصل خان اور ان کے اراکین اسمبلی جن میں ڈاکٹرعبدالمالک بھی شامل تھے میرے گھر پر جمع ہوئے اس رات میں نے ان سے پوچھا کہ

آپ کی جماعت اور دیگرقوم پرست جماعتون میں کیا فرق ہے؟اور آپ کی پارٹی کا خاص امتیاز کیا ہے؟

اس رات کو میرصاحب نے کھل کر کسی لگی پٹی کے بغیر نہایت واضح انداز میں کہا کہ وہ فیڈریشن کے اندر اپنے آئینی حقوق مانگتے ہیں باقی جماعتوں کی پالیسی اتنی واضح نہیں ہے۔ جب انہوں نے یہ بات کی تو میں نے مزید وضاحت مانگی تو میرحاصل خان نے کہا کہ پاکستانی فیڈریشن ہمارا وطن ہے کیونکہ بلوچستان اس میں شامل ہے۔ بلوچوں میں ابھی تک اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ صوبائی خودمختاری سے کچھ زیادہ حاصل کرسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست زمینی حقائق کے مطابق چلتی ہے، خواب اور چیز ہیں، حقائق مختلف چیز ہیں۔ میرصاحب حب اپنی بات مکمل کرچکے تو کچکول علی نے آواز لگائی کہ میں میرصاحب کی بات سے متفق نہیں ہوں۔ وہ ایک مرتبہ پہلے آغا شاہد کی طرف سے برٹش ڈپٹی ہائی کمشنر کو دی گئی دعوت میں بھی اپنے اختلاف کا اظہار کر چکے تھے ان کا موقف تھا کہ بلوچوں کی جدوجہد صوبائی خودمختاری کیلئے نہیں ہے۔

میرصاحب خان کے واضح موقف کے بعد میں میرغوث بخش بزنجو سے اس ملاقات کی یاد میں چلا گیا جو 1988ء میں سورینج کے مقام پر ہوئی بلوچی دنیا کے ایڈیٹر میر چاکرخان بلوچ بھی موجود تھے سورینج میں سردار اسلم بزنجو کا سرکاری گھر تھا اور میرصاحب وہاں پر قیام پذیر تھے۔ ہم نے ساری رات مجلس کی بہت زیادہ بحث کی لیکن میرصاحب کا کہنا تھا کہ بلوچ اس سرزمین پرسب سے کمزور قوم ہے۔ تعداد سرمایہ اور تعلیم کے لحاظ سے وہ سب سے کمزور ہے۔ پھر اس کا جغرافیہ بہت نازک اور حساس ہے لہٰذا اگروہ اپنے حقوق پاکستان کے اندر حاصل کر لے تو اس کے لئے یہی بہتر ہوگا۔

ہم نے میرصاحب کو قلات کے ایوان زیریں میں ان کی شہرہ آفاق تقریر یاد دلائی لیکن وہ کہنے لگے کہ وہ ایک آزاد ریاست کی اسمبلی میں کی گئی تقریر تھی۔ احمد یار اپنی آزادی برقرارنہ رکھ سکے اور پاکستان میں شامل ہو گئے۔ اس آزادی کا حصول جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے کھو دی ہے آسان نہیں ہے اور ویسے بھی بلوچوں کی بقاء اور مفاد اس میں ہے کہ وہ پاکستان کے اندر اپنا قومی تشخص برقرار رکھیں جب ہم نے بہت بحث کی تو میر صاحب نے کہا کہ بھئی یہ جیسا بھی ہے ایک نام نہاد جمہوری ملک ہے اور کسی ملک میں ہمیں اتنے حقوق نہیں مل سکتے جو یہاں حاصل ہیں۔ پھر میر صاحب نے وہ مشہور بات دہرائی کہ اگر مجھے آقاؤں میں انتخاب کرنا پڑے تو میں پاکستان کا انتخاب کروں گا؟

میر حاصل خان اپنے نامور والد کے اس ورثے کو لیکر چلے اور کبھی منافقت سے کام نہیں لیا۔ وہ کلیر تھے۔ نواب صاحب (اکبر بگتی) کی شہادت کے بعد جب ایک مشکل دور کا آغاز ہوا تو بھی میرحاصل خان اپنے بیانیے پر قائم رہے حالانکہ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جب بڑے میرصاحب نے نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی تو میر حاصل خان اس وقت کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے وہ کراچی یونیورسٹی میں دوران تعلیم پروگریسو الائنس کے فعال رکن تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کے اولین چیلنجز تھے لیکن 1988ء کے انتخابات میں جب میرصاحب کو دونوں نشستوں پرشکست ہوئی تو میرحاصل خان کو شدید صدمہ پہنچا حالانکہ خود میرصاحب نے اس صدمہ کو بہادری کے ساتھ سہا تھا۔ اس شکست کے بعد انہوں نے اپنے والد کی سیاست کو آگے بڑھایا۔ دو سال بعد 1990ء میں میر بیزن اور میرحاصل خان میرصاحب کی ہاری ہوئی نشستوں پرکامیاب ہوگئے۔

ملکی سطح پر میرحاصل خان کے جوہر اس وقت کھلے جب 2014ء میں عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس سپریم کورٹ اور دارالحکومت کے اہم مراکز کی ناکہ بندی کرکے طویل دھرنا دیا۔ محمود خان اچکزئی کے مطابق جب وہ اور میر حاصل خان نوازشریف کے پاس گئے تو وہ سخت گھبرائے ہوئے تھے اور ان کاخیال تھا کہ طاقتور عناصر ان کی حکومت کو ختم کر کے چھوڑیں گے۔ پنجاب کے بیشتر ایم این اے ہوا کا رخ دیکھ کر ادھر ادھر ہوگئے تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دونوں رہنماؤں نے میاں صاحب کوعملی سہارا دے کر اٹھایا۔ وہ پریس کانفرنس تو سب کو یاد ہو گی کہ میاں صاحب کے دائیں طرف محمود خان اور بائیں جانب میرحاصل خان کھڑے تھے بعدازاں وہ انہیں پارلیمنٹ میں لائے جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے اراکین ڈٹ گئے اور عمران خان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

2018ء کے انتخابات میں شکست کے بعد میاں صاحب نے ووٹ کو عزت دو یا مجھے کیوں نکالا والی جو تحریک چلائی میرحاصل خان شانے سے شانہ ملا کر کھڑے تھے میاں نوازشریف کو جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کا مشورہ بھی انہوں نے دیا تھا۔

میرحاصل خان کی دوستی میاں رضا ربانی سے بہت گہری تھی۔ 18ویں ترمیم بنانے میں میرحاصل خان اور ڈاکٹر مالک کا بھی اہم کردارتھا۔ یہ جو پارلیمنٹ ہاؤس میں میاں رضا ربانی نے 1973ء کے آئین کی تشکیل میں حصہ لینے والے رہنماؤں کے مجسمے لگائے ہیں یہ مشورہ بھی میرحاصل خان نے دیا تھا۔ اگرچہ میرغوث بخش کے مقابلے میں میرحاصل خان کی شخصیت اور قد کاٹھ کم تھا لیکن انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنا مقام الگ سے بنایا۔ چند برسوں کے دوران انہوں نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ جمہوریت پسند حلقوں میں انکی توقیر کافی تھی اگرچہ وہ ایک بردبار اور تحمل مزاج شخصیت کے حامل تھے لیکن وہ دو مرتبہ غصے میں آئے ایک مرتبہ جب انہوں نے میاں صاحب کو قائل کیا کہ رضا ربانی کو چیئرمین کیلئے متفقہ امیدوار بنایا جائے گا لیکن زرداری صاحب نہ مانے اور جب صادق سنجرانی منتخب ہوگئے تو حاصل خان نے کہا کہ آج سب کا منہ کالا ہوگیا ہے۔

اس کے بعد جب ن لیگ نے انہیں چیئرمین کا امیدوار بنایا تو اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود وہ ہار گئے اس پر انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی پروا نہیں جو سچ ہے وہ بیان کریں گے اس موقع پر انہوں نے کہا کہ انکے پاس ایک جان ہے اگر لینا چاہتے ہو تو لے لو۔ یہ وہ وقت تھا جب انکے پھیپھڑوں میں کینسر کی تشخیص ہوچکی تھی۔ آغا خان میں پہلی کیموتھراپی کے دوران وہ رات کو کبھی کبھار فون پر بات کرتے تھے اور کالم پراظہار خیال کرتے تھے ان میں ایک وصف یہ تھا کہ وہ تنقید پر برا نہیں مانتے تھے میں نے کئی کالم ان کے خلاف لکھے تھے لیکن جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے ناراضگی محسوس نہیں ہونے دی ان میں ہمت اتنی تھی کہ کینسر ہونے کے باوجود وہ نہیں گھبرائے زندگی کے جتنے دن تھے انہوں نے حوصلہ کے ساتھ جئے۔ رؤف خان ساسولی کے بیٹے کی شادی میں ہم اکٹھے تھے کہا کہ سگریٹ دو۔ میں نے منع کر دیا کہنے لگے جو ہونا تھا ہو چکا، جلدی سگریٹ نکال کر دو۔ ایک سگریٹ کے کش لگانے کے بعد وہ چلے گئے۔

میرحاصل خان کیلئے ایک آزمائش 2013ء میں بلوچستان حکومت چلانا تھا کیونکہ یہ بہت نازک وقت تھا نیشنل پارٹی کو حکومت تو دے دی گئی لیکن وہ مشروط تھی۔ ڈھائی سال کی شرط کے علاوہ اس حکومت کواختیارات بھی نہیں دیئے گئے وزیراعلیٰ ڈاکٹرمالک تھے لیکن حکومت اور لوگ چلاتے تھے۔ اس حکومت کے دوران لاپتہ افراد کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ یہ الزام بھی مالک اور حاصل پر آیا کہ ہزاروں بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی اورمسخ شدہ لاشوں کی کارروائیوں میں ان کی حکومت شریک تھی۔ ڈھائی سالہ حکومت کے دور میں نیشنل پارٹی اور اسکی قیادت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا حالانکہ انہوں نے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے ملاقات اور بات چیت کا راستہ نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن طاقت کے عناصر نے ان کوششوں کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دی۔

گزشتہ ایک عشرے میں جو کچھ ہوا اس نے میرحاصل خان اور ڈاکٹر مالک کو بلوچ سماج کے ایک بڑے حصے میں متنازع بنا دیا۔ بدقسمتی سے انہیں صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں ملا کیونکہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ تشدد کا عنصر بہت بڑھ گیا ہے۔ سی پیک کے منصوبے نے حکمرانوں میں جلد بازی کا عنصر بڑھا دیا ہے۔ وہ کم سے کم وقت میں بلوچستان کے ساحل و وسائل پر اپنی دسترس چاہتے ہیں۔ اس جلد بازی کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بلوچستان کے طول وعرض میں آگ لگی ہوئی ہے جگہ جگہ خون بہہ رہا ہے لہٰذا اس نازک موقع پر فیڈریشن کی سیاست کرنا بہت دل گردے کا کام ہے۔ نیشنل پارٹی کے لئے ان حالات میں اپنے بیانیے کو بلوچ سماج میں رائج کرنا تقریباً ناممکن ہے ایک چیلنج یہ ہے کہ میر حاصل خان کا خلا کون پر کرے گا۔ ڈاکٹر مالک کی موجودگی میں پارٹی کیلئے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہو گا البتہ میرحاصل خان کے خاندان میں طویل سیاسی ورثہ کا تعین کرنا ایک مشکل معاملہ ہو گا۔

سیاسی اختلاف سے قطع نظرمیرحاصل خان بزنجو ایک وضع دارقدیم اور جدید روایات کی حامل شخصیت تھے وہ کسی طرح کے حالات سے گھبرانے والے نہیں تھے ان کے لبوں پر ہر وقت مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی۔ بلوچستان میں ان کی سیاست کے ناقد اور اختلاف رکھنے والے بہت زیادہ تھے۔ یہ بات آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ ان کی سیاست اور سیاسی بیانیہ کتنا صحیح اور کتنا غلط تھا۔ ان کے سانحہ ارتحال سے ریاست پاکستان بلوچستان میں اپنے ایک بڑے ستون سے محروم ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).