صوبہ بہاول پور کی بحالی اور نئے صوبوں کا قیام


کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اس ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی تقسیم پر ہے۔ جغرافیائی طور پر پاکستان کو یہ اعزا ز حاصل ہے کہ ہم آسانی سے اس کو پہاڑی، سطوح مرتفع، میدانی اور ساحلی علاقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں لیکن انتظامی تقسیم ہمیشہ رقبہ اور آبادی کو دیکھ کر ہی کی جاتی ہے۔ تقسیم پاکستان کے وقت انگریزوں نے ایک سازش کے تحت پاکستان کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کر کے نفاق کی پہلی اینٹ رکھ دی تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو پاکستان کی 60 فیصد آبادی صوبہ پنجاب میں رہتی ہے جہاں سب سے زیادہ پنجابی اور سرائیکی آباد ہیں۔ لسانی تعصب کو ہوا دینے کے لئے جہاں کچھ لوگ اس کو سرائیکی اور پنجابی صوبہ میں تقسیم کرنے کے درپے ہیں، وہاں کچھ اہل علم ایسے بھی ہیں جو پنجاب کی تقسیم کے خلاف ہیں اور گنڈاسہ لے کر میدان میں اتر پڑتے ہیں کہ پنجاب کی تقسیم کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ لیکن شاید ان کو یہ بات بھول جاتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم کی بنیاد 1947 ء میں انگریز پہلے ہی رکھ چکے ہیں۔

کسی بھی ملک کو انتظامی طور پر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں اور خطوں کے مسائل کو سامنے رکھ کر وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو سکے اور اس کا نظم و نسق اس انداز میں چلایا جا سکے کہ تمام باشندگان کو نہ صرف روزگار کے بہتر مواقع مل سکیں بلکہ اس کے ہر خطے کے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے۔ جس کی بہترین مثال 51100 مربع کلو میٹر پر مشتمل کوسٹا ریکا جیسے ملک کی ہے جس کے 7 صوبے ہیں جبکہ اس کے 40 مربع کلومیٹر رقبہ پر پانی نے اپنا تسلط بھی جمایا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستا ن کا رقبہ اور آبادی ہم سے کم ہے لیکن وہ 34 صوبوں پر مشتمل ہے جبکہ سوئٹزر لیند کا 41285 مربع کلو میٹر، آبادی 8.57 ملین اور اس کے صوبوں کی تعداد 26 ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتاچلوں کہ پیرو جیسے ملک کے صوبوں کی تعداد 195 ہے جبکہ اس کی کل آبادی 31.99 ملین ہے۔

اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں وفاقی طرز حکو مت ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد زیادہ تر اختیارات صوبوں کو تفویض کر دیے گئے ہیں جبکہ وفاق کے پاس دفاع، کرنسی اور امور خارجہ جیسے اہم کام ہی رہ گئے ہیں۔

اگر بات کی جائے سابق صوبہ بہاولپور اور ریاست بہاولپور کی تو بہاول پور سٹیٹ گزیٹئیر 1904 ء کے مطابق اس وقت دارلسرور، مملکت خداداد ریاست بہاول پور کا کل رقبہ 15918 مربع میل تھا۔ اس میں سے آج بھی کم از کم 10000 مربع میل، چونسٹھ لاکھ ایکڑ رقبے پر بے آباد و گیاہ صحرائے چولستان پھیلا ہوا ہے جس کی آب پاشی کے لئے محسن پاکستان نواب صادق محمد عباسی پنجم نے ستلج ویلی پراجیکٹ کے نام ایک باقاعدہ منصوبہ شروع کیا تھا اور اس کی تکمیل کے لئے انگریز سرکار سے قرض بھی لیا جو بعد میں ادا کر دیا گیا۔

اس پراجیکٹ کی تعمیر سے ریاست کے آب پاشی نظام میں گویا ایک انقلاب آ گیا۔ اس منصوبے کے تحت ریاست میں تین ہیڈ ورکس ’چھ بڑی نہریں اور کئی ایک چھوٹی نہریں نکال کر آبپاشی کا جال پھیلایا گیا۔ اچ کے قریب پنجند ہیڈ ورکس اور دریائے ستلج پر سلیمانکی اوراسلام ہیڈ ورکس بنائے گئے۔ ہیڈ سلیمانکی سے نہر صادقیہ اور فورڈ واہ نکالی گئیں جو ریاست کے مشرقی حصے کو سیراب کرتی تھیں۔ ہیڈ اسلام سے بہاولپور کینال اور قائم پور کینال نکالی گئی۔

یہ ریاست کے وسطی حصہ کو سیراب کرتی تھی جبکہ پنجند سے عباسیہ کینال اور پنجند کینال نکالی گئی۔ 1892 ء کی دستاویز کے مطابق ریاست بہاولپور میں چھوٹی بڑی نہروں کی تعداد 43 اور ان کی مجموعی لمبائی 999 میل یعنی 1600 کلو میٹر تھی۔ حالانکہ اس وقت ریاست کی آبادی صرف ساڑھے چھ لاکھ تھی اب جبکہ پورے ڈویژن کی کل آبادی 1.14 کروڑ ہو چکی ہے، ان نہروں کی مجموعی لمبائی پہ کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ سندھ طاس معاہدہ کے شق 4 ( 1 ) میں تحریر ہے کہ مشرقی دریاؤں سے نکلنے والی نہروں کے لئے متبادل نظام کے طور پر 6 نئی رابطہ نہریں تعمیر کی جانی تھیں جبکہ تریموں اسلام لنک کے ذریعے ہیڈ اسلام اور اس سے نکلنے والی نہروں کو پانی فراہم کیا جانا تھا۔

(اس مجوزہ لنک کینال کی گنجائش بیس ہزار کیوسک ہے ) ان انہار کی تعمیرکے لئے پاکستان کوچھتیس ارب روپے دیے گئے۔ لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اس رقم سے سندھ طاس معاہدہ میں تجویز کی گئی تمام متبادل نہریں تعمیر توہوچکی ہیں لیکن صرف وہ نہر تعمیر نہیں کی گئی جس کے ذریعے دریائے ستلج کو پانی مہیا کیا جانا تھا حالانکہ اس کو 3 مارچ 1967 ء تک تعمیر ہونا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں تخت لاہور کے دریائے راوی کو آٹھ متبادل ذرائع سے پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور چولستان کا لاکھوں ایکڑ رقبہ اس وقت بھی بنجر اور ناقابل کاشت ہے یہاں تک کہ پانی نہ ہونے کے باعث چولستان کو سیراب کرنے کے لئے 1930 ء میں بنائی گئی کچھ نہریں ریت کے ٹیلوں سے اٹ چکی ہیں جس کی واضح مثال قلعہ ڈیراور کے علاقے کو سیراب کرنے والی نہر ہے جس کے آثار بھی معدوم ہو چکے ہیں۔

2019 ء کے فنانس ڈویژن کے ایک سروے کے مطابق 67.2 فیصد خواتین اور 30.4 فیصد مردوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے لیکن بہاولپور جیسا ایک ایسا علاقہ جہاں صنعتی ترقی کی رفتار بارش کی سالانہ شرح کی طرح انتہائی کم ہے وہاں اگر زمینوں کی آب پاشی کے لئے پانی بھی نہیں ہو گا تو زرعی پیداوار بھی خاطر خواہ نہیں ہو گی جس کا براہ راست اثر کسان اور مزدور پر پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ یہی صوبہ بہاولپور ہی تھا جس کا 1955 ء میں ملکی زرمبادلہ میں 120 ملین روپے حصہ تھا جبکہ پورے صوبہ پنجاب کا 250 ملین روپے تھا۔

ریاست بہاولپور کے پاکستان میں انضمام اوراس کی صوبائی حیثیت کا یقین دلانے کے لئے تو 9 مئی 2012 ء کی اس قرارداد کی منظوری کے ولفاظ ہی کافی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ ”صوبائی اسمبلی کے اس ایوان کی رائے ہے کہ بہاولپور کی عوام جو ایک طویل عرصے سے بہاولپور صوبہ کی جدو جہد کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ نیا صوبہ بنانے کا نہیں بلکہ سابقہ صوبے کو بحال کرنے کا ہے“ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہاولپور کی عوام اپنے الگ اور سابقہ صوبے کی بحالی کا ہی مطالبہ کیوں کرتے ہیں جبکہ اہل ملتان اور جنوبی پنجاب کی تمام عوام ایک بڑے صوبے کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ چھوٹے صوبوں کی بدولت نہ صرف وسائل کی منصفانہ تقسیم بہت آسان ہے بلکہ انصاف، روزگار اور تعلیم جیسے اہم شعبہ جات کا نظم و نسق چلانا بہ نسبت ایک 11 کروڑ آبادی والے صوبے کے بھی بہت آسان ہے۔ اس کے علاوہ جب این ایف سی ایوارڈ کا 42 فیصد حصہ صرف ایک صوبے کو دے دیا جائے گا تو چھوٹے صوبوں میں لامحالہ احساس محرومی پیدا ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاسی کرتا دھرتا جنوبی پنجاب کی عوام کے ساتھ سوتیلا سلوک کرتے ہوئے یہ بھی صرف لاہور جیسے بڑے شہر کی اورنج ٹرین اور میٹرو بس پر لگا دیں گے تو وسائل سے محروم عوام کے دل میں نفرت ہی پیدا ہو گی۔

حال ہی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب کی عوام کو لولی پاپ کے طور پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ دے دیا گیا ہے جس کا مقصد سوائے پریس کانفرنس کرنے اور میڈیا میں خود کو زندہ رکھنے کے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ سیکرٹریٹ بہاول پور کو این ایف سی ایوارڈ میں سے حصہ دے سکتا ہے؟ کیا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بہاول پور کے بے آب و گیاہ چولستان کو پانی کی فراہمی کے لئے کوئی لنک کینال کھود کے دے سکتا ہے؟ کیا اس سیکرٹریٹ کے تحت جنوبی پنجاب پبلک سروس کمیشن الگ سے بنایا گیا ہے یا نہیں؟

یہ ہیں وہ سوال جو بھولی بھالی عوام کے دلوں میں ان خدشات کو قوی کرتے ہیں کہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ہی اس حکومت کا فرض اولین ہے۔ اس لئے موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کی اتفاق رائے سے پاکستان کو مزید چھوٹے چھوٹے صوبوں اورانتظامی یونٹ میں تقسیم کیا جائے تا کہ احساس محرومی کا شکار مختلف علاقوں کے لوگوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ، دریائی پانی اور ترقیاتی بجٹ میں برابر حصہ مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).