سماج میں عدم برداشت کا بڑھتا رجحان


عفو و درگزر، اتحاد، صلہ رحمی، برداشت، انصاف کی فراہمی، اور صبر و تحمل ایک مضبوط معاشرے کی اکائی ہوتی ہیں۔ ان اکائیوں کے مربوط اور منظم رہنے میں ہی معاشرے کی بقا مضمر ہے۔ اگر معاشرہ ان خوبیوں سے محروم ہو تو انتہا پسندی، عدم برداشت، معاشرتی بے راہروی جیسے برائیاں جنم لیتی ہیں۔

وطن عزیز کی بات کریں تو گزشتہ چند دہائیوں سے پارلیمنٹ کے اعلی ایوانوں سے جھونپڑیوں تک عدم برداشت بہتان تراشیاں انتہا پسندی جیسی معاشرتی بے راہروی ہمارے رویوں میں کافی حد تک سرایت کر چکی اور اس میں اضافے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بد قسمتی سے دنیا بھر میں متشدد واقعات اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور مملکت خداداد کا حال باقی ممالک سے زیادہ پریشان کن ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف نظریات کے حامل لوگ سوشل میڈیا پر آئے روز بحث و مباحثوں میں دلیل کی بجائے گالی گلوچ سے دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی نظریات کے حامل افراد اکثر اپنے نظریات کو دلیل کی بجائے نا مناسب انداز گفتگو سے درست ثابت کرنے پر تلے ہیں۔

آئے روز ٹیلی ویژن پر پروگرامز میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی گتھم گتھا ہوتے نظر آتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بجٹ کی منظوری کے موقع پر ہونے والی ہاتھا پائی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو گھریلو ملازمین کے ساتھ ہونے والے سلوک کی روداد بھی ٹیلی ویژن پر آئے روز نشر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں مالک کے پنجرے سے طوطا اڑانے پر کم عمر ملازمہ کو قتل کرنے کا اندوہناک واقعہ بھی سوشل میڈیا پر اور مین سٹریم میڈیا پر زیر گردش رہا۔

عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر انسان کی غیرت کو للکارا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں سوچے سمجھے بغیر قتل و غارت گری خونریزی پر اتر آتے ہیں کئی بے گناہ لوگ بھی اس خونریزی کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اس طرح معاشرے میں بد امنی اور خوف ہراس کی فضا جنم لیتی ہے۔ خواتین کے ساتھ ظلم و تشدد کے واقعات معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوں یا پھر بے قصور لوگوں کے ساتھ نا انصافی کے واقعات ہوں مذکورہ بالا تمام واقعات ہمارے رویوں میں پائی جانے والی عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھرپور عکاسی کرنے کے لیے کافی ہیں۔

بلاشبہ اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہمارے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویشناک بھی ہے۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں میں عدم برداشت کیوں پیدا ہو رہی ہے۔ اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جائے تو مختلف حقائق سامنے آتے ہیں جن میں عوام کی اکثریت زیست کے مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے جن میں روزگاری غربت نا انصافی حصول تعلیم میں درپیش مشکلات حفظان صحت کی ناکافی سہولیات ریاستی اداروں کی جانب سے ناروا سلوک جیسی کئی مشکلات کا سامنا ہے

یہ وہ تمام عوامل ہیں جو معاشرے میں عدم برداشت کی فضا قائم کر چکے ہیں جو ہم سب کی الجھنوں میں اضافے کا سبب بنتی جا رہی ہے جس کے نتیجے لوگوں کی اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔

اب ضرورت ہے کہ روک تھام کے لیے مناسب اور عملی اقدامات کیے جائیں، سکول کالجز میں سمینار کا انعقاد کروایا جائے، مین سٹریم میڈیا پر اور سوشل میڈیا پر لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی موثر مہم چلائی جائے۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے نصاب میں تبدیلی کی جائے جس سے نئی نسل کو مثبت سمت سے روشناس کروایا جا سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر لیں معاشرے میں امن واپس لوٹ سکتا ہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ تشدد، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رویوں سے جان چھڑائی جائے۔ بہترین اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور انسانیت کی تکریم کی جائے۔۔۔

تو آئیے
عدم برداشت، مزاج میں تلخی، جذباتی ہونا، بلاوجہ
تنقید اور غصہ۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑے بڑے مسائل لاتی ہیں۔ برداشت والا انداز اپنائیں
زندگی خوبصورت ہے اسے خوبصورت
محبت بھرے لمحات میں گزاریں۔ ۔ !
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرت
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).