نوشابہ کی ڈائری (13): ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکنوں کا آپس میں تبادلہ


3 مارچ 1990

کل پڑوس میں میلاد تھا، قادر کے آنے کی خوشی میں۔ وہ واقعی موت کے منہ سے نکل کر آیا ہے۔ جب پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ہاتھوں قادر کے اغوا کا پتا چلا تھا تو پہلا خیال یہی آیا تھا کہ اب اس کا زندہ واپس آنا ممکن نہیں، پڑوسن خالہ تو بیٹے کے اغوا کا سن کر نیم پاگل ہو گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے مغوی کارکنوں کی ماؤں کا بھی یہی حال ہوا ہوگا۔ وہ تو فوج نے آگے بڑھ کر دونوں جماعتوں کے مذاکرات کرائے۔ پورے تین دن چلے تھے مذاکرات، جیسے دو ملک قیدیوں کے تبادلے کی بات چیت کر رہے ہوں، تینوں دن پڑوس میں آیت کریمہ کا ورد ہوتا رہا تھا۔

اخبار میں تھا کہ کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز کی ہدایت پر فوج بیچ میں پڑی پھر دونوں نے ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکنوں کا آپس میں تبادلہ کیا۔ کچھ ہی عرصے میں فوج نے یہ دوسری بار لوگوں کی جان بچائی ہے۔ پچھلے سال حیدرآباد پولیس نے لوگوں پر قیامت ڈھائی تھی تب بھی فوج ہی کام آئی تھی۔ غنی بھائی بتا رہے تھے کہ پولیس نے جب اچانک پکے قلعے کا محاصرہ کیا تو پہلے بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی بند کردی۔ عورتیں بھوک سے روتے بلکتے بچوں کو لیے سروں پر قرآن رکھ کر رحم کی اپیل کرتی گھروں سے نکلیں لیکن رحم تو کیا کیا جاتا ان پر گولیاں برسا دی گئیں۔ پولیس والے دو دن تک پکا قلعہ گھیرے رہے تھے۔ آخر مکینوں کی بیس جانیں لے کر قلعہ فتح کر لیا گیا۔ پھر فوجی آئے اور انھوں نے لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچایا، حالات سنبھالے۔ انھیں آنا ہی تھا تو پہلے کیوں نہیں آئے؟ خیر کوئی مجبوری ہوگی۔ کہتے ہیں قلعے کے اندر اسلحہ تھا، دہشت گرد تھے۔ تھا بھی تو قلعے میں بسنے والے عام لوگوں کا کیا قصور؟

جب سے مہاجر قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کا معاہدہ ختم ہوا ہے اور ایم کیو ایم اسلامی جمہوری اتحاد سے سمجھوتا کر کے حزب اختلاف میں شامل ہوئی ہے تب سے یہاں یہی کچھ ہورہا ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات، حملے، قتل۔ کبھی ان دونوں جماعتوں کے نام پر کبھی سندھی مہاجر کے نام پر۔ اب اسٹیل مل بھی میدان جنگ بن گئی ہے۔ وہاں بھی ایم کیو ایم اور جیے سندھ میں تصادم کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہو گئے کہ فوج کو آنا پڑا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ سندھی اور مہاجر دونوں روتے ہیں کہ نوکریاں نہیں ملتیں، اور اسٹیل مل ہے وفاقی ادارہ، وہاں اتنے سارے مہاجر اور سندھی کیسے بھرتی ہو گئے؟ سوچتی ہوں پنجاب میں تو پیپلز پارٹی اور نواز شریف آمنے سامنے ہیں، ایک ضیاء الحق کا منہ بولا بیٹا دوسری ضیا کو بھٹو کا قاتل سمجھنے والی، مگر وہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ بھائی جان کہتے ہیں ”وہاں دونوں طرف پنجابی ہیں نا اس لیے۔ یہاں بھی دونوں طرف صرف مہاجر ہوں تو کم ازکم ایک دوسرے کی جان نہیں لیں گے۔“

اتنی لاشیں گر چکی ہیں اور الطاف حسین کہتے ہیں ”سندھو دیش کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، سندھو دیش ہماری لاشوں پر بنے گا۔“ پہلے تو جی ایم سید کے وکیل بنے رہے اور مشرقی پاکستان میں بہاریوں کے حال کی مثال پیش کرتے رہے، اب لاشیں پیش کرنے کو تیار ہیں۔ کچھ بھی ہو، الطاف حسین کی تقریر سننے کے قابل ہوتی ہے۔ کیا روانی اور جوشیلے انداز میں بولتا ہے، سن کر خون جوش مارنے لگتا ہے۔

میں نے پہلی بار اس کی تقریر سنی، متحدہ حزب اختلاف کے جلسے میں۔ کتنا بڑا جلسہ تھا اف، لوگ ہی لوگ، سر ہی سر، پوری شاہراہ قائدین یہاں سے وہاں تک بھری ہوئی تھی، لوگ دور دور تک سڑکوں پر اور گلیوں میں پھیلے تھے۔ الطاف حسین کے تقریر کے لیے آتے ہی کیا زوردار نعرے لگے ہیں، لگتا تھا شور سے زمین ہلنے لگی ہو، مگر جوں ہی اس نے کہا ”ایک، دو، تین“ ہر طرف قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ تقریر کرتے ہوئے جب الطاف حسین نے ایم کیو ایم کو مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو ”تکبیر“ کے مدیر صلاح الدین نے اسے بڑھ کر گلے لگا لیا۔

پتا نہیں صلاح الدین مہاجر ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کے سخت خلاف کیوں ہیں؟ ان کا رسالہ تکبیر کبھی کبھی پڑھ لیتی ہوں۔ شمن دادا کے کوئی دوست تکبیر میں ہیں، ان کی وجہ سے شمن دادا کے ہاں تکبیر مفت میں آتا ہے ہر ہفتے۔ میں چھپا کر لاتی ہوں، کہیں کوئی دیکھ کر یہ نہ سمجھے کہ میں جماعتی ہوں۔ تکبیر کے ایک شمارے کے سرورق پر جلی ہوئی لاشوں کی تصویر دیکھ کر دل بہت خراب ہوا تھا۔ شکر ہے ٹی وی اور اخبارات میں ایسے منظر اور تصویریں نہیں ہوتیں۔ سب کہتے ہیں صلاح الدین جماعتی ہیں، اس لیے ایم کیو ایم کی مخالفت کرتے ہیں، اور یہ جماعتی ایم کیو ایم سے کیوں بیر رکھتے ہیں، جماعت اسلامی کے تو بانی بھی مہاجر تھے، حنیف رامے نے عجیب حرکت کی اپنی کتاب ”پنجاب کا مقدمہ“ میں مولانا مودودی کو پنجاب کا لکھا ہے، انھوں نے تو مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی پنجابی قرار دیا ہے۔

پنجاب کا مقدمہ میں اردو بولنے والوں کو بھیا کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور پنجاب پر اردو ”مسلط“ کرنے کی ذمے داری ”بھیا فوج“ اور ”بھیا افسرشاہی“ پر ڈال دی گئی ہے۔ مجھے ”پنجاب کا مقدمہ“ پڑھنے کا شوق شکیل احمد ضیاء کی کتاب ”سندھ کا مقدمہ“ پڑھ کر ہوا تھا، سو خرید کر پڑھ ڈالی۔ پنجاب کا مقدمہ کے جواب میں لکھی جانے والی سندھ کا مقدمہ دراصل اردو بولنے والوں کا مقدمہ ہے۔ کچھ عرصے سے سیاسی کتابیں بہت شایع ہو رہی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہیں۔ میں بھی ادبی کے ساتھ سیاسی کتابیں خرید خرید کر لاتی رہتی ہوں یا شمن دادا سے لے کر پڑھتی ہوں۔

یہ شہر واقعی الطاف حسین کے اشاروں پر چلتا ہے، اسی لیے تو اتنی کام یاب ہڑتال کی ایم کیو ایم نے۔ ہر سڑک، سارے چوراہے، بازار، گلی گلی سناٹا تھا، چھوٹے چھوٹے کیبن تک بند تھے۔ خوف بھی تو بہت تھا کوئی نکلتا بھی تو کیسے، کتنی ہی گاڑیاں جلادی گئیں، ایک خاتون ڈاکٹر سمیت سڑکوں پر نکلنے والے کئی لوگ گولیوں کی زد میں آ کر مارے گئے۔ ہڑتال والے دن کے بعد بھی لوگ مرتے رہے، جلی ہوئی لاشیں ملیں۔

اس ہڑتال اس کے برعکس یوم کشمیر پر کراچی میں سب کچھ کھلا تھا۔ مجھے امی کے ساتھ لیاقت مارکیٹ جانا تھا مگر جب پتا چلا کہ یوم کشمیر کی وجہ سے سب بند ہوگا تو ہم رک گئے، ابو بھی دکان جانے کے بجائے گھر پر تھے۔ لیکن جب کچھ لڑکوں نے گھر پر آ کر ابو کو بلایا اور کہا ”چچا! دکان کیوں نہیں کھول رہے، ہمارے اوپر ظلم ہو تو کئی ساتھ نہیں دیتا، ہم کیوں دوسرے کے مسئلے پر کاروبار بند کریں، چلیں دکان کھولیں“ تو ابو چابی لے کر دکان کی طرف چل دیے۔ میں نے ان لڑکوں سے پوچھا ”لیاقت مارکیٹ کھلی ہے“ کہنے لگے ”ہاں باجی سب کھلا ہے۔“ یہ سنتے ہی میں اور امی مارکیٹ کے لیے نکل کھڑی ہوئیں، واقعی ساری دکانیں کھلی تھیں۔ لگتا ہے جس طرح ابو کو گھر سے بلا کر دکان کھلوائی گئی اسی طرح یہ دکانیں بھی کھلوا دی گئیں۔ تو طے ہوا کہ پورے ملک میں کچھ بھی ہو، کراچی میں وہی ہوگا جو ایم کیو ایم چاہے گی۔

لیاقت مارکیٹ بھی بھول بھلیوں کی طرح ہے۔ امی ساتھ نہ ہوں تو میں تو وہاں جاکر واپسی کا راستہ ہی ڈھونڈتی رہ جاؤں۔ امی اپنے سونے کے زیور لے گئی تھیں، جھومر اور ہار، میرا سیٹ بنوانے کے لیے۔ امی نے ابھی سے میرے جہیز کی تیاری شروع کردی ہے۔ یہ خیال مجھے مسرور کر دیتا ہے کہ شادی کے بعد میں ساڑھی باندھ سکوں گی۔ بہت سی باتوں کی طرح یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہمارے خاندانوں میں کنواری لڑکی ساڑھی کیوں نہیں باندھ سکتی اور شادی ہوتے ہی ساڑھی باندھنے کی اجازت کیوں مل جاتی ہے۔

اللہ کرے جہیز میں بہت ساری ساڑھیاں ملیں۔ ملیں گی تو، باجی کو بھی دی تھیں۔ ساڑھی میں عورت کتنی باوقار لگتی ہے۔ پلو سنبھال کے دھیرے دھیرے چلنا، ہائے۔ کہتے ہیں ساڑھی بھرے بھرے بدن پر اچھی لگتی ہے، لیکن بوا تو بالکل سینک سلائی ہیں، پھر بھی سفید ساڑھی ان پر کتنی جچتی ہے۔ سفید سرمئی بال، آج تک حساب نہیں لگا پائی کہ ان کے بال سفید زیادہ ہیں یا سرمئی زیادہ۔ ہمارے گھر سے تین گھر چھوڑ کر رہتی ہیں، مگر اپنے گھر میں رہتی کب ہیں۔ دن بھر محلے میں کسی نہ کسی عورت کے پاس بیٹھی پائی جاتی ہیں۔ اپنے بہاری لہجے میں جب تیز تیز بولتی ہیں تو بہت سے الفاظ اوپر سے گزر جاتے ہیں۔

اپنے چھوٹے بھائی رفیع الزماں کے ساتھ رہتی ہیں، انھیں بڑی لہک کر رفو کہتی ہیں شوہر اور بیٹا بنگلادیش کے کیمپ میں ہیں۔ بتا رہی تھیں ”ہمارا گاؤں پٹنہ کے پاس ہی تھا۔ سینتالیس میں حملہ ہوا، ابا اماں اور بڑی بہن مارے گئے، بڑے بھیا ہمیں اور رفو کو لے کر بچتے بچاتے چھپتے چھپاتے مشرقی پاکستان پہنچے۔ وہاں اچھے خاصے جم گئے تھے، مگر پھر اجڑ گئے۔ مکتی باہنی والوں نے ہماری بستی میں ایک ایک کو کاٹ کر رکھ دیا۔ بڑے بھیا، بھابھی اور ان کے تینوں بچے بھی مارے گئے، رفو میاں کہیں باہر نکلے ہوئے تھے اس لیے بچ گئے۔

ہمارا گھر پچھلی گلیوں میں تھا، ہمارے شوہر نے شمسو کو گود میں اٹھایا، ہمارا ہاتھ پکڑا اور ایسا دوڑے کہ ایک ٹھو مرتبہ بھی مڑ کر نہ دیکھے۔ اچانک دیکھا سامنے سے یہ جتھے کا جتھا بڑی بڑی بندوقیں لیے آ رہا ہے۔ پھر پتا نہیں کیسے ہاتھ چھوٹا، ہم کون گلی میں گئے او کون رستے پر، کچھ نہیں پتا۔ ہم گلیوں گلیوں سڑک پر جیسے ہی پہنچے کسی نے بنگلا بھاشا میں ڈپٹ کر کہا رک جاؤ! جان ہی نکل گئی بھیا، دیکھا تو ہندوستانی فوجی تھے۔ ہمیں ٹرک میں بٹھا لیا، اور بھی لوگ بیٹھے تھے، ہمارا رفو بھی تھا، روتا ہوا آ کر ہم سے لپٹ گیا۔ کچھ دن کیمپ میں رہے، پھر جاننے والے خاندانوں کے ساتھ جنگل، دریا، میدان، پھلانگتے دوبارہ بہار پہنچے، سوچا تھا وہیں ٹک جائیں گے، مگر کسی رشتے دار نے شکایت کردی کہ یہ پاکستانی ہیں۔ وہاں سے پھر نکلے اور بھیا آخر کراچی پہنچ گئے۔“

بوا کو کئی سال بعد بنگلادیش سے آنے والے کسی عزیز نے ان کے شوہر اور بیٹے شمس کے زندہ اور کیمپ میں مقیم ہونے کی اطلاع دی، اس دن سے دونوں کے مرجانے کا غم ملنے کے انتظار کے کرب میں ڈھل گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل حکومت نے جب بنگلادیش سے محصورین کی پہلی کھیپ لانے کا اعلان کیا تو بوا نے بھی آس باندھ لی تھی، لیکن سندھی قوم پرستوں کے احتجاج کے بعد حکومت پیچھے ہٹ گئی اور بوا کی آس ٹوٹ گئی۔ کہہ رہی تھیں ”ارے ایک ٹھو بار یہاں لے آتے پھر چاہے واپس وہیں بھیج دیتے، ہم مرنے سے پہلے دیکھ تو لیتے اپنے شمسو کو، اس کے ابا کو۔“

شمن دادا کہتے ہیں، ”محصورین کو ضد چھوڑ کر بنگلادیش کی شہریت لے لینی چاہیے اور وہیں بس جانا چاہیے۔ ایک تو ان کے پاکستان آنے کا کوئی امکان نہیں، اور اگر وہ یہاں آ بھی گئے تو لاکھوں کی تعداد میں آنے والے بہاری کراچی میں بس کر خود کراچی والوں کی نظر میں کھٹکنے لگیں گے۔ پھر بہاری اور غیر بہاری کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ یہی ہوتا ہے، حیدر آباد دکن اردو بولنے والوں کی زیر اقتدار ریاست تھی، لیکن جب تقسیم کے وقت جب وہاں یوپی وغیرہ کے اردو بولنے والے مسلمان گئے تو انھیں ملکی اور غیرملکی، وطنی اور غیر وطنی کی تقسیم اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ دادو سے ہزاروں سندھی اٹھ کر لاڑکانہ میں جا بسیں تو ان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہوگا۔

اتنی بڑی تعداد میں آنے والوں کو قبول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہماری سوچ، مسائل اور ترجیحات وقت اور حالات کے ساتھ بدل جاتے ہیں، جب جی ایم سید نے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو سندھ آ کر بسنے اور سندھی مسلمانوں کو ہندوؤں کے استحصال سے نجات دلانے کی اپیل کی تھی اس وقت سندھ کے مسلمان کا مقابلہ اپنے ہم زبان ہندو سے تھا۔ جب صورت حال بدل گئی تو سوچنے کا انداز بھی بدل گیا۔ پھر سرحد پار سے آنے والے ریلوں نے انھیں اقلیت بننے کے خطرے سے دوچار کر دیا۔ قصور نہ آنے والوں کا تھا نہ یہاں بسنے والوں کا تھا۔ بس تاریخ اپنا کام کر کے ہمیں حالات کے حوالے کرتی گزر گئی۔ ویسے ہی جیسے ایک کہانی لکھنے والے کو پلاٹ سے غرض ہوتی ہے، اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کرداروں پر کیا گزرے گی۔ کاش مسلم قوم کا نعرہ لگانے والے راہ نماؤں نے تمام مسائل اور حقائق کا ادراک کیا ہوتا۔“

بوا کا دکھ، شہر کے حالات، لوگوں کی باتیں، شمن دادا کے خیالات۔ ۔ ۔ ذہن میں سب کچھ گڈمڈ ہو گیا ہے، کھچڑی سی پک رہی ہے۔ کتنا سوچوں، چھوڑو دفع کرو، سردی سی لگ رہی ہے، اب میں اجرک اوڑھ کر سو رہی ہوں۔ یہ اجرک ابو کے دوست نبی بخش لاشاری کی اماں نے دی تھی جب ہم ان کے گھر گئے تھے۔ مجھے، امی اور باجی کو اپنے ہاتھ سے اجرک اڑھائی تھی۔ کتنی خوب صورت ہے یہ اجرک اور اسے اوڑھ کر ملنے والی حرارت میں آتی پرسکون نیند۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: الطاف حسین کو پیرصاحب کہنے لگے ہیںنوشابہ کی ڈائری: ایم کیوایم والے کہہ رہے ہیں، ”فائنل راؤنڈ“ ہونا ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).