اشکومن وادی، اتر جھیل اور مضروب پاؤں


یہ دوستوں کی اصرار سے بھی زیادہ میری خواہش تھی کہ کہی پہاڑوں میں گم ہو جائیں، اٹر جھیل سے براستہ درکوت یاسین نکل جائیں، ایمت سے قرمبر جھیل تک کا سفر کیا جائے، ہنزہ نگر کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چائنہ بارڈر پر نکل جائیں، چیلاس، داریل اور تانگر میں کچھ دن گزار کر دیوسائی کی دیدار کرنے استور کا رخت سفر باندھ لیا جائے اور بلتستان کی منفرد، زبان، روایات، رسم و رواج خوبصورت لوگ دیکھنے سکردو، شگر، کھرمنگ اور روندو کا رخ کیا جائے۔

مگر انسان کے بس میں کیا ہے صرف خواہشات دل میں تھام کر پھرتا رہتا ہے، عملاً وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، انسان کی اوقات اتنی ہے کہ رات کو سو کر صبح صحیح سلامت بستر سے اٹھنے کی گارنٹی بھی نہیں دیتا ہے۔

کرونا وائرس نے ہمیں بھی دھمکی دی کہ جب تک میں اپنی آپ و تاب سے دنیا پر حکمرانی کر رہا ہوں تب تک آپ نے گھر سے باہر نکلنے کی ہرگز کوشش مت کرنا ورنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم ڈرے سہمے اور پسے لوگوں میں اتنی کہاں مجال کہ کرونا وائرس جیسے جان لیوا مرض کو چیلنج کر سکے۔ ہم نے وبا کے شروع شروع کے دنوں میں خود کو گھر میں قرانطینہ کر دیا، سماجی دوری کو اپنایا، عوامی اجتماعات میں جانے سے گریز کیا، اور بھرپور انداز میں حکومتی احکامات کی پیروی کی کہی ہماری معمولی سی غفلت سے کسی کو نقصان اٹھانا نہ پڑے۔

سوشل میڈیا سے وابستگی کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم وبا کے دنوں میں ہر خبر پر نظر رکھتے تھے۔ کبھی کرونا سے اموات کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا تھا کبھی حالات تھوڑے نارمل ہوتے تھے۔ پاکستانی حکومت کو کرونا سے بھی زیادہ اس بات کا دکھ تھا کہ کہی لوگ بھوک سے نہ مرجائے اس لیے حکومت نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی SOPs جاری کرنے کے بعد مختلف شعبوں کو کھولنے کا اعلان کر دیا اس میں سیاحت کا شعبہ نمایاں تھا۔

گلگت بلتستان میں سیاحت کا شعبہ کھولنے کی خبر سن کر ہم نے ارادہ کر لیا کہ اب کوشش کر کے گلگت بلتستان کے سیاحی مقامات کا وزٹ کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں دوستوں سے رابطے کرنا شروع کیا تو سب نے اپنی اپنی رائے دی اور دن بھی طے ہوا کہ ہم فلاں دن کو فلاں جگہ چلے جائے گے۔

مگر اسی دن سیڑھیاں اترتے ہوئے معمولی سی پھسلن سے راقم کے دائیں پاؤں پر شدید چوٹ آئی۔ دس منٹ بعد اتنا درد ہوا کہ بستر سے اٹھ نہیں سکتا۔ دوسرے دن ایکس رے کروا کر ڈاکٹر نے چیک اب کر کے بتایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ہڈی میں کسی قسم کا فریکچر نہیں ہے معمولی سا زخم ہے ٹھیک ہو جائے گا، کچا پلستر کر کے کہا کہ ایک ہفتے تک آرام کرو اور ادوایات کا استعمال وقت پر کرنا۔

ہم نے ڈاکٹر صاحب کے احکامات پر سنجیدگی سے عمل کیا ایک ہفتے تک بالکل آرام کیا اور ادویات کا استعمال بھی وقت پر کیا۔ ایک ہفتے بعد کچا پلستر خود اٹھایا اور بیساکھی کی مدد سے چلنے کی کوشش کی مگر صحیح سلامت چلنا ممکن نہیں ہوا تھوڑا سا چلنے کی کوشش کی پاؤں سوجنے لگا اور درد کی شدت بھی پڑھ گئی۔ پھر سے ہم نے فیصلہ کیا کہ شاید جسم کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے پاؤں پر وزن پڑتا ہے اس لیے مزید آرام کیا جائے تاکہ جلد از جلد پاؤں کا زخم ٹھیک ہو جائے گا۔

ایک ہفتہ مکمل آرام کے بعد چلنے کی کوشش کی تو درد کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور سوجن بھی پڑھ گئی۔ اس عالم سے ہم پریشان تھے کہ زخم بڑھتا گیا جوں جوں دوا کہ اب کیا کیا جائے؟ بیگم صاحبہ بھی ہماری حالت دیکھ کر پریشان تھی، گھر والے اور احباب نے مشورہ دیا کہ کسی پرائیویٹ ہسپتال سے ایکسرے اور کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اب کرایا جائے۔ دوسرے دن ہم نے پرائیویٹ ہسپتال سے ایکسرے کروایا اور ڈاکٹر نے وہی ادوایات اور مشورے دیے جو سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر نے کہا تھا۔ ایک ہفتے مکمل آرام کرنے کے بعد چلنے کی کوشش کی وہی پاؤں میں شدید درد اور سوجن پڑھتا گیا۔ سمجھ نہیں آتا کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ یہ تقریباً دوسرا مہینہ چل رہا ہے جب بھی چلنے کی کوشش کرتا ہوں درد کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

پرسوں کچھ دوستوں نے ہندس جانے کا پروگرام بنا کر مجھے مجبور کیا کہ ان کے ساتھ ہندس کا وزٹ کیا جائے۔ ہندس اشکومن پراپر سے گاڑی یا موٹر سائیکل پر ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے۔ جو بہت خوبصورت اور پر سکون سیاحتی مقام ہے۔ حال ہی میں ایفاد کی جانب سے ہندس کے لیے شاندار روڈ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی اور غیر مقامی سیاحوں نے ہندس کا زخ کیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ اس نئے روڈ کی وجہ سے علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور لوگ معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندس روڈ کی وجہ سے گلگت بلتستان کا مشہور جھیل ’اٹر جھیل‘ ہندس سے کچھ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، ہندس روڈ بننے کے بعد اٹر جھیل کا راستہ تقریباً آدھا رہ گیا ہے۔ پہلے اشکومن پراپر سے اٹر جھیل پہنچنے تک پیدل اٹھ سے دس گھنٹے لگتے تھے مگر اب اشکومن پراپر سے ہندس تک موٹر سائیکل یا گاڑی میں ایک گھنٹہ میں پہنچنے کے بعد صرف چار یا پانچ گھنٹوں میں آسانی سے پیدل پ ہندس سے اٹر جھیل پہنچا جا سکتا ہے۔

میں دوستوں کو منع بھی نہیں کر سکتا تھا اور مسلسل بستر پر لیٹ لیٹ کے اکتا گیا تھا سوچا کہ بائیک پر چلا جاؤں۔ ہم چار دوست تقریبآ دوپہر دو بجے ہندس پہنچے، ہندس کی خوبصورت نظاروں کی فوٹو گرافی کی، باربی کیو بنایا، خوب کھایا، چشمہ کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیا اور خوب گپ شپ، موج مستیاں کیے اور تقریبآ شام چھے بجے اشکومن کی طرف واپس لوٹ گے۔ ایک گھنہ بعد تقریباً سات بجے مومن آباد گھر پہنچ گے۔ آپ اگر دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو اپ کو کوئی پریشانی یا تکلیف کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہندس میں کافی گھوما پھرا مگر پاؤں کے درد کا احساس نہیں ہوا جب گھر پہنچ کر گرم پٹی اتارا تو پاؤں سوج گیا ہے اور ہلکا ہلکا درد بھی محسوس ہونے لگا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).