واللہ ہم بغض عمران کا شکار نہیں


بی آر ٹی بس کو حادثہ پیش آیا۔ تنقید شروع ہو گئی۔ کہا گیا کہ بی آر ٹی منصوبہ شروع ہوا اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ بلیو پرنٹ غلط بن گئے۔ گیس اور نالوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔ کاسٹ بڑھ گئی۔ کرپشن کا کیس عدالتی سٹے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ خدا خدا کر کے شروع ہوئی تو بمپر ٹوٹ گیا سیٹ کو چیرے لگائے گئے اور اب یہ حادثہ ہو گیا جس کی وجہ سے مسافروں نے نہ صرف احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ اپنے کرایے کی واپسی کا بھی مطالبہ کر دیا۔ چند لوگ اس سے بھی آگے جا کر بولے کہ بی آر ٹی کو نظر لگ گئی ہے اس لیے ”پیرنی“ سے دم کرایا جائے۔

ملتان میٹرو کو 2017 میں حادثہ پیش آیا تھا جس کی تصاویر کرنٹ افئیر پہ نظر رکھنے والے ہر شخص کی نظر سے گزری ہو گی۔

بی آر ٹی پہ دیگر تنقید اک طرف مگر حادثے والی تنقید نہیں بنتی۔ اس لیے راقم نے ملتان میٹرو والی تصویر اس کیپشن کے ساتھ پوسٹ کر دی کہ لگتا ہے بی آر ٹی کو نظر لگ گئی ہے۔ یہ اک طنزیہ پوسٹ تھی مگر بھلا ہو تحریک انصاف کے ٹائیگرز کا جو نیزے بھالے سنبھالے راقم پہ پل پڑے۔ حالانکہ چند دن قبل جیالوں نے کراچی کی بارشوں کے بعد کی صورت حال پہ ہونے والی تنقید کا بدلہ یوں لیا کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں بارش کے کھڑے پانی کی تصاویر اس کیپشن کے ساتھ پوسٹ کیں کہ سندھ کے شہر لاہور میں انتظامیہ کی ناہلی۔

حال ہی میں مشن ترقی کے حوالے سے عرض کیا کہ پاکستان میں آٹو انڈسٹری نام کو بھی وجود نہیں رکھتی۔ چند مخصوص کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ اپنی مناپلی کو پراثر رکھنے کے لیے اک طرف تو یہ سیاستدانوں پہ بے انتہا پیسہ خرچ کرتے ہیں دوسری طرف اندرونی طور پہ ان کا سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ اگر اک کمپنی اپنے ملازم کو برطرف کرتی ہے تو دوسری یا تیسری کمپنی اسے کبھی بھی ملازمت نہیں دیتی۔ اس مناپلی کے چلتے پاکستان کی سڑکوں پہ چلنے والی گاڑیاں اللہ تعالیٰ کے آسرے چل رہی ہوتی ہیں۔

یہاں سوزوکی مہران جیسی گاڑی کئی دہائیاں بس بمپر تبدیل کر کے پاکستانیوں کو لاکھوں روپے میں بیچی جاتی رہی۔ سیفٹی کا یہ عالم ہے کہ ایئربیگز کو سپیشل فیچر کے طور پہ متعارف کرایا جاتا ہے۔ جبکہ دنیا کہ تھکڑ ترین ملک میں چلے جائیں سوزوکی جیسا ڈبہ اک طرف اچھی سے اچھی گاڑی میں بھی جب تک سیفٹی ایکوئپمنٹس پورے نہ ہوں تو حکومت اسے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتی۔ پاکستان دنیا کی واحد ذہین قوم ہے جو جگاڑ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

اسی جگاڑ کی وجہ سے کبھی چائنہ کے موٹر سائیکل کے پیچھے بنایا گیا پھٹہ موت کا پھٹہ ثابت ہوتا ہے تو کبھی جگاڑ سے لگایا گیا سی این جی سیلنڈر پھٹ اور جل کر معصوموں کی زندگیاں نگل لیتا ہے۔ دیگر دنیا میں ایسے واقعات خصوصی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ جب تک اس کا تدارک نہ ہو ذمہ داران کا تعین نہ ہو تب تک نہ میڈیا چپ ہوتا ہے نہ عوام چین سے بیٹھتی ہے۔

جبکہ پاکستان میں سکول جاتے معصوم بچے جل کر خاک ہو چکے ہیں مگر کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔

عمران خان کے چاہنے والے ناقدین کو بغض عمران کا شکار بتاتے ہیں جبکہ اس بات کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ عمران نے سوائے مہنگائی اور ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں کے عوام کو دیا کیا ہے؟

عمران خان نے عوام کو ایسے خواب دکھائے اب ان کی تعبیر بھگتنے کے بعد عوام خواب دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کسی بھی دور میں کسی بھی حکومت کے لیے حالات ایسے سازگار نہیں رہے جتنا خان صاحب کے لیے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا علانیہ ساتھ، کنٹرولڈ میڈیا اور انتقام سے ڈرتی خاموش اپوزیشن۔ لیکن افسوس اس کے باوجود خان صاحب تاحال کوئی کارنامہ دکھانے سے قاصر ہیں۔ تقریباً آدھا دور حکومت گزر چکا ہے مگر حالات سنورنے کی بجائے بگڑے ہیں۔ اگر خان صاحب کسی منزل کا تعین کر کے پہلا قدم ہی اٹھا چکے ہوتے تب بھی بات تھی مگر افسوس کہ نااہلوں کا ٹولہ ہے جس کے پاس نہ منزل ہے نہ منزل کا نشان ہے۔

آٹو انڈسٹری کی بات ہو رہی ہے تو برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ پاکستان میں جو گاڑیاں سیاستدانوں اور اشرافیہ کی پہچان ہیں ہمارے ہمسائے بھارت میں ویسی گاڑیاں بطور ٹیکسی استعمال ہوتی ہیں۔ بھارت بھر کے پولیس سٹیشن کے عام سے ایس ایچ اوز کو دو دو گاڑیاں میسر ہیں۔ ٹاٹا موٹرز نے بائیک کی قیمت میں نینو نامی کار بنا کر بیچی ہے۔

عام سواری سے لے کر مال برداری کے لیے دنیا خصوصاً افریقی ممالک بھارتی گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارتی آٹو انڈسٹری معیشت میں نمایاں کارہائے سرانجام دے رہی ہے۔ جبکہ پاکستان میں گاڑی بنانے پہ ہی پابندی ہے۔ آپ باہر سے بنے بنائے پارٹس منگوا کر بس گاڑی اسمبل کر سکتے ہیں نئی گاڑی بنانے کی فیکٹری بنانا جرم ہے۔

ہم پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہے کہ دو نمبر کے دھندے سے پیسے بنانے والے ناخواندہ نودولتیے الیکشن میں اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کر کے پارلیمان پہنچتے ہیں اور ملک چلاتے ہیں ان کو علم ہی نہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں چین بھارت حتیٰ کہ بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ یہ ممالک کچرے سے پروڈکٹ بنا کر یو اے ای جیسے ترقی یافتہ ممالک کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور ہم پھل سبزیاں گندم پیدا کرنے والے پہلے دس ممالک میں شامل ہونے کے باجود بھیک مانگنے پہ مجبور ہیں۔

ریکوڈک اور سینڈک کی سونے کی کانیں ہماری ہیں مگر نکال چین رہا ہے ہمیں کاپر بھی نصیب نہیں ہوتا۔ پختونخوا کا زمرد دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہوتا ہے مگر پاکستان میں اس کی کٹائی اور پالش کرنا جرم ہے اس لیے اونے پونے داموں خام حالت میں ممالک خرید کر تراش خراش کر کے مہنگے داموں بیچتے ہیں۔

دنیا بھر میں ای کامرس کا راج ہے دنیا میں ٹین ایجر ایمازون پہ سٹور بنا کر کاروبار کر کے ڈالرز کما رہے ہیں مگر اول تو پاکستان میں ایمازون پہ پابندی ہے دوم اگر کوئی کاروبار کرتا بھی ہے تو پہلے اسے ایمازون سے خریداری پہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جب وہ پروڈکٹ پاکستان سے باہر فروخت کرتا ہے تو اسے دوبارہ ٹیکس دینا پڑتا ہے پھر جب اس پروڈکٹ کی قیمت پاکستان آتی ہے تو اسے اک بار پھر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ اس طرح کے درجنوں محکمے اور سینکڑوں مواقع حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔ دنیا کے درجن سے زائد ایسے ممالک ہیں جن کا ذریعہ آمدن صرف سیاحت ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں سمندر میدان صحرا پہاڑ سمیت ہر لینڈ سکیپ موجود ہے مگر پھر بھی ہم سیاحوں کو نہیں بلا سکے۔ ہمارے ارد گرد ایسے ممالک بھی ہیں جو کوئی بھی کاروباری فرم بنانے پہ الٹا بزنس مین کو پیسہ دیتے ہیں مگر یہاں آپ امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس شروع کرنا چاہیں تو صرف حکومتی اجازت کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں۔

واللہ ہم خان صاحب سے بغض نہیں رکھتے مگر ہم کڑھتے ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہمارے پاس کچھ نہیں اور افسوس کوئی کچھ کرنے کو تیار بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).