لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟


لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا سامنا ہم سب کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے عزیزوں میں، جاننے والوں میں یا دوستوں میں کوئی نہ کوئی خودکشی کی ”اٹیمپ“ لازمی کرتا ہے۔ ان میں سے کچھ بچ جاتے ہیں جبکہ زیادہ تر انتقال کر جاتے ہیں۔ ہر خودکشی کرنے والا اپنے بعد ایک بنیادی سوال چھوڑ جاتا ہے کہ آخر اس نے خود کشی کیوں کی؟ کیا وہ زندگی سے اس قدر تنگ اور مایوس تھا یا اس کے حالات ایسے تھے کہ اس نے موت کو ہی گلے لگا لیا لیکن یہاں ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ درجنوں ایسے لوگ جنہیں زندگی کی تمام رعنایاں میسر ہوتی ہیں، وہ بھی خود کشی کر جاتے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ زندگی کی تکالیف اور مصائب کا خود کشی سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جتنا عمومی طور پرجوڑا جاتا ہے۔

زیادہ تر خودکشی کرنے والوں کے بارے میں یہی قیاس آرئیاں کی جاتی ہیں کہ اسے فلاں مصیبت تھی، فلاں پریشانی تھی یا کوئی فلاں گمبھیر مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے اس نے ”سوسائڈ اٹیمپ“ کی حالانکہ زیادہ تر محققین نے ایسی قیاس آرائیوں کو غلط قرار دیا ہے۔ خودکشی کے موضوع پر کئی کتابیں اور ریسرچ پیپر لکھے گئے جن میں ایرک مارکوس کی کتاب ”Why Suicide“، جارج ہوری کولٹ کی کتاب ”The Enigma of Suicide“ اور سگنے ہیمر کی کتاب ”After Suicide“ قابل ذکر ہیں۔

میں نے اگست کے مہینے میں خودکشی کے موضوع سے متعلق کچھ بنیادی کتب یا تحقیقی مقالات کا مطالعہ لازمی کرتا ہوں اور یہ میری عادت گزشتہ اڑھائی برس سے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ میرے قریبی دوست جانتے ہیں کہ 27 اگست 2017 ء کو میرے ایک عزیز دوست اور کلاس فیلو (اورینٹل کالج کے ) منظور جمشید نے خودکشی کی تھی اور یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا کہ اس نے خود کشی کیوں کی تھی؟ اس کی وفات کے بعد بھی ایسا ہی ہوا کہ درجنوں کہانیاں اور واقعات بنائے اور سنائے گئے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ منظور کی خودکشی کی بنیادی وجہ محبت میں ناکامی تھی یا ایسے ہی کئی ملتی جلتی کہانیاں پنجاب یونیورسٹی کے دیوارودر میں آج تک محفوظ ہیں مگر کسی بھی کہانی پر یقین کرنے کو دل نہیں کرتا کیونکہ وہ زندگئی سے مایوس بالکل بھی نہیں تھا۔

میں گزشتہ کئی روز سے ایرک مارکوس کی کتاب ”Why Suicide“ پڑھنے میں مصروف ہوں اور بطور تحقیق کا طالب علم یہ جاننے کی کوشش میں لگا ہوں کہ ”لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟“ ۔ میں کبھی بھی محض محبت کی ناکامی، محض گھریلو جھگڑا یا کسی بھی ایک معاملے کو خودکشی سے نہیں جوڑتا کیونکہ خودکشی ایک ایسا حادثہ ہے جو یک دم کبھی بھی نہیں ہوتا، بلکہ ایسے حادثے برسوں نہیں تو مہینوں پلتے ہیں۔ پلنے کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ واقعی ایک بنیادی سوال ہے۔

ایرک مارکوس نے اپنی کتاب میں دو سو سے زائد وجوہات بیان کیں، جن کا بنیادی خلاصہ یہی ہے کہ خودکشی کسی ایک واقعے سے متصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کم از کم درجنوں وجوہات لازمی ہوتی ہیں۔ میں نے گزشتہ برس اسی مہینے کے ایک کالم میں کہا تھا کہ خودکشی کا عمل ایک قتل ہے، خودکشی کرنے والے کا قتل کیا جاتا ہے، معاشرے والے، گھر والے یا وہ قریبی دوست احباب جن سے مرنے وال احد سے زیادہ اٹیچ ہوتا ہے، خودکشی کی وجہ بنتے ہیں۔

آپ دنیا کے ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک کی بھی فہرست نکال کر دیکھ لیں، خودکشی کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہوگی اور اگر خودکشی کرنے والوں کی بائیوں گرافیز نکال کر پڑھنا شروع کر دیں تو اس میں کئی امیر زادے، کئی مشہور اداکار اور بزنس مین بھی آئیں گے جنہیں مالی یا معاشی مسائل تو بہرحال نہیں ہو سکتے۔

خودکشی پر تحقیق کرنے والے تمام محققین اس بات پر تو متفق نظر آتے ہیں کہ خودکشی کی سب سے زیادہ شرح بیس سے تیس سال کے درمیانی عرصے کی ہے یعنی خودکشی کرنے والا زیادہ تر طبقہ ان نوجوانوں کا ہوتا ہے جو کالجز، یو نیورسٹیز یا میڈیائی انڈسٹری سے وابستہ ہوتا ہے۔ مثلاً آپ پاکستانی جامعات میں ہونے والے خودکشی کے واقعات کی فہرست نکال کر دیکھ لیں، زیادہ تر عمر یں بیس سے تیس کے درمیان کی ہوں گی اور اس میں بنیادی الزام محبت میں ناکامی کا لگایا جاتا ہے اگرچہ اکثرایسا نہیں بھی ہوتا۔

اگر دیگر جامعات کی بجائے پنجاب یونیورسٹی کی بات کریں تو سال میں درجن بھر کیس تو لازمی سامنے آتے ہیں اور کئی کیس ریکارڈ ہی نہیں ہوتے۔ کئی والدین بدنامی کے ڈر سے خودکشی کا شور نہیں ڈالتے، بلکہ طبعی موت کہہ کر معاملے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خودکشی کا کوئی ایک طریقہ تو بالکل نہیں، کہیں خودکشی کرنے والا ”سلو پائزن“ کا شکار ہوتا ہے اور کوئی ڈرگز کا، لیکن معاملہ خودکشی ہی بنے گا۔ میرے سامنے کئی جامعات اور اداروں کی فہرست پڑی ہیں جس میں خود کشی کرنے والے طلبا کی شرح بتائی گئی ہے مگر میرا موضوع شرح سے زیادہ وہ مسائل ہیں جن سے خودکشی جیسا بڑا حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔

ایرک مارکوس نے پچاس سے زائد مغربی مفکرین کی کتب کی فہرست بھی مرتب کی جنہوں نے خودکشی جیسے برے فعل کو قتل کے مترادف قرار دیا۔ اس میں بالکل دو رائے نہیں کہ خودکشی کرنے والا انسان اس وقت خود کشی تک پہنچتا ہے جب وہ ہر طرف سے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے، ڈپریشن، محبت میں ناکامی، گھریلو ناچاقی، شراب نوشی، انتقام، غصہ، سزا، قربانی، خودکشی بمبار، معاشرتی رسم و رواج، صدمہ یا بیرونی خطرہ، معاشی تنگ دستی، جنسی مسائل اور صنفی تنازعات سمیت درجنوں ایسے معاملات ہیں جہاں سے مرنے والے کو خودکشی کی ترغیب ملتی ہے یا پھر وہ جن وجوہات سے خودکشی جیسا نفرت انگیز فعل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے والدین نے کبھی ان معاملات میں اپنے بچوں کی تربیت کی؟ کبھی والدین نے سوچا کہ ہمارا بچہ مذکورہ کسی بھی ایک مسئلے کا شکار ہے اور ہمیں اس کے غم میں یا دکھ میں شریک ہوکر اس کا سہارا بننا چاہیے؟ بالکل نہیں، آپ آج خودکشی کرنے والے افراد بالخصوص نوجوانوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں، وہ انہیں میں سے کسی ایک مسئلے کا شکار ہوئے ہوں گے اور اس کا اختتام موت پر ہوا ہوگا۔ آپ اور میں کتنے ہی ایسے والدین کو جانتے ہیں جنہوں نے کئی اہم معاملات میں اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ دیا، اپنی انا، ضد اور بزنس کی خاطر بچوں کو اس قدرتنہا کر دیا کہ وہ ڈپریشن کا شکا ہو گئے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال میں بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شکار پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد وہ نوجوان نسل ہے جو اداروں اور جامعات سے ڈگریاں لے کر نکل رہی ہے مگر ان کے پاس نوکری ہے اور نہ ہی کوئی بزنس۔ وہ صبح سے شام تک سی وی لے کر دفتروں، اداروں اور فیکٹریوں میں دھکے کھاتے ہیں رات کو ”چٹا جواب“ لے کر گھرو ں کو لوٹتے ہیں، ایسے میں اگر انہیں گھر سے بھی سپورٹ نہ ملے تو یہ نوجوان کیا کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).