اچانک صحافی


شعبہ صحافت میں صفائی لازمی بن گئی ہے۔ مگر کون کرے گا یہ ادارہ تو اس بچے کی طرح بن گیا ہے جو بغیر دیکھ بھال کے بڑا ہوکر اپنی مرضی کا مالک بن جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں وکالت، انجینرنگ، ڈاکٹریٹ کے علاوہ فارم کے مالی سے لے کر ہوٹل پر باہر والے کا کام کرنے والے کے لیے بھی پڑھنا لکھنا شرط کے ساتھ تجربہ اور متعلقہ کام کے حوالے سے دو سالہ چار سالہ ڈگری نہ سہی، ایک سالہ ڈپلومہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مگر صحافت واحد شعبہ ہے جس میں ایسی کوئی شرط نہیں۔ پاکستان کے علاوہ کوئی ایسا ملک نہیں جہاں صحافت ایسے لوگوں سے کروائی جائے۔

آج کل اس شعبے میں آپ کو زمیندار سے لیکر، ریٹایئرڈ حوالدار، طالب علم سے لے کر موٹر سائیکل مکینک، بیوپاری سے لے کر، سیاسی یتیم، عشق میں دھوکا کھانے والے سے لیکر، کباڑ خانے میں کام کرنے والے الغرض پان فروش سے لے کر کئی ایسے افراد ملیں گے جو صحافت کی الف ب نہیں جانتے۔ بغیر کسی ڈگری اور تجربے کے ہر جگہ نظر آئیں گے۔ جو اشتہار باز اخباروں، ویب چینلز، یا پھر کسی چینل کے لیے (ٹکر قاصد) کے طور پر کام کرتے ہوئے ملیں گے۔

حیران کن بات یہ ہے نہ الیکٹرانک میڈیا ان کو پے کرتا ہے نا اخبار پھر آخر اس کام میں نشہ یا مزہ کیا ہے۔ آٹھویں کلاس، دسویں بمشکل پاس افراد کا ٹولہ ہر قصبے میں آپ کو صحافی کے لباس میں نظر آتا ہوگا۔ ویسے تو صحافت کو پڑھنا سمجھنا سیکھنا اور کرنا یہ ان کے دور دور تک بس کی بات نہیں لیکن جب تمام تر شارٹ کٹس ختم ہو جاتے ہیں تو آج کل اس شعبے کو اپنایا جاتا ہے۔ پھر جو ذرائع دھکہ اسٹارٹ ہوں، وہ ان کو دھکہ دے کر اپنا چائے پانی نکالنے کی جدوجہد میں لگے ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے آپ لوگوں کے نزدیک کئی ایسے لوگ ہوں گے۔ جو بیروزگاری یا پھر دو سیاسی گروپوں میں درمیاں والا سین کرئیٹ کرنے یا پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے لے کر سیلف وزیبلیٹی کے لیے اس شعبے سے نا صرف منسلک ہوئے ہیں۔ بلکہ چند ماہ میں سینئر صحافی بن گئے ہوں گے۔

ایسے صحافی حضرات کا زیادہ تر کام علاقے کے مفاد یا عوام الناس کو درپیش مسائل اجاگر کرنے یا روز مرہ کے معاملات کو اخبار کی زینت بنانے سے زیادہ ایک گروپ کی شکل میں ضلعی سرکاری افسران یا تحصیل افسران سے لے کر ضلعی لیول کے سیاسی اکابر کی نت نئے طریقے سے تعریفوں سے اپنی جیب اور صاحب لوگوں کی شامیں روشن کرنا ہوتا ہے۔ اور اس بات کا اندازہ ایک نان پروفیشنل کام وہ بھی بغیر ادارے کے مالی سپورٹ یا تنخواہ کے با آسانی کیا جا رہا ہے۔

صحافت کا بنیادی مقصد وٹزپ کی صحافت جس میں عوامی حلقوں کا خیر مقدم، قبائلی سیاسی سماجی شخصیت جو میٹرک کا طالب علم ہوتا ہے اس کے نام پر خبر نشر کرنا، وٹزپ کے اشتہارات سے لے کر آفس پک، فیلڈ پک کیپشن کے ساتھ کی مختلف رقم مختص کر کے ختم کر دیا ہے۔ اخبارات کو اشتہارات، نیوز چینلز کو ٹکر سے جبکہ رسالوں کو تصاویر سے مطلب ہے پھر وہ چاہے صحافی سے موصول ہوں یا صفائی والے سے بہرحال ایسے لوگوں کی بھرمار سے ناصرف حقیقی صحافت کی توہین ہو رہی ہے بلکہ اس عمل سے معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔

حکومت سے میری درخواست ہے ایسے سارے ضرورت مندوں کے لئے کوئی روزگار فراہم کیا جائے۔ تاکہ حقیقی صحافت کی اہمیت کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اور پیمرا بشمول دیگر نیوز ایجنسیوں کو پابند کرواتے ہوئے۔ نان پروفیشنل نومولود صحافیوں کو اس شعبے سے دور رکھنے کی تاکید کروائی جائے۔ کیونکہ صفائی والی صحافت سے بدعنوانیوں میں اضافہ ہوگا۔ جو کسی ادارے کے ایک افسر کے خراج تحسین سے لے کر دوسرے آفسیر تک جاری رہے گا اور اس سسٹم میں عوامی مسائل کا حل اور ترجمانی ناممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).