صاحب سیف و قلم۔ حضرت علی المرتضی


ہزاروں سال کے مسلسل تجربوں کے بعد یہ کلیہ قائم کیا گیا ہے کہ علم اور شجاعت کبھی ایک ذات میں جمع نہیں ہو سکتے۔ جس ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے وہ قلم کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں نہیں لا سکتا اور جس ہاتھ میں قلم ہوتا ہے وہ تلوار نہیں اٹھا سکتا لیکن انسانی تاریخ میں حضرت علی مرتضیٰ کا ہاتھ وہ تنہا اور جامع اضداد ہاتھ ہے جو تلوار اور قلم دونوں کو مساوی روانی سے چلا سکتا ہے۔ وہ ادیب، شاعر اور مفکر تھے اور اسی کے دوش بدوش عدیم النظیر سپاہی بھی۔

وہ صفحہ قرطاس پر مجسم کلک گوہر بار اور میدان کار زار میں سراپا شمشیر آبدار تھے۔ آپ کا اسم مبارک علی اور لقب اسد اللہ اور حیدر و مرتضیٰ کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ حضورؐ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کے خاندان بنی ہاشم کو کعبہ کی تولیت کی وجہ سے سارے عرب میں مذہبی سعادت حاصل تھی۔ حضورؐ کے کئی چچا تھے لیکن حضورؐ کا جو تعلق حضرت علی کے والد ابو طالب کے ساتھ تھا وہ کسی کے ساتھ نہ تھا۔ حضرت علی کے والد ابو طالب مشرف با اسلام تو نہیں ہوئے مگر آپ کی والدہ مسلمان بھی ہوئیں اور انہوں نے ہجرت بھی کی۔ حضورؐ نے حضرت علی کو بچپن ہی سے اپنے دامن پرورش میں لیا اس طر ح ابتدا ہی سے حضرت علی کی تربیت آغوش نبوت میں ہوئی۔ حید ر کرار نے اس وقت اسلام قبول کیا جب آپ بہت چھوٹے تھے اور آپ نبیؐ کے چیف کمانڈر تھے۔

علی وہ ہیں جو شہزادہ ابو طالب ہیں، داماد رسولؐ ہیں، جو زوج سیدۃ النسا العلمین ہیں، والد سید الشہدائے اولین و آخرین ہیں، جو محبوب رب العالمین ہیں۔ حضرت علی امیر المومنین ہیں، وصی و اخی رسول ہیں، تاج بتول ہیں، آپ فاتح اعظم، خیبر شکن ہیں۔ آپ کی اہلیہ فاطمہ سارے زمانے میں یکتا، دختر زینب پیکر تسلیم و رضا، فرزند اول حسن داعی امن و صفا، فرزند ثانی حسین شہید کربلا۔ آپمنار الایمان ہیں، ابو الحسنین ہیں، ذوالقرنین ہیں، نفس رسولؐ ہیں، شہسوار عرصہ فقر و غنا ہیں، آپحید ر کرار اور علی المرتضی ہیں۔

آپ کے اوصاف لڑی کے موتیوں کی طرح باہم مر بوط ہیں۔ آپ بہادر تھے اس لیے کہ آپ طاقتور تھے، آپ صداقت شعار تھے، آپ راست باز زاہد تھے۔ حضرت علی کی ذات اختلاف کا ہدف بنی اس لئے کہ صداقت شعاری کسی کے غم و غصہ یا خو شنودی کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس مرد صادق کے حق میں سب سے زیادہ صادق دلیل یہ ہے کہ اس کی قابل تقلید اعلی خوبیوں اور اوصاف کو لوگوں نے اس کی زندگی میں تسلیم کیا اگر کہیں کسی نے ان کے وصف کا انکار کیا تھا تو وہاں خود غرضی آڑے آئی۔ علامہ محمد اقبا ل نے حضرت علی  کو یوں ہدیہ عقیدت پیش کیا کہ :

یہ ہے اقبال فیض یاد نام مرتضی جس سے

نگاہ فکر میں خلوت سرائے لا مکاں تک ہے

حضرت علی کی جانبازی اور شجاعت کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں کسی کو مقابلے پر آنے کی جرات نہ ہوتی۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ موت ان پر گرے یا وہ موت پر۔ ان دونوں کو وہ مساوی طور پر محبوب سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کی نگاہوں نے موت کی پیشانی پر حیات ابدی کا جھومر دیکھ لیا تھا۔ خیبر کا قعلہ القموس فتح نہیں ہو رہا ہوتا تو امام الانبیا فرماتے ہیں ؛ ”ہم آج اس کو پرچم اسلام دیں گے جس کے ہاتھ سے یہ قلعہ فتح ہو گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ اس سے محبت کرتے ہیں۔

 ” اس کے بعد وہ جھنڈا حیدر کرار کو عطا فرما دیا جاتا ہے اور وہ خیبر کے دروازے کو اس طر ح اکھاڑ پھینکتے ہیں جیسے وہ کاغذ کا بنا ہو۔ حالانکہ چالیس شہ روز صحابی اس دروازے کو ہلا بھی نہ سکے اور شیرخدا نے اسے ڈھال بنا رکھا تھا۔ مرحب کے ٹکڑے اڑا دینے والے علی جب جنگ احزاب میں عمر و ابن ود کے مقابلے پر جاتے ہیں تو امام الانبیا کہتے ہیں ؛“ مکمل ایمان مکمل کفر سے ٹکرانے والا ہے۔ ”اور پھر جب حضرت علی نے ہزاروں جوانوں پر بھاری عمرو کی گردن اتار کر پھینکی تو حضورؐ آپ کی شجاعت اور بہادری کے گرویدہ ہو گئے۔

آپ کے دور خلافت میں اسلامی فتوحات میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا آپ کے دور خلافت میں تین مشہور جنگیں ہوئیں جن میں جنگ جمل، جنگ صفین، جنگ نہروان شامل ہیں ان تمام جنگوں میں خوارج سے مقابلہ ہوا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین کو اکثر صحابہ نے ناپسند کیا ہے جبکہ جنگ نہروان کو اکثر صحابہ نے پسند بھی کیا ہے اور بعض احادیث میں اس کی پیش گوئی بھی موجود ہے۔

حضرت علی تین ماہ کم پانچ سال تک خلافت کے منصب پر فائز رہے۔ سترہ رمضان کو فجر کی نماز کے وقت عبدالرحمن ابن ملجم اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ جامع مسجد کوفہ پہنچا، پھر جب حضرت علی نماز کے لئے تشریف لائے تو ابن ملجم نے آپ کو شدید زخمی کر دیا، آپ اکیس رمضان چالیس ہجری کو شہادت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہو گئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی، آپ کو کوفہ کے نزدیک مقام نجف میں آسودہ خاک کر دیا گیا۔

جس نے صداقتوں کے نہ بجھنے دیے چراغ

ہر وار جس نے ہنس کے سہا آپ ہی تو ہیں

اے علی ! اے حافظ قرآن، اے جامع قرآن، اے اولیا کے سلطان، صداقت کا نشان، جان اسلام، خدا کی برہان۔ اے میدان جنگ کے سورما رجز خواں، اے منبر امن کے شیریں سخن خطیب، اے ایوان عدل کے دیدہ ور قاضی، اے نان جویں کی بے پناہ طاقت کے مظہر۔ اے زندگی کے معتوب، اے موت کے محبوب، اے اپنی تمام تر رعنائیاں اس دنیا میں بکھیر کر خاموش ہو جانے والے مفکر، سیف و قلم کا سلام قبول کر!

خنسا سعید
Latest posts by خنسا سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).