افغانستان میں امن کتنا دور ہے؟


افغانستان انتہائی بدقسمت ملک ہے۔ اپنی معلوم تاریخ میں یہ اکثر بیرونی جارحیت، اندرونی سازشوں اور احمقانہ ترجیحات کے باعث جنگ و جدل اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔

افغانستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں امن کے لیے کوشاں قوتوں کے برعکس امن کوششوں کے سپوائلرز یا مولانا مودودی کے الفاظ میں بناؤ کے بجائے بگاڑ والی قوتیں ہی اکثر کامیاب رہی ہیں۔

مثلاً انیس سو اسی کی دہائی کے آخر میں روسی استعمار کی افغانستان میں شکست اور پسپائی نوشتہ دیوار نظر آ رہی تھی اور سپرپاور ہونے کی وجہ سے اسے باعزت اور محفوظ اخراج درکار تھی۔ روس اپنے لیے ”رستے ہوئے ناسور“ افغانستان سے جلد از جلد اپنی فوج نکالنا چاہتا تھا لیکن پاکستان اور افغانستان کا مفاد اس میں تھا کہ سوویت افواج کی انخلاء سے پہلے افغانستان میں دیرپا امن کے لیے سارے افغان گروہوں، مجاہدین اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے درمیاں معاہدہ ہوتا جس کے نتیجے میں وہاں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم ہوتی۔

افغانستان میں امن کا موقع ہاتھ آیا تھا لیکن سپوائلرز میدان میں کود پڑے۔ اس وقت پاکستان میں قائم سیاسی حکومت کی جلد بازی، کوتاہ نظری اور مبینہ طور پر کے جی بی کے ساتھ ملے ہوئے پاکستانی وزیر مملکت برائے امور خارجہ کی کوششوں سے جینیوا معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں کسی بین الافغان معاہدے سے پہلے ہی روسی افواج افغانستان سے نکل گئیں۔

روس کو تو باعزت اور محفوظ راستہ مل گیا لیکن اس کے بعد افغانستان میں مختلف ملکوں کے حمایت یافتہ افغان گروہوں کی باہمی لڑائیوں سے بہت بڑی تباہی دیکھنے میں آئی۔ افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ پر صدارت سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا کہ اس دوران بہاولپور کا سانحہ رونما ہوگیا جس میں جنرل ضیاء آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن سمیت جاں بحق ہوگئے۔ ڈاکٹر نجیب بھی بعد ازاں انتہائی بے دردی سے قتل کردیے گئے مگر افغانستان میں امن نہ آ سکا اور سپوائلرز کامیاب رہے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اب امریکہ یہاں ناکام ہو چکا۔ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجوں کا جلد انخلاء چاہتے ہیں۔ انہوں نے طالبان سے بات چیت شروع کی۔ طالبان بھی راضی ہیں۔ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل باجوہ اور سلامتی کے ادارے افغانستان میں امن کے لیے پرخلوص کوششیں کر رہے ہیں جن کا اعتراف صدر ٹرمپ اور ان کے مشیر زلمے خلیل زاد نے بارہا کیا۔ چین، ایران اور روس بھی پرامن افغانستان کے حامی ہیں۔

لیکن افغانستان میں امن عمل کے سپوائلرز، جن میں افغان حکومت اور این ڈی ایس کے سرکردہ افراد، بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور امریکی فوجی ہیئت مقتدرہ شامل ہیں، ایک دفعہ پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر انہیں بروقت نہ روکا گیا تو افغانستان میں امن پھر نہیں آسکے گا۔

پاکستان افغانستان کے ساتھ تقریباً پچیس سو کلومیٹر مشترکہ سرحد رکھنے والا پڑوسی ہے اور پڑوسی تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ یہ افغانستان میں بدامنی سے شدید متاثر بھی ہوا۔ اس کے ہزاروں فوجی اور عام لوگ دہشت گردی میں شہید ہو چکے اور معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا اس لیے افغان جتنی پاکستان کی ضرورت ہے اتنی کسی اور ملک کی نہیں۔

اگرچی افغانستان ایک ملک ہے۔ اس کی اپنی افواج اور ادارے ہیں۔ بین الاقوامی امن فوج بھی افغان حکومت کی مدد کے لیے موجود ہے۔ پاکستان چنانچہ اس کی سلامتی اور حفاظت کا ذمہ دار نہیں۔ اس کے باوجودپاکستان نے پاک افغان سرحد پر درندازی روکنے کے لیے آہنی باڑ لگائی، سرحد پر ہزاروں نگران چوکیاں قائم کیں اور پوری پاکستانی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے کافی محنت کی جبکہ افغان حکومت کے سرکردہ لوگ اپنی طرف سرحد پر نگران چوکیاں تعمیر کرنے کے لیے تیار ہیں نہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے اورنہ ہی سرحد پر باڑ لگانے کے لیے، کیوں کہ اگر پاک افغان سرحد پر باڑ لگ گئی، نگران چوکیاں بن گئیں اور افغان پناہ گزیں پاکستان سے نکل گئے تو پھر پاکستان پر دراندازی کا الزام لگانے کا موقع ان کے پاس باقی نہیں رہے گا۔

پچھلے مہینے جاری دہشت گردی پر اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہوتی ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار ملوث ہیں اور یہ کہ وہاں ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس کے باوجود بھی افغان حکومت اور ادارے پاکستان پر افغانستان میں دراندازی اور دہشت گردی کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

افغان انتظامیہ کے سرکردہ افراد کو بدامنی میں اپنا مفاد نظر آتا ہے اور وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ چنانچہ وہ بڑی مشکل سے قطر معاہدے کے مطابق طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے تیار ہوئے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را بھی پاکستان کے تعاون سے جاری افغان امن عمل کو ناکام بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ پچھلے ہفتے مبینہ طور پر را اور این ڈی ایس نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے متحد کر دیا۔ چمن اور کنڑ میں پاک افغان سرحد پرحالیہ جھڑپوں کے پیچھے بھی ان کی کوششیں ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر امریکی صدر افغانستان کی سرزمین پر بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں اور اقدامات سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔

صدر ٹرمپ افغانستان سے جلد فوج کو نکالنا چاہتے ہیں لیکن امریکی فوجی ہیئت مقتدرہ ان کے ساتھ بظاہر تعاون نہیں کررہی۔ اب صدر ٹرمپ کو جلد اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ افغان امن عمل کو کامیاب کرنے کے لیے انہیں یقینی بنانا ہوگا کہ انخلا سے پہلے پہلے مذاکرات کے ذریعے مستقبل کے پرامن افغانستان کے لیے بین الافغان معاہدہ پر دستخط کیے جائیں، افغانستان میں بھارت کی سرکردگی میں پاکستان مخالف سرگرمیاں اور سازشیں ختم کی جائیں اور امریکی اداروں اور اپنی بغل بچہ افغان حکومت کو مزید بگاڑ پیدا کرنے سے روک دیں۔

افغانوں کی بے پناہ قوت مزاحمت سے کون انکار کر سکتا ہے جس کی وجہ سے پہلے سویت یونین کو خاک چاٹنا پڑی اور اب امریکہ کا غرور پاش پاش ہونے کو ہے لیکن کیا اس سے انکار ممکن ہے کہ اگر افغانستان کی خلق پارٹی اور پرچم پارٹی کے کمیونسٹ آپس میں اور مخالفین کے ساتھ تھوڑی رواداری دکھاتے یا افغانستان کی حکومت روس کو مداخلت کی دعوت نہ دیتی تو کیا افغانستان اس تباہی و بربادی سے بچ نہ پاتا جو اس نے دیکھی؟

یا اگر افغانستان کی طالبان حکومت اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو افغانستان آنے کی اجازت نہ دیتی، افغانستان کو پوری دنیا کے انتہا پسندوں کا مرکز نہ بننے دیتی یا پھر امریکی ورلڈ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد اسامہ وغیرہ کو افغانستان سے نکال باہر کرتی اور دنیا سے تعاون کرتی تو کیا افغانستان کی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ افغانی ہر بیرونی قابض قوت سے اتحاد کرنے کے لیے تو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن اپنے ملکی بھائیوں سے ہاتھ ملانے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).