اگر تمہارے ابا کا انتقال ہو جائے تو


اگر تمہارے ابا کا انتقال ہو جا ئے تو کیا تم لال کپڑے پہنو گی!
اگر تمہارے ابا مر جائیں تو کیا تم گانے سنو گی!
اگر تمہارے ابا مر جائیں تو کیا تم شادی میں جاؤ گی!
اگر تمہارے ابا کا انتقال ہو جائے تو تم کیا مووی دیکھو گی!
اگر تمہارے ابا مر جائیں تو کیا تم اپنے گھر میں دعوت کروگی!
اگر تمہارے ابا کا انتقال ہو جائے تو کیا تم پکنک پر جاؤ گی!
اگر تمہارے ابا کا انتقال ہو جائے تو تم پھر بھی کیا کسی کو مبارک باد دو گی!
اگر تمہارے ابا کا چہلم ہو تو کیا تم پھر بھی آفس جاؤ گی!

بچپن کیا جوانی میں بھی ہماری سہییاں اور ملنے والے جو ہماری عمروں کے ہی ہوتے تھے اس قسم کے سوالات کرتے ہی تھے۔ تب ہم سوچ میں پڑ جاتے۔ کچھ کے جوابات ہمارے ذہن میں تب بھی تھے مگر ایام عزا کے دن، کچھ ایسے سوگوار ہوتے ہیں کہ دل آزاری کرنے ک ہمت نہ ہوتی تھی۔

اب ہم سمیت سوال کرنے والے بھی بوڑھے ہو گئے۔ لیکن سوالات کی ترتیب اور آہنگ بدلا نہ ہی پوچھنے والے کے چہرے، آنکھوں اور لہجے سے سامنے والے کو خاموش اور لاجواب کرنے کی حسرت نے اپنی راہ لی۔

پہلی بات تو یہ کہ ابا کا انتقال ہو یا کسی پیارے کی ناگہانی موت، کسی بھی سانحے، حادثے، اذیت ناک موت یا صدمے کا تقابل واقعہ کربلا جیسی قیامت سے کرنا مناسب نہیں۔

دوسری بات یہ کہ اہل بیت اطہار کا مقام ہمارے ابا، چچا، ماموں، تایا یا کسی پیارے کے ہم مرتبہ نہیں ہو سکتا۔

اگر ہمارے ابا کا اچانک انتقال ہو جائے اور ہم نے لال پیلے کپڑے پہنے ہوئے ہوں تو پریشانی کے عالم میں ہمیں یہ خیال بھی نہ ہو گا کہ ہمارے تن پر کس رنگ کے کپڑے ہیں۔ اور اگر ڈاکٹر نے مرگ وقت دے بھی دیا تو بھی رنگ کے انتخاب کی فکر کسے ہو گی۔

ہمارے ابا کے انتقال کو یوں تو پچیس سال ہو چکے ہیں لیکن جس روز ابا کا سوئم تھا۔ اسی روز باجی کا بچہ اسکول میں اول آیا تھا۔ سب اسے گلے لگا لگا کر پیار کر رہے تھے اور باجی قرآن پڑھتے ہوئے سب کا شکریہ بھی ادا کر رہی تھیں۔ اس خوشی نے ابا کا غم کچھ دیر کو بھلا ہی دیا تھا۔

روزگار زندگی اگلے مہینے سے بالکل نارمل ہو چکا تھا۔ شاپنگ بھی کی، پکنک بھی منائی، مووی بھی دیکھی۔ سسرال میں نند کی شادی تھی، اس میں بھی شریک ہوئے۔ گانے سنے بغیر تو دس دن نہ رہ سکے۔ ان ہی گانوں کے دوران کچھ بول ابا کی یاد بھی تازہ کر دیتے اور تھوڑے آنسو بہہ جاتے۔

ہمارے بہت سے پیارے دنیا چھوڑ کر گئے۔ لیکن زندہ رہ جانے والوں کی فکر نے معمولات زندگی پر ذرا اثر نہ ڈالا۔ بعض اوقات کام کی نوعیت کے سبب آفس جا کر کام نمٹایا، پھر میت والے گھر میں پہنچے۔

ہاں البتہ یہ کبھی نہ کیا کہ اگر کسی کی زندگی سے ڈاکٹر نے مایوسی کا اظہار کر دیا تو گھر میں پرسہ دینے والوں کے خیال سے رنگ و روغن کرایا ہو، گھر کے پردے اور فرنیچر تبدیل کیے یا درزی کو کالے کپڑے سلنے کو دے دہے ہوں۔

کہنا یہ تھا کہ ایسی متبرک ہستیوں کو خاندانی رشتوں سے نہ جوڑا جائے۔ ان بلند درجے پر فائز قابل احترام ہستیوں کے ہمارے ابا، چچا، تایا، بھائی اور کوئی پیارا پاسنگ بھی نہیں۔

رسم عزاداری جاری و ساری رہے، مولا کا غم منانے والوں کے دل گداز رہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے قول و فعل میں یزیدی فکر کی نمو کے بجائے ہمیں اہل بیت کی زندگی، ان کے نظریے اور بے مثال ایثار کو مشعل راہ بنانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).