معذور لڑکی، منو بھائی کے نام خط اور سید لخت حسنین


یہ کہانی اچ شریف سے شروع ہوتی ہے۔ 1992ء کا سال ہے اور ایک غریب معذور لڑکی۔ وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی ہے لیکن معذوری اسے چوبیس گھنٹے ایک ہی جگہ بٹھائے رکھتی ہے۔ سوچ بچار کے بعد وہ ایک فیصلہ کرتی ہے، قلم کاغذ اٹھاتی ہے اور اپنی ساری داستان لکھ کر منو بھائی کو ارسال کر دیتی ہے۔ خط ڈاک سے ہوتا ہوا منو بھائی تک پہنچتا ہے اور وہ درد کی یہ داستان اپنے کالم میں شائع میں بیان کر دیتے ہیں۔ کالم روزنامہ جنگ لندن میں بھی چھپتا ہے۔

نوٹنگھم کا ایک نوجوان اس کالم کو پڑھ کربے چین ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے جاننے والوں سے بات کرتا ہے کہ پاکستان کی ایک معذور بیٹی کو الیکٹرک وہیل چیئر چاہیے، اس نے ہمیں پکارا ہے اور اس کی یہ پکار صف اول کے اخبار میں ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ نوجوان کا کردار ایسا ہے کہ سننے والے نہ صرف اس کی بات پر اعتبار کرتے ہیں بلکہ اس کی صدا کی پر لبیک بھی کہتے ہیں اور یوں اس دور میں پچیس ہزار روپے کی خطیر رقم اکٹھی ہو جاتی ہے۔

وہ نوجوان یہ رقم منو بھائی کو بھیجتا ہے، منو بھائی یہ امانت بذریعہ کمشنر اس لڑکی تک پہنچاتے ہیں لیکن وہ نوجوان اس معاملے میں اتنا حساس ہے کہ منو بھائی کو خود وہاں جا کر تمام معاملے کی نگرانی کرنے کا کہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ اگر وہ لڑکی معذور نہ ہوتی تو نہ اسے وہیل چیئر کی ضرورت پڑتی، نہ وہ منو بھائی کو خط لکھتی، نہ وہ خط کالم کا حصہ بن کر روزنامہ جنگ میں شائع ہوتا، نہ ہی لندن کے اس نوجوان کے دل میں انسانیت کے لیے چھپے درد کو مقصد ملتا اور نہ ہی ایک عظیم بین الاقوامی مسلم رفاہی تنظیم وجود میں آتی کیونکہ یہی خط محرک اس نوجوان کے لیے بنا تھا۔

وہیل چیئر کا انتظام کرنے کے بعد وہ نوجوان آرام سے بیٹھ نہیں جاتا بلکہ اس کام کو وسیع کرنے کے لیے دوست احباب سے مشورہ کرتا ہے اور یوں ایک تنظیم معرض وجود میں آتی ہے۔ یہ تنظیم ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی بھی نہ ہو پائی تھی کہ برما میں نسلی فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ یہ نوجوان ”فنڈنگ کیسے ہو گی؟“ جیسے سوالات کو خاطر میں نہ لاتے میدان میں کود پڑتا ہے اور خدمت انسانیت کی ایسی تاریخ رقم کرتا ہے کہ دنیا کو ”جس قدر تاریخ پرانی ہو گی، مشہوری اور کامیابی بھی اسی قدر ہو گی“ کے دائرے سے نکال کر اس تصور سے روشناس کراتا ہے کہ ”درد اور خلوص سے کام کرو، کامیابی، وسائل اور مشہوری خود تمہارے دروازے پر آئی گی“ ۔

وقت آگے بڑھتا ہے اور 2000ء وہ نوجوان 235000 پاؤنڈ میں کیمبرج یونیورسٹی کے لیے وقف ایک قیمتی بلڈنگ خرید کر اسے اپنا ہیڈ آفس بنا لیتا ہے۔ لوگوں کی توقعات اتنی بڑھتی ہیں کہ ایک دن میں 500 سے زائد درخواستیں وصول ہونے لگتی ہیں۔ کام کو دیکھتے ہوئے لوگوں کا اعتماد اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس کی نوزائیدہ تنظیم کا بجٹ 21 ملین پاؤنڈ سے بڑھ جاتا ہے۔ لوگوں کے اعتبار کو دیکھتے ہوئے وہ نوجوان 26 ممالک میں اپنی تنظیم کے ہیڈ آفسز بنا کر اسے 50 سے زائد ممالک میں پھیلا دیتا ہے۔

کام بڑھتا ہے تو ملازمین کی تعداد بھی 30000 سے تجاوز کر جاتی ہے لیکن شفافیت کا یہ عالم ہے کہ اتنا بڑا نیٹ ورک ہونے کے باوجود صرف 10 % فنڈ تنظیمی اخراجات جبکہ 90 % لوگوں کی داد رسی کے لیے مختص ہیں اور اس لحاظ سے شاید یہ دنیا کی واحد تنظیم ہے۔ نوجوان امن ومحبت کی ایسی مثال ہے کہ اسرائیل جیسا ملک بھی اسے مسجد اقصیٰ میں کام اجازت دے دیتا ہے اور وہ مسجد کی تزئین و آرائش سمیت مختلف سہولیات کویقینی بناتا ہے اور آج وہاں لگی عظیم الشان لائیٹس اسی نوجوان کا کارنامہ ہے۔

نوجوان کی نظر اور مقصد بڑا وسیع ہے کہ وہ مختلف ممالک میں مسلمان قیدیوں کو رہائی بعد معاشرے میں بحال ہونے میں مدد دیتا ہے، ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی دماغی صحت کے لیے کروڑوں کا خطیر فنڈ مختص کر رکھا ہے، غیر مسلم ملازمین اس کی ملازمت میں گھر جیسا ماحول محسوس کرتے ہیں اور میرٹ کے معاملے میں اتنا سخت ہے کہ سگا بیٹا بھی باپ کی تنظیم میں ایک عام ملازم کی طرح کام کرتا ہے۔

اس کی تعلیمی خدمات پر نظر دوڑاتا ہوں تو صرف برمنگھم میں قائم الحسنات سٹی کالج دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں جو برطانیہ جیسے مہنگے ملک میں بالکل مفت تعلیم مہیا کر رہا ہے اور سالانہ بجٹ 250000 پاؤنڈ ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے 230 سکول جن میں 50000 بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہیں جن میں صرف وزیرآباد کے سکول آف ایکسیلینسی کا سالانہ بجٹ 70000000 سے زائد ہے۔ صحت سے متعلق خدمات کی بات کی جائے تو وزیر آباد کے فری آئی کیمپ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 12000 پلس ہے جبکہ صرف میرپور میں قائم فری فارمیسی کا سالانہ بجٹ 450000 سے زائد ہے، صاف پانی مہیا کرنے کی بات کی جائے تو مالی، نیامی، سینیگال، گیمبیا، موریطانیہ، سوڈان، صومالیہ سمیت دنیا بھر میں لگائے گئے فلٹر پلانٹس کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے اور صرف ایک پلانٹ کا بجٹ 15000 سے زائد ہے، اسی نوجوان نے دنیا کو اوپن کچن کا تصور دیا جس سے بقول حکومت برطانیہ، سٹریٹ کرائم ختم میں مدد ملی، دنیا بھر میں 1000 سے زائد مساجد تعمیر کیں، ترکی میں شامی مہاجرین کی آبادکاری، صحت اور تعلیم کے لیے اپنی خدمات مہیا کیں اور روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے 30 لاکھ پونڈز کے رمضان پیکج کے ساتھ ساتھ سات سو عارضی گھروں کی تعمیر کی۔

دنیا آج اس نوجوان کو سید لخت حسنین اور اس کی تنظیم کو مسلم ہینڈز انٹرنیشنل سے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی لخت حسنین ہیں جن کے لیے حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز کا اعلان کیا ہے۔ اسی لخت حسنین نے پاکستان کی گلیوں میں فٹبال کھیلنے والے بہترین ٹیلنٹ کو اکٹھا کیا، میرپور میں 25000000 کی لاگت سے آسٹروٹف فٹبال گرانڈ بنایا، بچوں کو تربیت دی اور 2018ء میں ماسکو میں ہونے سٹریٹ چلڈرن ورلڈکپ میں دوسری پوزیشن کے ساتھ پاکستان کا نام روشن کیا۔ ایسے لوگ دنیا بھر میں روشن پاکستان کا مثبت تعارف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).